کردار
داؤد= پچیس تیس برس کا تعلیم یافتہ بے روزگار غریب لڑکا
ملک سکندر= پچاس ساٹھ برس کا متمول و متکبر آدمی جو غربت کا ذمہ دار خود غرباء کو سمجھتا ہے۔
اماں= سکندر کی ماں۔ نیک دل اور مہربان عورت۔
زلفی= داؤد کا ہم عمر دوست۔
ماریہ= پچیس تیس برس کی غریب نوجوان لڑکی۔
اشتیاق: سکندر کی فیکٹری میں مینجر۔
صغیر: فیکٹری میں مزدور۔ داؤد کا دوست
سوپروائیزر: فیکٹری میں سوپر وائیزر
بخاری چاچا : داؤد اور زلفی کو یتیم خانے میں پالنے والا۔
چند دیگر کردار۔
پہلا منظر
دن۔ ڈھابہ
داؤد اور زلفی ایک چھوٹے سے ڈھابے پر بیٹھیں ہیں۔ رش زیادہ نہیں ہے اردگرد مختلف سیٹوں پر صرف چند لوگ ہیں۔ ڈھابے کا مالک کاؤنٹر کے دوسری طرف بیٹھا اپنے کام میں مصروف ہے۔
داؤد: (بلند آواز سے مالک کو پکار کر) ابراہیم بھائی کھانا نہیں آیا ابھی تک کتنی دیر ہو گئ ہے۔
ابراہیم: بھول جاؤ کھانا آج نہیں ملے گا۔ پہلے پچھلا حساب کلیئر کرو پھر کھانا دوں گا۔ تم لوگوں کے ادھار کا کھاتا اس ڈھابے کی چھت تک پہنچ گیا ہے۔ پہلے اسے نیچے لاؤ پھر میں کھانا لاؤں گا۔
داؤد: کیا ابراہیم بھائی تم جانتے ہو نوکری چلی گئ ہے آج کل جیب بالکل خالی ہے۔
ابراہیم: وہ تو ہمیشہ سے خالی ہے نوکری کرتے ہوۓ تم کون سا خیرات بانٹتے پھرتے تھے تب بھی تو یہی حال تھا۔
زلفی: تب تھوڑا تھوڑا کرکے ادھار چکا تو دیتے تھے اب اس وقت کہاں سے لائیں۔
ابراہیم: جہاں سے مرضی لاؤ میں کیا کروں! میں نے تمہارا ٹھیکہ لیا ہے جو میں تمہیں مفت کا کھانا کھلاتا پھروں۔
داؤد: اچھا اچھا ٹھیک ہے! رکھو تم اپنا کھانا اپنے پاس۔
(ایک چھوٹا لڑکا بھاگتا ہوا آتا ہے)
لڑکا: (دونوں کے پاس آکر) داؤد بھائی زلفی بھائی آپ لوگوں کے کمرے میں چوری ہو گئ ہے۔
دونوں ایک ساتھ: کیا۔۔۔
(دونوں جلدی سے اٹھتے ہیں اور بھاگتے ہیں وہ لڑکا بھی ان کے پیچھے بھاگتا ہے)
دوسرا منظر
وہی وقت۔ سڑک
سڑک کے کنارے لوہے کی سیڑھیاں ہیں داؤد اور زلفی دونوں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جاتے ہیں۔ اوپر ایک چھوٹا سا کمرا ہے جس کے دروازے کی کنڈی ٹوٹی ہوئی ہے۔ دونوں دروازہ کھول کر اندر جاتے ہیں۔ چھوٹا سا کمرا ہے جس کے فرش پر قالین بچھا ہے جہاں دو بستر لگے ہیں۔ اردگرد چند کپڑے بکھرے پڑے ہیں۔ کمرے میں سامان نام کی اور کوئی چیز نہیں۔ دونوں ادھر ادھر اپنی چیزیں دیکھتے ہیں ہر چیز اپنی جگہ پر موجود ہے۔وہ چھوٹا لڑکا جس نے ابھی انہیں چوری کی اطلاع دی تھی اندر آتا ہے۔
