صبح سے چھاجوں مینہ برس رہا تھا لیکن ابھی تھوڑی دیر پہلے جب دن ڈھلنے والا تھا تو اس کی رفتار میں سستی آگئی تھی۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی میں بھیگتی سڑک پر گاڑیاں سبک رفتاری سے چل رہیں تھیں۔ ابھی ابھی ایک کار ایک موڑ کاٹ کر سیدھی سڑک پر بوندا باندی سے بھی دھیمی رفتار سے چل رہی تھی۔ یہ کار آگے جاکر ایک دوسرے موڑ کے پاس رک گئی اور چند لمحے وہاں ٹھہرنے کے بعد سیدھا جانے کی بجاۓ موڑ پر مڑ گئی۔ کچھ دیر بعد گھوم کر دوبارہ پہلے والے موڑ پر واپس آگئ اور پھر سے سیدھی سڑک پر چلنے لگی۔ دوسرے موڑ پر پہنچ کر اس نے پھر ایسے ہی کیا اور دوسری مرتبہ ایک چکر کاٹ کر پہلے موڑ پر واپس آگئ۔ تین چار بار گاڑی یہ عمل دہراتی رہی۔ ایک موڑ سے دوسرے موڑ پر جاتی اور چند لمحے وہاں ٹھہر کے ایک چکر کے بعد دوبارہ وہاں پہنچ جاتی۔ جب یہ کھیل کچھ دیر تک جاری رہا تو برلبِ سڑک بنچ پر بیٹھے ایک شخص کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی جو تھوڑی دیر پہلے دنیا و مافیہا سے بے خبر سر جھکاۓ تنہا بنچ پر بیٹھا تھا۔ اس آدمی نے گھٹنوں سے نیچے تک سیاہ رنگ کا لمبا کوٹ پہن رکھا تھا جس کے نیچے سیاہ رنگ کی پتلون تھی جس کے پائنچے کوٹ سے باہر جھانک رہے تھے۔ پاؤں پر سیاہ رنگ کے ہی جوتے تھے جس کے لمبے تسمے نیچے لٹک کر زمین پر بارش کے پانی سے بھیگ رہے تھے۔ سر پر گہرے بھورے رنگ کا ہیٹ تھا جو ذرا ترچھا سا سر پر سجھا ہوا تھا۔ چہرے پر ہلکی سی داڑھی کچھ بڑھی ہوئی تھی لیکن ظاہر ہوتا تھا چند دن پہلے اسے بڑی نفاست سے تراشا گیا تھا۔
گاڑی جب چوتھی مرتبہ اس کے پاس سے گزری تو اس نے اندر بیٹھے مسافروں کو غور سے دیکھا اندر تین چار لڑکیاں تھیں جو شاید شرارت کے موڈ میں تھیں یا بارش کے موسم سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ان کی گاڑی اگلے موڑ پر جا کر رک گئی۔ اس بار گاڑی کا پچھلا دروازہ کھلا جس میں سے ایک لڑکی باہر نکلی اور گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ کے پاس پہنچ گئی۔ پھر گاڑی کا اگلا دروازہ کھلا ایک دوسری لڑکی باہر نکلی اور اس پہلی والی لڑکی کی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئی۔ پہلی لڑکی نے گاڑی کا اسٹیئرنگ سنبھالا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ ایک چکر کاٹ کر گاڑی دوبارہ اسی سڑک پر آگئی۔ ڈرائیور بدلنے کے باوجود گاڑی کی رفتار میں کوئی خاطر خواہ فرق نہیں آیا تھا لیکن اس دفعہ لڑکی نے شرارتاً گاڑی اس بنچ والے آدمی کے بالکل پاس سے گزاری جس سے پانی کی چھینٹیں اس آدمی کے چہرے اور کپڑوں پر پڑیں۔ چاروں لڑکیوں نے بلند آواز میں قہقہہ لگایا۔
اگلی بار جب گاڑی موڑ مڑ کر سیدھی سڑک پر آئی تو وہ آدمی اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا اور جونہی گاڑی اس کے قریب پہنچی وہ اچانک اس کے آگے آگیا۔ گاڑی اس سے ٹکرائی اور وہ بونٹ کے اوپر اوندھے منہ ڈھیر ہو گیا۔ گاڑی بریکس اور ڈرائیور لڑکی کی زوردار چیخ کے ساتھ رک گئی۔ چاروں لڑکیاں باہر نکلیں اس آدمی کو جلدی سے سیدھا کرکے دیکھا چوٹ کا نشان کہیں نظر نہیں آرہا تھا لیکن وہ آدمی بیہوش ہو چکا تھا۔ لڑکیاں گبھرا گئیں۔ اس سے پہلے کوئی انہیں دیکھتا انہوں نے جلدی سے آدمی کو کسی نہ کسی طرح گھسیٹ کر گاڑی میں بٹھایا اور اسے لے کر وہاں سے فرار ہو گئیں۔
کمرے کے ایک کونے میں آتش دان جل رہا تھا جس کی روشنی کمرے کے بالکل وسط میں زمین پر بچھے کارپٹ پر لاش کی طرح پڑے لمبے کوٹ والے آدمی کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ اس کے اردگرد کچھ فاصلے پر بیٹھی چاروں لڑکیاں تقریباً اونگھ رہی تھیں۔ باہر لگاتار بارش ہو رہی تھی جس نے رات کے اس پہر ٹھنڈ میں مزید اضافہ کر دیا تھا لیکن آتش دان سے کمرے کے اندر کا درجہ حرارت بہت بہتر ہو گیا تھا۔ لاش میں ذرا سی حرکت ہوئی تو ایک لڑکی جس نے ابھی ابھی آنکھ کھول کر نیند کے عالم میں لاش کی طرف نگاہ ڈالی تھی تقریباً چلا اٹھی۔ 'لگتا ہے اس کو ہوش آرہا ہے۔' باقی تینوں لڑکیاں جو ابھی تک نیند کے خمار میں تھیں فوراً متوجہ ہوئیں۔ انہوں نے آگے بڑھ کر آدمی کو جگانے کی کوشش کی مگر وہ پھر سے بےہوش ہو چکا تھا۔ چاروں لڑکیاں تھک ہار کر دوبارہ اپنی اپنی سیٹوں پر جا بیٹھیں۔
'مجھے لگتا ہے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہیۓ۔' ایک لڑکی جس نے سب سے پہلے آدمی کو حرکت کرتے دیکھا تھا بولی۔