زلفی: کچھ بھی چوری نہیں ہوا سامان تو سارا موجود ہے۔
لڑکا: چوری کیا ہونا تھا اندر کچھ ہو گا تو چوری ہو گا۔ چور آپ کے لیۓ (رقعہ اسے دے کر) یہ چھوٹا سا رقعہ لکھ کر چھوڑ گیا ہے۔ لکھتا ہے کمرے میں سب سے زیادہ قیمتی چیز تالا ہے جو تم لوگوں نے کمرے کے دروازے پر لگایا ہوا ہے اس لیۓ میں یہ تالا لے کر جا رہا ہوں۔۔۔ ویسے بھائی میں ایک مشورہ دوں۔ (شرارت سے) اب دروازے پر تالا مت لگانا فضول میں خرچہ ہو گا۔
زلفی: (ڈانٹ کر) تجھے بڑی باتیں آرہی ہیں چل بھاگ یہاں سے۔
(لڑکا ہنستا ہوا چلا جاتا ہے)
زلفی: (داؤد سے) اب کیا کریں یار پہلے میرا کام بند ہوا اب تمہارے پاس بھی نہیں رہا۔ دونوں میں سے ایک کے پاس کام ہونا ضروری ہے۔
داؤد: ہاں یہ تو ہے کچھ تو کرنا پڑے گا۔
(وہ چھوٹا لڑکا دوبارہ اندر آتا ہے)
زلفی: تم ابھی بھی یہیں ہو تمہیں کہا ہے بھاگو یہاں سے۔
لڑکا: میں نے کہاں جانا ہے زلفی بھائی آپ کے لیۓ ایک پیغام لے کر آیا ہوں۔
زلفی: کیا؟
لڑکا: مکان مالک نے بھیجا ہے وہ کمرے کا کرایہ مانگ رہا ہے۔ کہہ رہا ہے تین مہینے ہو گۓ ہیں تم لوگوں نے کرایہ نہیں دیا جلدی کرایہ دو نہیں تو کمرا چھوڑ دو۔
زلفی: تمہارے پاس سارے پیغام برے ہی ہیں کبھی کوئی اچھی خبر بھی لے کر آجایا کرو۔
لڑکا: میں کیا کروں زلفی بھائی آپ دونوں کے لیۓ ساری باتیں اسی طرح کی ہوتی ہیں۔ میں اپنے پلے سے تھوڑی لاتا ہوں۔ ویسے آپ لوگوں کو کچھ دنوں تک کرائے کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں میں نے مکان مالک کو بتایا ہے آج آپ کرایہ دینے والے تھے پر آپ کی چوری ہو گئ تو کچھ دن بعد دیں گے۔
زلفی: تم نے جھوٹ کیوں کہا ہم لوگ تو آج کرایہ نہیں دینے والے تھے۔
لڑکا: آج نہیں دینا تھا پر دینا تو تھا۔ اب کچھ دنوں تک بات ٹل جاۓ گی آپ بندوبست کر لینا۔۔۔ میں چلتا ہوں۔
(باہر نکل جاتا ہے)
زلفی: (داؤد سے) پھر کیا سوچا ہے؟
داؤد: اب ایک ہی راستہ ہے۔
زلفی: کیا؟
زلفی: (کچھ سوچ کر) ہاں یہ ٹھیک ہے۔ تو چلو پھر۔۔۔
تیسرا منظر
دن۔ سڑک
داؤد اور زلفی دونوں ایک عمارت کے باہر کھڑے ہیں۔ عمارت کے باہر جلی حروف میں یتیم خانہ لکھا ہے۔ دونوں چند لمحے کھڑے ہو کر عمارت کے مین گیٹ کو دیکھتے ہیں پھر اندر داخل ہو جاتے ہیں۔
چوتھا منظر
دفتر نما کمرے میں ساٹھ پینسٹھ برس کا ایک نفیس آدمی بیٹھا ہے۔ لباس اور حلیہ بالکل سادہ ہے۔ گفتگو اور لہجے سے محبت اور شفقت کا اظہار ہوتا ہے۔ داؤد اور زلفی کو بڑی اپنائیت سے ملتا ہے۔ جب دونوں کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو وہ میز کے دوسری طرف بیٹھا کوئی فائل دیکھ رہا ہوتا ہے۔