پاگل ہو گئی ہو اگر اسے کچھ ہو گیا تو ہم مارے جائیں گے کیونکہ وہ ہماری گاڑی سے ٹکرایا ہے۔' دوسری لڑکی نے کہا۔
یہی تو میں کہہ رہی ہوں اگر اسے کچھ ہو گیا تو ہم مارے جائیں گے۔ اگر وہ بچ گیا تو بتا تو سکے گا کہ ہمارا اس میں کوئی قصور نہیں وہ خود گاڑی سے ٹکرایا تھا۔' پہلی لڑکی نے جواب دیا۔
میرا خیال ہے سمیرا ٹھیک کہہ رہی ہے۔'تیسری لڑکی جو ذرا ہٹ کر آتش دان کے پاس اوپر صوفے پر بیٹھی تھی بولی۔ 'اگر ہم اسے ڈاکٹر کے پاس نہ لے کر گۓ تو بیچارے کی جان جا سکتی ہے۔ پھر تو ہم پکا پھنسیں گی۔'
ٹھیک ہے پھر اٹھاؤ اسے لے چلیں ڈاکٹر کے پاس۔' دوسری لڑکی نے رضامندی ظاہر کرتے ہوۓ کہا۔
چاروں لڑکیاں آگے بڑھیں مگر جونہی وہ اس کے پاس پہنچیں وہ آدمی فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا۔ یہ عمل اتنی تیزی سے ہوا کہ چاروں گبھرا کر پیچھے ہٹ گئیں۔
میں کہاں ہوں؟' وہ آدمی نیم بے ہوشی کے عالم میں دھیرے سے بولا۔
گھبرائیں نہیں آپ بالکل محفوظ ہیں۔ آپ ہماری گاڑی سے ٹکرا کر بے ہوش گۓ تھے اس لیۓ ہم آپ کو اٹھا کر یہاں لے آۓ۔' ایک لڑکی نے کہا۔
میں آپ کی گاڑی سے کب ٹکرایا تھا؟' آدمی نے اسی نیم بے ہوشی کے سے انداز سے پوچھا۔
۔
آپ کو یاد نہیں؟' لڑکی نے پوچھا۔
نہیں۔'
یاد کریں سڑک پر بارش ہو رہی تھی۔۔۔
سڑک۔۔۔بارش۔۔۔کب ہو رہی تھی بارش۔۔۔میں سڑک پر کب آیا تھا؟'
چھوڑیں اس کو' دوسری لڑکی بولی۔ 'آپ یہ بتائیں آپ کا گھر کہاں ہے؟ ہم آپ کو وہاں چھوڑ آتے ہیں.'
گھر۔۔۔کون سا گھر۔۔۔کہاں ہے میرا گھر۔۔۔مجھے معلوم نہیں۔' آدمی مکمل طور پر ہوش میں آچکا تھا لیکن اسے ابھی بھی کچھ بھی یاد نہیں آرہا تھا۔
آپ کو اپنا گھر معلوم نہیں' لڑکی نے خیرت سے پوچھا۔
مجھے کچھ یاد نہیں آرہا۔ میں کون ہوں، میرا نام کیا ہے؟'
او میرے خدایا! لگتا ہے اس کی یاداشت چلی گئی۔' تیسری لڑکی نے گبھرا کر کہا۔ 'اب کیا ہو گا۔'
کچھ نہیں ہوا اسے ایسے ہی ڈرامے کر رہا ہے۔ ابھی اسے ہوش میں لاتی ہوں۔' سمیرا جو اس وقت سے خاموش کھڑی تھی آگے بڑھی اور اسے جنجھوڑ کر پوچھنے لگی۔ 'بتاؤ کون ہو تم اور کیا چاہتے ہو۔ تم جان بوجھ کر ہماری گاڑی سے ٹکراۓ تھے اور اب یاداشت جانے کا ڈھونگ کر رہے ہو۔'
آپ کون ہیں اور مجھے کیوں مار رہی ہیں؟' آدمی نے دھیمے انداز سے بڑے بھولپن سے پوچھا۔
ہماری چھوڑو پہلے تم بتاؤ تم کون ہو۔' لڑکی اس کا کالر پکڑ کر اسے زور سے کھینچ کر بولی۔
میں کیا بتاؤں میں کون ہوں۔ میں خود نہیں جانتا میں کون ہوں۔' آدمی نے فضا میں کہیں گھورتے ہوۓ کہا۔
سمیرا چھوڑ دو اسے' ایک لڑکی بولی۔ 'یہ ٹھیک کہہ رہا ہے لگتا ہے واقعی اس کی یاداشت چلی گئی ہے۔ تھوڑا انتظار کرو ہو سکتا ہے صبح تک اسے یاد آجاۓ۔'
اور اگر نہ آیا تو؟' ایک لڑکی نے پوچھا۔
پھر اس وقت دیکھیں گے اس کا کیا کرنا ہے۔'
پانی۔۔۔! مجھے پانی مل سکتا ہے۔ بڑی سخت پیاس لگی ہے۔' آدمی نے کہا۔
پیاس کے علاوہ آپ کو بھوک بھی لگی ہو گی؟' لڑکی نے پوچھا۔
جی تھوڑی لگی تو ہے۔'
ٹھیک ہے آپ کو پانی، کھانا اور رضائی کمبل وغیرہ مل جاۓ گا آپ اس صوفے پہ سو رہنا۔ آج رات آپ یہاں ٹھہریں رہیں صبح آپ کا گھر تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔۔۔ چلو ہم لوگ چلتے ہیں اسے آرام کرنے دو۔' لڑکی باہر نکل گئی۔ اس کے پیچھے باقی سب لڑکیاں بھی باہر نکل گئیں۔
لڑکیوں کے جانے کے بعد آدمی نے اردگرد دیکھا ایک کونے میں کرسی پر اس کا ہیٹ پڑا ہوا تھا۔ وہ اٹھا اور ہیٹ اٹھا کر الٹ پلٹ کر دیکھنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر دیکھنے کے بعد اس نے اسے واپس اسی جگہ پر رکھ دیا۔ پھر آگے بڑھا اور کھڑکی سے پردہ اٹھا کر باہر جھانکنے لگا۔ باہر اندھیرا تھا لیکن کھڑکیوں کے شیشے نم آلود تھے لگتا تھا بارش ابھی ہو رہی ہے۔ اس نے پردہ دوبارہ کھڑکی کے آگے کر دیا اور آتش دان کے پاس آگیا۔ اپنا کوٹ اتار کر اس نے کھڑکی کی پشت پر ٹانک دیا۔ اس کے بعد اس نے گھوم پھر کر کمرے کا جائزہ لیا اور دیوار کے سامنے پڑے ہوۓ قدِ آدم آئینے کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ آئینے میں اپنی صورت دیکھنے کے بعد اس نے اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے بالوں کو درست کیا اور دوسری دیوار پر آویزاں ایک بڑی سی پینٹنگ دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔ ابھی وہ پینٹنگ دیکھنے میں مگن تھا کہ دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ اس نے گردن گھما کر دروازے کی طرف دیکھا ایک آدمی کھانے کا ٹرے ہاتھ میں پکڑے اندر داخل ہوا۔ شکل و صورت اور حلیے سے وہ آدمی ملازم دکھائی دیتا تھا۔ وہ ٹرے میز پر رکھ کر باہر نکل گیا۔ لمبے کوٹ والا آدمی آگے بڑھا اور ٹرے اٹھا کر دیکھا کھانے کی خوشبو سے اس کی بھوک اور بڑھ گئی تھی۔ اس نے وہیں کھڑے کھڑے کھانا شروع کر دیا۔ وہ یوں تیزی سے کھا رہا تھا جیسے برسوں کا بھوکا ہو۔ دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی وہی آدمی جو تھوڑی دیر پہلے کھانا دے کر گیا تھا اندر آیا۔ اس بار اس کے ہاتھ میں کمبل اور تکیہ تھا۔ اس نے دونوں چیزیں صوفے پر رکھیں اور آدمی سے پوچھا۔ 'آپ کو کچھ اور چاہیۓ؟' اس نے نفی میں سر ہلایا اور کرسی پر بیٹھ کر اطمینان سے کھانا شروع کر دیا۔ ملازم جیسے آیا تھا ویسے ہی خاموشی سے باہر نکل گیا۔ اس کے جانے کے بعد آدمی نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا اور آکر بستر پر دراز ہوگیا۔
صبح تک بارش تھم چکی تھی مگر آسمان پر ابھی گھنے اور سیاہ بادلوں کا رقص ان کے ارادوں کو صاف ظاہر کر رہا تھا۔ گذشتہ رات کی بارش سے پیڑ، پودے، سبزہ ہر چیز نہا کر ترو تازہ و شاداں و فرحاں دکھائی دے رہی تھی۔ پھولوں کی پتیوں پر بارش کے ننھے ننھے قطرے استراحت فرما رہے تھے اور درختوں کی شاخوں اور ڈالیوں پر رکی ہوئی بارش آہستہ آہستہ کرکے قطروں کی صورت زمین پر اتر رہی تھی۔
دن کا اجالا پھیلتے ہی لمبے کوٹ والے آدمی کی آنکھ کھل گئی تھی۔ اس نے اٹھ کر سب سے پہلے کھڑکی سے پردہ ہٹا کر باہر دیکھا اور دوبارہ صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔ ابھی تک اس کمرے میں باہر سے کوئی بھی نہیں آیا تھا۔ شاید ابھی سب سو رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اٹھا اور دروازے کی طرف بڑھا۔ دروازے کے پاس پہنچ کر وہ رک گیا۔ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ دروازہ کھول کر باہر نکل کر دیکھے یا وہیں انتظار کرے۔ چند لمحے وہاں کھڑا رہنے کے بعد اس نے دروازے کا کنڈا آہستہ سے نیچے کی طرف دبایا جس سے دروازہ کھل گیا۔ بڑے آرام سے وہ باہر نکلا اور دروازے کے پاس کھڑے ہو کر اردگرد دیکھنے لگا۔ ایک طرف چند کمرے تھے اور ایک طرف راہ داری تھی جو نیم تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس نے راہداری کی طرف قدم بڑھاۓ اور چلتا ہوا ایک کھلے حال میں پہنچ گیا۔ اردگرد کا جائزہ لینے کے بعد وہ ایک طرف کو چل پڑا۔ آگے ایک بڑا سا دروازہ تھا جو بند تھا۔ اس نے آہستگی سے دروازہ کھولا اور باہر جھانک کر دیکھا۔ باہر برآمدہ تھا جس کے پیچھے وسیع صحن تھا۔ صحن میں جانے کی بجاۓ اس نے دروازہ دوبارہ بند کر دیا اور واپس مڑ کر دوسری جانب کا رخ کیا۔ چند قدم چلنے کے بعد اسے باورچی خانہ نظر آیا۔ اس نے باہر کھڑے ہو کر اندر جھانک کر دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا۔ اتنا بڑا گھر اس وقت یوں ویران اور سنسان پڑا تھا کہ اسے لگا وہ قبرستان میں آگیا ہے۔ چلتا ہوا وہ سیڑھیوں کے پاس آگیا۔ اس نے اوپر جاتی سیڑھیوں کا بغور جائزہ لیا اور پھر آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اوپر جاتے ہوۓ وہ سیڑھیوں کے درمیان میں پہنچ گیا۔ یہاں سے سیڑھیاں ایک بل کھا کر اوپر جاتی تھیں۔ وہ ایک پل کے لیۓ وہاں ٹھہرا اور پھر اوپر چڑھنے لگا۔ جب وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا تو آگے ایک بڑا سا دروازہ تھا اس نے دروازہ کھولا اور چھت پر آگیا۔ جیسے ہی اس نے دروازے کے باہر چھت پر قدم رکھا سرد ہوا کا ایک جھونکا اس کے سر اور چہرے کو چھو کر فرار ہو گیا۔ اس نے اوپر دیکھا آسمان پر گہرے سیاہ بادلوں کا سایہ ہر سو پھیلا تھا۔ وہ آگے بڑھا اور منڈیر کے پاس پہنچ کر سردی سے ٹھٹھرتی کانپتی بارش سے تر بتر آہنی ریلنگ پر اپنے دونوں ہاتھ ٹکا کر کھڑا ہو گیا۔ اردگرد کے تمام گھر ایک دوسرے سے دوری بناۓ کھڑے تھے مگر سب کے سب ایک جیسے دکھتے تھے۔ ذرا ہٹ کر بل کھاتی ہوئی باریک سی خوبصورت سڑک ان گھروں کو چھوۓ بغیر ان کے پاس سے خاموشی سے گزر رہی تھی۔ ان کے اوپر سیاہ بادلوں کے مرغولے یہاں وہاں چہل قدمی کر رہے تھے۔ اس نے گھوم کر چاروں طرف دیکھا دوسری جانب بھی وہی سڑک چل کر وہاں تک پہنچ گئی تھی جس کے اردگرد دوری کو قائم رکھے چند گھر تھے جن کے عقب میں سبزہ تھا اور جس کے پرلی طرف کچھ فاصلے پر درختوں کے جھنڈ تھے جو میلوں تک پھیلے ہوۓ تھے۔ وہ پلٹ کر دوبارہ اس جانب دیکھنے لگا جس سمت وہ پہلے دیکھ رہا تھا۔ ایک لڑکی اوپر آئی اور آکر بولی۔ 'آپ یہاں ہیں ہم نے کہا پتہ نہیں کہاں چلے گۓ ہیں۔'