داؤد اور زلفی: (کمرے میں داخل ہو کر) کیا حال چال ہیں بخاری چاچا؟
بخاری: تم لوگ...! آؤ آؤ بیٹھو۔۔۔(دونوں بیٹھ جاتے ہیں) میں تو ٹھیک ہوں تم لوگ سناؤ کیسے ہو۔
داؤد: ہم لوگ بھی بالکل ٹھیک ہیں۔
بخاری: اور۔۔۔! کیسے آنا ہوا؟
زلفی: بس آپ سے پھر ایک کام پڑ گیا تو چلے آۓ۔
بخاری: ہاں جی! تم لوگوں کو جب کام پڑتا ہے تب ہی آتے ہو۔ ورنہ کہاں آتے ہو۔
داؤد: نہیں بخاری چاچا۔ یہ تو ہمارا گھر ہے یہ در و دیوار دیکھ کر ہی تو ہم بڑے ہوۓ ہیں۔ ہمیں تو یاد بھی نہیں کون ہمیں یہاں چھوڑ گیا تھا۔ اب اسے بھول تھوڑی جائیں گے۔ بس زندگی کی دوڑ دھوپ میں فرصت ہی اتنی ملتی ہے جس میں ملنے ملانے کا بہت کم وقت بچتا ہے۔ ابھی بھی اگر اشد ضرورت نہ آن پڑتی تو شاید چکر نہ لگتا۔
بخاری: کیوں خیریت تو ہے ایسی کیا ضرورت پڑ گئ؟
زلفی: کیا بتائیں بخاری چاچا! پہلے میرے پاس کام تھا تو اس کے پاس نہیں تھا پھر میرا کام بند ہو گیا تو اسے مل گیا۔ اس طرح ہمارا گزارا ہوتا رہا۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ دونوں کے پاس کام نہیں رہا اس لیۓ گزارا کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔
داؤد: اب تو کھانے کا بل اور کمرے کا کرایہ تک ادا نہیں ہو رہا۔ ہم آپ کے پاس اس لیۓ آۓ ہیں آپ اگر ہمیں کوئی کام دلا سکیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہو گی۔ ہم دونوں میں سے کسی ایک کو بھی کام مل جاۓ تو چلے گا۔
بخاری: (ساری بات سن کر کچھ سوچنے کے بعد) میں تمہاری کیفیت سمجھتا ہوں بیٹا غربت بڑی تکلیف دہ چیز ہے اور اگر غربت کے ساتھ بے روزگاری بھی آدھمکے تو غربت کی تکلیف ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔ اس کی اذیت میں دوگنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ غربت آدمی کو آہستہ آہستہ کھاتی چلی جاتی ہے اسے نچوڑتی جاتی ہے۔ اور اگر اس کے ساتھ بے روزگاری کا ٹیکہ بھی لگ جاۓ تو یہ ایک ایسا زہر ہے جس کا تریاق کہیں ممکن نہیں۔ غربت و افلاس ایک ایسا زخم ہے جو بڑھتے بڑھتے ناسور بن جاتا ہے جس سے مسلسل ٹیسیں اٹھتی رہتی ہیں۔ یہ ایک ایسا عارضہ ہے جس کو لاحق ہو وہ بڑی مشکل سے جاں بر ہو پاتا ہے۔
زلفی: جی بحاری چاچا! غربت کو تو جیسے تیسے جھیل رہے تھے لیکن اب دونوں بیروزگار ہو گۓ ہیں اسی لیۓ تو آپ کے پاس آۓ ہیں۔