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہا۔ ' وہ میری جلدی آنکھ کھل گئی تھی اس لیۓ اوپر چلا آیا۔'
اور کیسی طبعیت ہے آپ کی؟ کچھ یاد آیا؟'
نہیں ابھی تک تو کچھ یاد نہیں آیا۔'
چلیں آپ نیچے آجائیں ناشتہ وغیرہ کریں پھر دیکھتے ہیں۔' لڑکی بول کر نیچے چلی گئی۔
وہ کچھ دیر وہاں کھڑا رہا پھر وہ بھی سیڑھیاں اتر گیا۔
ناشتہ کیۓ ہوۓ اسے بہت وقت بیت گیا تھا لیکن ابھی تک اس کمرے میں ان لڑکیوں میں سے کوئی بھی نہیں آیا تھا۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑا باہر رنگ برنگے پھولوں میں گرے لان کو دیکھنے میں محو تھا کہ دروازے پر دستک کے بعد دو لڑکیاں اندر آئیں۔
ناشتہ ٹھیک سے کر لیا ہے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔' اندر آتے ساتھ ایک لڑکی نے پوچھا۔
جی نہیں فی الحال تو کسی چیز کی ضرورت نہیں۔'
ہم آپ سے ایک بات کرنا چاہتے ہیں۔' دوسری لڑکی بولی۔
جی کہیۓ۔'
بات یہ ہے ہم نے سوچا تھا شاید آپ کو صبح تک کچھ یاد آجاۓ گا تو ہم آپ کو آپ کے گھر پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ مگر ابھی تک تو آپ کو اپنا نام بھی یاد نہیں آیا۔'
جی۔'
بات یوں ہے' لڑکی نے اپنی بات جاری رکھی۔'یہ گھر جو آپ دیکھ رہے ہیں ہے تو ہمارا اپنا مگر ہم یہاں رہتے نہیں ہیں۔ ہمارے والدین اور دوسرے گھر والے سب بیرونِ ملک ہیں۔ یہاں ہم اکیلی لڑکیاں رہ رہی ہیں اس لیۓ آپ کو زیادہ دن یہاں رکھنا مناسب نہیں۔ ہم بھی کچھ دنوں تک یہاں سے چلے جائیں گی پھر یہ گھر بند پڑا رہے گا۔
جی میں سمجھ سکتا ہوں۔'
لیکن آپ کو بھیجے کہاں آپ کو تو راستہ وغیرہ کچھ بھی یاد نہیں۔' دوسری لڑکی نے پوچھا۔
آپ فکر نہ کریں آپ مجھے رخصت کریں میں کہیں نہ کہیں کوئی ٹھکانہ ڈھونڈ لوں گا۔' آدمی نے جواب دیا۔
پھر بھی آپ کہاں جائیں گے؟'
چل پڑوں گا کسی نہ کسی سمت پھر جہاں یہ قدم لے جائیں۔'
نہیں ایسے ٹھیک نہیں۔' لڑکی بولی۔ 'آپ ہماری گاڑی سے ٹکراۓ تھے آپ کی اس حالت کے ذمے دار کسی حد تک ہم لوگ بھی ہیں۔ ہم آپ کو ایسے تو نہیں جانے دے سکتے۔ آپ ایک دو دن تک یہیں ٹھہریں ہم کسی ڈاکٹر سے بات کرتے ہیں جو یہاں آکر آپ کو دیکھ جاۓ ممکن ہے اس سے آپ کو کچھ یاد آجاۓ۔'
ٹھیک ہے جیسے آپ بہتر سمجھیں۔ میں تو اس وقت کسی قسم کا فیصلہ کر سکنے کی حالت میں نہیں ہوں۔' آدمی نے اس کی بات سے اتفاق کرتے ہوۓ کہا۔
ٹھیک ہے پھر آپ آرام کریں۔ کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو بلا جھجھک بتا دیجیۓ گا۔' لڑکیاں کمرے سے نکل گئیں۔
آدمی نے اس کی بات کے جواب میں سر ہلایا اور دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
باہر لان میں سامنے والی کیاری میں سرخ اور سفید گلاب کی ایک قطار کافی آگے تک جارہی تھی جبکہ بائیں جانب دوسری کیاری میں موتیے کے سفید پھول کھلے تھے۔ اس کے علاوہ گملوں میں بھی کئ طرح کے پھول رات بھر کی بارش سے نہا کر تر و تازہ مہک بکھیر رہے تھے۔ ان پودوں پر چڑیاں چہچہا رہی تھیں جن کی چہک کمرے میں بھی صاف طور پر سنائی دے رہی تھی۔ دن بھر وہ کھڑکی کے پاس بیٹھا چڑیوں کی چہکاریں اور پھولوں کی مہکاریں سننے اور سونگھنے میں محو رہا جبکہ شام سے کچھ دیر پہلے سپہر کے وقت وہ کمرے سے نکلا اور چھت پر آگیا۔ چھت پر ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جو اسے بھلی لگ رہی تھی۔ ابھی وہ وہیں ٹہل رہا تھا جب سمیرا اوپر آئی۔ حال احوال پوچھنے کے بعد اس نے کہا۔ 'میں آپ سے معافی مانگنے آئی تھی۔ میں نے جو اس وقت آپ کے ساتھ سلوک کیا اس کے لیۓ میں معذرت خواہ ہوں۔ میں سمجھی تھی شاید آپ جان بوجھ کر یاداشت جانے کا ناٹک کر رہے ہیں۔ لیکن میں غلط تھی۔'
کوئی بات نہیں۔ آپ کی جگہ اگر میں ہوتا تو شاید میں بھی ایسا ہی سمجھتا۔'
پھر بھی آپ کو برا تو لگا ہو گا۔' لڑکی بولی۔ 'میں اس کے لیۓ دوبارہ آپ سے معافی مانگتی ہوں۔'
نہیں کچھ زیادہ برا نہیں لگا لیکن اگر آپ بار بار معافی مانگیں گیں تو ضرور برا لگے لگا۔' آدمی نے کہا۔
ٹھیک ہے نہیں مانگتی معافی لیکن اس کا مطلب یہ ہوا آپ نے مجھے معاف کر دیا۔'
ہاں کر دیا۔ اب چھوڑیں اس بات کو آپ بتائیں آپ کیا کرتی ہیں یا کیا کرنا پسند کرتی ہیں؟' آدمی نے پوچھا۔
پہلے آپ بتائیں آپ کیا کرتے ہیں؟'
میں اگر یہ بتا سکتا ہوتا تو اس وقت یہاں موجود ہی کیوں ہوتا۔'
اوہ! میں معافی چاہتی ہوں میں بھول گئی تھی کہ آپ۔۔۔' لڑکی نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
کہ آپ کو کچھ یاد نہیں یہاں تک کہ اپنا نام بھی نہیں۔' آدمی نے اس کا ادھورا فقرا مکمل کر دیا۔ 'خیرت ہے یاداشت میری گئی ہے اور بھول آپ رہی ہیں۔'
جی وہ بس۔۔۔' ابھی وہ بات مکمل نہ کر پائی تھی کہ ایک لڑکی اوپر آئی اور آتے ہی اس نے اسے پکارا۔
سمیرا تمہیں کتنی آوازیں دیں ہیں سنتی نہیں۔ نیچے آؤ تم سے کام ہے۔'
سمیرا اس لڑکی کے ساتھ نیچے چلی گئی اور وہ وہیں چھت پر ٹہلنے لگا۔ شام کے بعد جب اندھیرا ہر سو پھیل گیا اور سب کچھ دکھائی دینا بند ہو گیا تو وہ نیچے چلا آیا۔ رات اس نے سوتے جاگتے میں کاٹی جبکہ اگلی صبح ابھی اسے نیند سے بیدار ہوۓ کچھ ہی وقت ہوا تھا کہ ایک لڑکی اندر آئی۔
آجائیں ڈاکٹر صاحب۔' اس لڑکی نے ایک آدمی کو پکارا جو اس کے پیچھے کمرے میں چلا آرہا تھا۔ یہ مریض ہیں۔' لڑکی لمبے کوٹ والے آدمی کی طرف اشارہ کرکے بولی۔ ڈاکٹر اندر آیا تو لڑکی آدمی سے مخاطب ہوئی۔ 'یہ ڈاکٹر صاحب ہیں۔ یہ آپ کا معائنہ کریں گے۔'
لمبے کوٹ والے آدمی نے ڈاکٹر کو سلام کیا اور خاموشی سے بیٹھ گیا۔ ڈاکٹر اس کا معائنہ کرنے لگا۔ 'کہیں درد تو نہیں ہے؟' ڈاکٹر نے اس کے سر کو مختلف جگہوں سے اپنی انگلیوں اور انگوٹھے سے دبا کر پوچھا۔
نہیں۔ درد تو کہیں نہیں۔' آدمی نے آہستگی سے جواب دیا۔
ڈاکٹر کچھ دیر تک اس کا معائنہ کرتا رہا پھر لڑکی سے مخاطب ہوا۔ 'اس طرح کچھ بھی بتانا مشکل ہے آپ کو انہیں ہاسپٹل لانا پڑے گا۔ ان کے سر کا ایکسرے کریں گے تب پتہ چلے گا چوٹ کہاں پر لگی ہے اور کتنی گہری لگی ہے۔ تب ہی اندازہ ہو گا کہ ان کی یاداشت کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔'
ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب ہم انہیں ہاسپٹل میں لے آئیں گے۔ آپ کا بہت شکریہ آپ یہاں تشریف لاۓ۔'
ڈاکٹر نے مزید چند سوال اس سے پوچھے اور رخصت ہو گیا۔ لڑکی بھی اس کے ساتھ باہر نکل گئی۔ وہ آدمی جلدی سے اٹھا کرسی کی پشت پر اس کا لمبا کوٹ ابھی بھی لٹک رہا تھا اس نے کوٹ کرسی سے اٹھایا اور پہن لیا۔ پھر اپنا ہیٹ اٹھایا اور سر پر رکھ لیا۔ اس کے بعد اپنے جوتوں کی طرف بڑا ابھی وہ جوتے پہننے والا تھا کہ کچھ سوچ کر رک گیا۔ اس نے جوتے وہیں چھوڑے اور کچھ سوچتے ہوۓ آہستہ آہستہ واپس پلٹ آیا۔ کوٹ اور ہیٹ اتار کر دوبارہ اسی جگہ پر رکھ دیۓ جہاں وہ پہلے پڑے تھے۔
وہ تمام دن اس نے اپنے کمرے میں ہی گزارا لیکن شام سے کچھ دیر پہلے وہ چھت پر چلا آیا۔ آج دن بھر ہلکی سی دھوپ نکلی تھی جو اس وقت بالکل ٹھنڈی پڑ چکی تھی اور چند گھڑی کی مہمان تھی۔ مغرب کی سمت سورج درختوں کے جھنڈ کے پیچھے کہیں سے جھانک رہا تھا جس کی چند گنی چنی دم توڑتی کرنیں ان درختوں کی شاخوں کو چیرتی ہوئی وہاں تک پہنچ رہی تھیں۔ آسمان پر ہر سو سرخی پھیل گئ تھی۔ وہ ٹہل کر ایک جانب گیا اور پھر کچھ دیر بعد دوسری منڈیر کی طرف بڑھا لیکن سیڑھیوں سے اسے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی تو وہ وہیں رک کر سیڑھیوں کی جانب دیکھنے لگا۔ چند لمحوں میں جب وہ قدم چھت پر پہنچ گۓ تو وہ مسکرا اٹھا۔ وہ سمیرا کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔
آپ'! اس نے خیرت سے پوچھا۔ 'ویسے میرا دل کہتا تھا آج بھی آپ معافی مانگنے ضرور آئیں گی۔'
جی بس میں نے سو چا ایک بار پھر معافی مانگنے میں کیا خرج ہے۔' وہ مسکرائی۔ 'ویسے آپ کو یہ کیوں لگا کہ میں آج پھر آؤں گی؟'
معلوم نہیں۔ میں خود نہیں جانتا مجھے ایسا کیوں لگا۔' آدمی نے دور سڑک پر کہیں دیکھتے ہوۓ کہا۔
دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے۔ جب سورج دور پہاڑوں میں روپوش ہو گیا اور دن کا اجالا تمام ہوا اور جب رات کی سیاہی آسمان سے اتر کر زمین پر پھیلنے لگی تو وہ بھی نیچے اتر آۓ۔
اگلے دن لڑکیوں نے اسے بتایا کہ جو ڈاکٹر اسے دیکھنے آیا تھا اور جس نے اسے ہسپتال میں آنے کو کہا تھا وہ اگلے دو دنوں تک اپنے کسی ضروری کام کی وجہ سے چھٹی پر ہے۔ اس لیۓ اب دو دن بعد ہسپتال جانے ہو گا۔ وہ دن بھی اس نے تقریباً کمرے میں گزارا اور پھر شام سے کچھ دیر پہلے بالکل اسی وقت وہ چھت پر چلا آیا۔ ایک دو چکر لگانے کے بعد وہ منڈیر پر اپنی دونوں کہنیاں ٹکاۓ بلا مقصد سامنے والی خالی سڑک کو دیکھنے لگا۔ کتنی دیر تک وہ وہیں بے حس و حرکت کھڑا رہا۔ تب اسے اپنے پیچھے کسی کے چلنے کی آواز آئی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سمیرا تھی۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرایا۔ وہ بھی اس سے کچھ فاصلے پر منڈیر پر ہاتھ رکھ کر خالی سڑک کو دیکھنے لگی۔
آپ روز چھت پر آتی ہیں؟' اس نے اسی انداز میں جس انداز سے وہ کھڑا تھا اس سے پوچھا۔
نہیں کھبی کھبی۔ لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ لگاتار تین دن آئی ہوں۔'
کیوں۔۔۔ ایسا کیوں؟'
ایک دن تو آپ سے معافی مانگنے آئی تھی اور اس کے بعد۔۔۔پتہ نہیں کیوں۔ میں خود نہیں جانتی۔' اس نے سامنے فضا میں کہیں دیکھتے ہوۓ کہا۔
اس نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ بھی سامنے سڑک پر دیکھنے لگا جہاں دور سے ایک گاڑی اس جانب چلی آرہی تھی۔
چند لمحے خاموشی کے بعد وہ بولا۔ 'آپ کو کیا واقعی یقین آگیا ہے کہ میری یاداشت میں چلی گئ ہے؟'
شاید۔۔۔۔'
شاید سے کیا مراد؟'
شاید یقین کر لیا ہے۔' اس نے کہا۔ 'لیکن یاداشت والی بات سے زیادہ اس بات پر کہ آپ ایک اچھے انسان ہیں۔'
یہ آپ نے کیسے جانا؟' اس نے خیرت سے پوچھا۔ 'یہ تو خود میں بھی نہیں جانتا۔'
مجھے ایسا لگتا ہے۔'
وہ دوبارہ خاموش ہو گیا۔ سڑک پر دور سے آرہی گاڑی قریب پہنچ گئی اور ان کے پاس سے بغیر کوئی آواز کیۓ گزر گئی۔
وہ دونوں دیر تک وہاں کھڑے رہے کبھی باتیں کرتے اور کبھی ان کے درمیان گہری خاموشی چھا جاتی یوں جیسے کہ وہاں کوئی موجود نہ ہو۔ جب دن ڈھل چکا اور شام کے اثرات دور افق تک پھیل گۓ تو وہ نیچے لوٹ آۓ۔
اگلے دو روز بھی اس کا یہی معمول رہا۔ سارا دن کمرے میں بیٹھا رہتا اور شام سے ذرا پہلے سپہر کے وقت چھت پر چلا جاتا تھا۔ کچھ دیر بعد سمیرا بھی وہاں پہنچ جاتی اور وہ دونوں دن ڈھلنے تک باتیں کرتے رہتے تھے۔
تیسرے دن صبح جب وہ بیدار ہوا تو اسے لڑکیوں نے آکر بتایا کہ ڈاکٹر اگلا پورا ہفتہ چھٹی پر ہے۔ مشکل یہ ہے جس علاقے میں وہ رہائش پذیر ہیں وہ ایک سیاحتی علاقہ ہے جہاں آبادی بہت کم ہے اس لیۓ یہاں کسی اور ڈاکٹر کا ملنا انتہائی دشوار ہے لیکن اتنے دن انتظار نہیں کیا جا سکتا اس لیۓ انہوں نے کہا کہ وہ کوشش کرکے دیکھتی ہیں۔
اس نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا اور خاموش رہا۔ وہ دن بھی اس نے لان میں پھولوں اور چڑیوں کے ساتھ گزارا اور بے صبری سے شام کا انتظار کرنے لگا۔ جب شام قریب آئی تو وہ چھت پر چلا آیا۔ سمیرا آج وہاں پہلے سے موجود تھی۔ دونوں اسی جگہ پر منڈیر کے پاس بالکل خاموش کھڑے باتیں کرتے رہے۔ پھر آدمی کے لب ہلے اور دونوں کے درمیان خاموش باتوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔
ایک بات تو بتاؤ سمیرا؟'
جی پوچھیں۔'
ابھی تم میرا نام تک نہیں جانتی لیکن جب تمہیں میرے بارے میں پتہ چلے گا تب اگر میں ویسا آدمی نہ نکلا جیسا تم سمجھتی ہو اور جیسا تم نے تصور کر لیا ہے۔ تو۔۔۔؟'
تو۔۔۔'۔ اس نے سامنے سڑک کی طرف دیکھا اور کسی خیال میں اتر گئی۔ چند لمحوں بعد وہ بولی۔ 'پتہ نہیں! میں نہیں جانتی اس وقت کیا ہو گا اور میں کیا کروں گی۔'
اس دن کے بعد اگلے دن دو لڑکیاں اس کے پاس آئیں جن میں سمیرا بھی تھی۔ انہوں نے کہا اتنی جلدی ڈاکٹر کا ملنا مشکل ہے اس لیۓ بہتر ہے ہم آپ کے گھر اور گھر والوں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن اس کے لیۓ ہمیں پولیس کی مدد لینی پڑے گی۔ وہ ہی آپ کے گھر بار کا پتہ لگا سکتی ہے۔
پولیس!' وہ بولا۔ 'پولیس کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے آپ خود پتہ نہیں لگا سکتیں؟'
ہم یہ کام نہیں کر سکتیں۔' لڑکی نے کہا۔ 'آپ کا گھر بار، عزیز رشتہ دار پتہ نہیں کس جگہ ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے اس شہر میں ہی نہ ہوں کسی دوسرے شہر میں ہوں۔ ایسے میں ہم کیسے پتہ لگا پائیں گی۔ یہ کام صرف پولیس کر سکتی ہے۔'
اور پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے آپ کے گھر والے آپ کو ڈھونڈ رہے ہوں۔' سمیرا بولی۔ 'کیا پتہ انہوں نے آپ کے گم ہونے کی اطلاع پولیس کو کی ہو۔ جب ہم پولیس کے پاس جائیں تو آپ کے گھر والوں کے بارے میں کچھ پتہ چل جاۓ۔'
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ 'ٹھیک ہے اگر آپ کو یہ بہتر لگتا ہے تو پھر چلے چلتے ہیں۔'
لڑکیوں کے جانے کے بعد وہ دیر تک کسی سوچ میں ڈوبا رہا۔ پچھلے پہر چھت پر بھی وہ کھویا کھویا سا رہا۔ سمیرا نے اسے اس حالت میں دیکھا تو پوچھا۔ 'آج خیریت ہے آپ کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں؟'
نہیں۔۔۔ایسا تو کچھ نہیں۔' وہ ہلکا سا چونکا۔
پر آج آپ کچھ کھوۓ کھوۓ سے لگ رہے ہیں۔'
نہیں بس ایسے ہی وہ رات کو نیند ٹھیک طرح سے نہیں آئی تو اس لیۓ۔۔۔' اس نے بات کو ٹالا اور سامنے کی طرف اپنی انگلی سے اشارہ کرتے ہوۓ بولا۔ 'وہ دیکھو یوں لگ رہا ہے سورج زمین میں ڈوب رہا ہے۔'
سمیرا نے سامنے دیکھا دور افق کے پاس سورج زمین پر اتر رہا تھا۔
رات کو سمیرا کھڑکی کے پاس کھڑی باہر لان میں برقی قمقموں کی روشنی میں چکمتے پھولوں کو دیکھے جا رہی تھی۔ باقی لڑکیاں بھی کمرے میں موجود تھیں جو کسی نہ کسی کام میں مصروف تھیں۔ ایک لڑکی جو کتاب پڑھنے میں مشغول تھی نے اس نے سر اٹھا کر سمیرا کی طرف دیکھا اور اشارے سے دوسری لڑکی کو اس کی جانب متوجہ کیا۔ اس نے تیسری لڑکی کو اشارہ کیا پھر تینوں مل کر سمیرا کی طرف دیکھنے لگیں۔ ایک لڑکی اٹھ کر اس کے پاس گئی اور اس کے پیچھے کھڑے ہو کر اس کے کندھے کے اوپر سے کھڑکی سے باہر دیکھ کر بولی۔ 'لگتا ہے باہر کوئی ہے؟'
سمیرا نے چونک کر پیچھے دیکھا۔ لڑکی دھیرے سے ہنسی۔ 'اس وقت باہر کیا دیکھ رہی ہو؟'
کچھ نہیں بس ایسے ہی۔' سمیرا کھڑکی سے ہٹ کر ایک طرف بیٹھ گئی۔
لگتا ہے تمہیں بھی کھڑکی سے پھولوں کو دیکھنا بے حد پسند ہے۔' لڑکی نے کہا۔
تمہیں بھی۔۔۔؟ یعنی کہ کوئی اور بھی ہے جس کو پسند ہے۔' دوسری لڑکی شرارت سے بولی.
ہاں ہیں کچھ اور لوگ بھی.' پہلی لڑکی نے کہا۔
اچھا! کون ہیں وہ لوگ؟' دوسری لڑکی دوبارہ شرارت کے سے انداز سے بولی۔
ہیں کچھ لوگ۔' پہلی لڑکی نے کہا۔
کہیں وہ لوگ آج کل ہمارے مہمان تو نہیں؟' تیسری لڑکی نے پوچھا۔
ہاں مہمان بن کر تو آۓ ہیں۔ ہمارے گھر میں بھی اور۔۔۔ کسی کے دل میں بھی۔' پہلی لڑکی نے نظریں گھما کر سمیرا کی طرف دیکھ کر جواب دیا۔
پھر تو اس لڑکی سے پوچھنا پڑے گا کہ یہ کھڑکی سے پھولوں کو دیکھنا پہلے بھی پسند تھا یا مہمان کے آنے کے بعد ہوا ہے۔' تیسری لڑکی نے کہا۔
کیوں لڑکی بتاؤ؟' پہلی لڑکی سمیرا کو مخاطب کرکے بولی۔
ایسا کچھ بھی نہیں تم لوگ بکواس مت کرو۔' سمیرا ان کو ڈانٹتے ہوۓ بولی۔
اچھا جی کچھ بھی نہیں۔ ہم کیا چھنی کاکیاں ہیں جن کو تم بیوقوف بنا لو گی۔' پہلی لڑکی تنک کر بولی۔
چلو چھوڑو یار اسے تنگ مت کرو۔' تیسری لڑکی آگے بڑھی اور سمیرا کے پاس بیٹھ کر بولی۔ 'سنو لڑکی! اور تو کوئی مسئلہ نہیں بس خیال رہے وہ مہمان ہیں اور مہمان زیادہ دیر ٹھہرا نہیں کرتے۔'
رات کافی گہری ہو گئی تھی۔ آدمی جو کتنی دیر سے کھڑکی کے پاس کھڑا کسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کھڑکی سے ہٹ آیا اور اپنا لباس تبدیل کرکے جوتے پہن کر اپنا لمبا کوٹ پہنا اور سر پر ہیٹ رکھ کر دروازے کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھول کر نکلنے والا تھا لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گیا۔ واپس پلٹا اور ادھر ادھر کچھ تلاش کرنے لگا۔ ایک جگہ پر اسے ایک کاغذ اور پینسل مل گۓ۔ اس نے کاغذ اور پینسل لیۓ اور بیٹھ کر کچھ لکھنے لگا۔ تھوڑی دیر تک وہ کچھ لکھتا رہا پھر کاغذ پینسل وہیں چھوڑ کر دروازے کی طرف قدم اٹھاۓ۔ دروازہ کھولنے سے پہلے اس نے اک نظر سارے کمرے کو دیکھا اور پھر دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
صبح جب لڑکیاں کمرے میں آئیں تو اسے کمرے میں موجود نہ پا کر انہوں نے اسے چھت پر اور گھر میں ادھر ادھر تلاش کرنا شروع کر دیا۔ ایک لڑکی کی نظر میز پر پڑے ہوۓ کاغذ پر پڑی تو اس نے باقی لڑکیوں کو بھی آواز دے کر بلا لیا۔ پھر کاغذ پر لکھی تحریر پڑھنے لگی۔
یہ تحریر یوں تو تم چاروں کے لیۓ ہے لیکن خاص کر اس کے لیۓ ہے جس کی وجہ سے میں نے یہ تحریر لکھنے کا ارادہ کیا۔ کوئی اور طریقہ مجھے نہیں سوجھ رہا تھا کہ تم لوگوں کو کس طرح تمام سچائی اور حقیقت سے آگاہ کروں۔ میں تم لوگوں کو کچھ بھی بتاۓ بغیر یہاں سے نکلنے والا تھا لیکن پھر سمیرا کا خیال آیا تو اس طرح جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اس لیۓ سب کچھ یہاں لکھ کر جا رہا ہوں۔
اس دن جس دن میں تم لوگوں کی گاڑی سے ٹکرایا تھا تو تم سمجھی تھیں کہ یہ حادثاتی طور پر ہوا ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا میں جان بوجھ کر تمہاری گاڑی سے ٹکرایا تھا۔ اس کا مقصد تمہاری اس شرارت کا بدلہ لینا نہیں تھا جو تم لوگوں نے مجھ پر پانی کے چھینٹے اڑا کر کی تھی بلکہ اس کے پیچھے مقصد کوئی اور تھا۔ میں تم لوگوں سے اس امید سے ٹکرایا تھا کہ ہو سکتا ہے تم لوگوں سے کچھ پیسے وصول ہو جائیں اور میرے کھانے پینے کا بندوبست ہو جاۓ۔ میں نے جان بوجھ کر بے ہوش ہونے کا ناٹک کیا تاکہ تم مجھے ہسپتال لے جاؤ تو وہاں علاج کے بہانے شاید تم سے کچھ مل جاۓ۔ لیکن تم مجھے اپنے گھر لے آئیں جس سے میرا لالچ بڑھ گیا اور میں نے اپنی یاداشت کھونے کا بہانہ کیا تاکہ کچھ دنوں تک کھانے اور ٹھکانے کا بندوبست ہو جاۓ۔ یہ پڑھ کر تم لوگ مجھے شاید پیشہ ور مجرم یا چور سمجھو مگر سچی بات ہے ایسا بالکل نہیں۔ میں ایک تعلیم یافتہ آدمی ہوں ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے کافی دنوں سے میرے پاس ایک روپیہ بھی نہیں تھا۔ میرے ماں باپ یہاں سے بہت دور ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے ہیں ان کی مالی حالت ایسی نہیں کہ مجھے کچھ پیسے بھیج سکیں۔ اس سے پہلے میں بڑے شہر میں رہتا تھا اور چھوٹے موٹے کام کرکے اپنی پڑھائی اور دیگر اخراجات پورے کرتا تھا۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے مجھے کوئی کام نہیں ملا تھا جس کی وجہ سے میرے اوپر بہت قرضہ چڑھ گیا تھا۔ قرض خواہوں کے مطالبات سے تنگ آکر میں نے وہ شہر چھوڑ دیا اور یہاں آکر رہنے لگا۔ مگر ابھی تک یہاں بھی وہی صورت حال تھی۔ بس ایک فرق تھا یہاں قرض خواہوں سے جان چھوٹ گئی تھی۔
اس دن جب ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ہسپتال آکر دکھانا پڑے گا تو میں نے سوچا کہ پکڑا نہ جاؤں اس لیۓ میں اس دن وہاں سے بھاگنے والا تھا لیکن پھر ایک خیال نے مجھے روک لیا۔ وہ سمیرا کا خیال تھا۔ سمیرا کے خیال نے مجھے چند دن اور یہاں رکنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے اسے سب سچ بتانے کی کوشش کی لیکن نہیں بتا سکا۔
میں اتنا بیوقوف نہیں کہ ایک لڑکی کی دل کی حالت نہ جان پاؤں اور سچی بات تو یہ تھی میرے دل کا حال بھی وہی تھا۔ لیکن میں بات کو آگے بڑھانے سے کتراتا رہا۔ اس لیۓ کہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس سے سواۓ تکلیفوں کے اور کچھ بھی نہ ملتا۔ کیونکہ میں جو اصل میں تھا سمیرا اس کو نہیں جانتی تھی۔ اور اگر جان بھی لیتی تو بھی کچھ فائدہ نہیں تھا۔ مجھے تو اپنی زندگی کے کسی راستے کا علم تھا اور نہ منزل کا۔ وہ میرے ساتھ کیسے چلتی اور کہاں تک چل پاتی۔
اس روز جب تم لوگوں نے پولیس کے پاس جانے کی بات کی تو میں سوچ میں پڑ گیا۔ اس لیۓ کہ پولیس الٹا طرح طرح کے سوال پوچھ کر تم لوگوں کو اور مجھے دونوں کو پریشان کرتی۔ لہذا میں نے مناسب سمجھا کہ اس سلسلے کو یہیں ختم کر دینا چاہیۓ۔ سو میں چلا آیا۔
تم لوگ سوچ رہی ہو گی میرے لباس اور حلیے سے تو بالکل نہیں لگتا تھا کہ میرے حالات اس قسم کے ہیں۔ دراصل وہ لمبا کوٹ اور ہیٹ میرے ایک دوست نے مجھے دیا تھا۔ تم لوگوں نے وہ ہیٹ اور کوٹ تو دیکھ لیا مگر اس پر برسوں کی تھکن، مایوسی اور محرومی کی پڑی سلوٹیں تمہیں دکھائی نہیں دیں۔ سچ ہے انسان ظاہر پرست ہے۔ وہ صرف ظاہر کو دیکھ کر معروب ہو جاتا ہے باطن میں اتر کر کم ہی دیکھتا ہے پھر چاہے وہ مادی اشیا ہوں یا خود انسان۔
میں جانتا ہوں میں نے تم لوگوں کا دل دکھایا ہے خاص کر سمیرا کا لیکن میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ یہ جو کچھ ہوا بس انجانے میں ہوا۔ ہو سکے تو اسے بھی تمہاری اس شرارت کی طرح جو تم لوگوں مجھ پر پانی ڈال کر کی تھی ایک چھوٹی سی شرارت سمجھ کر معاف کر دینا۔
سمیرا! اس دن تم نے مجھ سے معافی مانگی تھی آج میں تم سے معافی کا طلب گار ہوں امید ہے تم مجھے معاف کر دو گی۔ اور ہاں! مجھے تو چھت میسر نہیں لیکن تم روزانہ شام سے پہلے چھت پر جانا اور اس بل کھاتی ہوئی سڑک کو دیکھنا۔ اور اس کے پیچھے افق کے پاس سورج کو زمین میں اترتے دیکھنا۔ میں بھی افق کی جانب بڑھتا رہوں گا اس احساس کے ساتھ کہ افق کے پار تم ملو گی۔ حالانکہ میں جانتا ہوں افق کے پار تو کوئی بھی نہیں پہنچ پایا۔
لڑکی تمام خط پڑھ چکی تو خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گئ۔ باقی لڑکیاں بھی وہیں بیٹھ گئیں۔ صرف سمیرا اپنی جگہ پر جیسے کھڑی تھی ویسے کھڑی رہی۔ کمرے میں مکمل سکوت طاری تھا۔ کوئی بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کر رہا تھا اور نہ کرنا چاہتا تھا۔
شام قریب آئی تو سمیرا چھت پر چلی آئی۔ بل کھاتی ہوئی سڑک کے پرے دور افق کے پاس سورج زمین میں ڈوب رہا تھا۔
Post a Comment
Thank you for your comment