بخاری چاچا: وہ تو ٹھیک ہے پر تم لوگ ذرا دیر سے آۓ ہو ابھی دو دن پہلے میں نے ایک لڑکے کو ایک جگہ پر کام دلایا ہے۔ اگر تم پہلے آجاتے تو تم لوگوں کو دلا دیتا۔ لیکن تم فکر مت کرو میں پتہ کرتا ہوں کہیں اگر کسی جگہ کوئی کام نکلا تو تم کو اطلاع کروں گا۔
داؤد: آپ کا بہت شکریہ بخاری چاچا۔
بخاری: شکریے کی ضرورت نہیں تم دونوں تو اپنے ہی بچے ہو میرے ہاتھوں میں پل کر جوان ہوۓ ہو۔ بلکہ اس یتیم خانے کے سارے بچے میرے اپنے بچوں کی طرح ہیں۔ تم پریشان نہ ہو میں کوشش کروں گا جلد از جلد تمہارے لیۓ کسی بہتر ملازمت کا بندوبست ہو جاۓ۔ باقی جو اللہ کو منظور۔
پانچواں منظر
دن۔ سکندر کا گھر۔
ایک بڑا سا حال نما کمرا جس کی آرائش و زیبائس بڑی خوبصورتی سے کی گئ ہے۔ فرش پر قالین، صوفے، مہنگے پردے ہر چیز بڑی اعلیٰ معیار کی اور قیمتی ہے۔ دیوار پر ایک بڑی سی پینٹنگ آویزاں ہے۔ سکندر کی ماں صوفے پر بیٹھی کسی کام میں مصروف ہے۔ ایک عورت جو اس کی ملازمہ ہے اور شکل و صورت اور خلیے سے ہی پہچانی جاتی ہے اس کے سامنے کچھ فاصلے پر کھڑی ہے اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ کھڑا ہے جو بیمار دکھائی دیتا ہے۔
سکندر کی ماں: کہاں تھی تو صغریٰ! دو دن سے تو کام پہ نہیں آئی۔
ملازمہ: بی بی جی کیا بتاؤں آپ کو۔۔۔دو دن سے میری حالت بڑی خراب تھی اتنا تیز بخار تھا بستر سے ہلا تک نہیں جا رہا تھا۔ اوپر سے (بچے کو ہلکا سا تھپڑ مار کر) یہ بھی بیمار ہو کے بیٹھ گیا۔ دیکھیں اسے اس کا رنگ کیسے پیلا ہو گیا ہے۔
اماں: کیا کرتی ہو صغریٰ بچے کو کیوں مارتی ہو۔ اس کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی۔
ملازمہ: جی بی بی جی۔ یہ ایسا ہی ہے ہر دوسرے چوتھے روز بیمار ہو جاتا ہے پتہ نہیں اس کو کیا ہے۔ میں اسی کے لیۓ آئی تھی بی بی جی! اس کی دوائی لینے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔ اگر آپ مجھے کچھ پیسے دے دیں تو۔۔۔ میری تنخواہ سے کاٹ لینا۔ اپنی دوائی کی تو خیر ہے پر اس کی دوائی ضروری ہے بی بی جی۔
اماں: اچھا ٹھیک ہے۔ (پرس میں سے پیسے نکال کر) یہ کچھ پیسے لے لو تنخواہ سے کٹوانے کی ضرورت نہیں۔
(سکندر دوسرے کمرے سے نکل کر آتا ہے اور اماں کے سامنے دوسرے صوفے بیٹھ جاتا ہے)
اماں: (ملازمہ سے جاری رکھتے ہوۓ) یہ پیسے تم اپنے پاس رکھ لو اور اس کے ساتھ اپنی بھی دوائی لے لینا۔
ملازمہ: (پیسے لے کر) آپ کا بہت شکریہ بی بی جی۔ اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔
(ملازمہ اپنے بچے کے ساتھ اماں کو دعائیں دیتی ہوئی چلی جاتی ہے)
سکندر: کیا اماں تو بھی روز ان کے جھانسے میں آجاتی ہے۔ یہ ان کے امیر لوگوں سے پیسے نکلوانے کے حربے ہوتے ہیں۔
اماں: نہ پتر ایسے نہیں کہتے اس کو ضرورت تھی پیسوں کی۔
سکندر: اماں چھوڑ تو بھی۔ میں سب سمجھتا ہوں انہوں نے کام دھندہ تو ٹھیک سے کرنا نہیں ہوتا یہ غریب لوگ اس چکر میں رہتے ہیں کہ کہیں سے مفت میں کچھ مل جاۓ بس۔ اماں تو نہیں سمجھتی! ان کو غربت کا چسکا پڑ جاتا ہے کیونکہ اس طرح انہیں بغیر کچھ کیۓ خیرات کے طور پر بہت کچھ مل جاتا ہے اور لوگوں کی ہمدردیاں بھی ساتھ مفت میں مل جاتی ہیں۔ اس لیۓ وہ خود نہیں چاہتے ان کے حالات ٹھیک ہوں۔ نہیں تو انہیں محنت جو کرنی پڑے گی۔
اماں: نہیں ایسی بات نہیں۔ اس نے تو مجھ سے پیسے نہیں مانگے وہ تو ادھار مانگ رہی تھی کہہ رہی تھی میری تنخواہ سے کاٹ لینا۔ میں نے تو خود اسے پیسے دیۓ ہیں۔
سکندر: اماں تو تو بھولی ہے۔ سب جانتے ہیں تیرا دل کتنا نرم ہے اسی بات کا تو وہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تیرا بیٹا ایسے ہی نہیں اتنا کامیاب اور اتنا بڑا آدمی بن گیا۔ ایسے ہی نہیں میں ڈھیر سارے کاروبار اور اتنی ساری فیکٹریاں چلا رہا میں اچھی طرح جانتا ہوں ان لوگوں کو۔ تو کیا سمجھتی ہے یہ غریب اس لیۓ ہیں کہ یہاں انصاف نہیں؟ یکساں مواقع نہیں؟ ایسی بات نہیں یہ اس لیۓ غریب ہیں کیونکہ ان کی عادتیں ٹھیک نہیں۔ ان کو کمانا نہیں آتا۔ کوئی کام دھندہ ٹھیک طرح سے نہیں کرتے، اس میں ڈنڈی مارتے ہیں۔ یہ اپنی سستی، کاہلی اور نالائقیوں کی وجہ سے غریب رہ جاتے ہیں اور پھر واویلا کرتے پھرتے ہیں، چیختے چلاتے ہیں ہمارے ساتھ یہ ہو گیا ہمارے ساتھ وہ ہو گیا۔ ہمیں حقوق نہیں ملے ہمیں انصاف نہیں ملا۔ یہ اپنی ناکامیوں کا ذمے دار دوسروں کو سمجھتے ہیں اور ہر وقت شکوے شکایتیں کرتے رہتے ہیں۔ اسی لیۓ یہ آگے نہیں بڑھ پاتے۔
اماں: نہ پتر ایسا نہ سوچا کر۔ اپنے دل سے میل نکال، ذہن کو صاف کر پتر۔ ان لاچار، بے آسرا، بے سہارا لوگوں کی خاموش سسکیاں تمہیں سنائی نہیں دیتیں؟ تیری اپنی فیکٹریوں میں دن بھر سخت مشقت سے گزرنے والے مزدوروں کے ہاتھوں کے چھالوں سے اٹھنے والی ٹیسیں تجھے خبردار نہیں کرتیں؟ تیری اپنی زمینوں پر چلچلاتی اور کڑکتی دھوپ میں خون جلاتے اور پسینہ بہاتے کسانوں کی درد بھری آہیں تجھ تک نہیں پہنچتیں؟ تو کیسا کٹھور دل ہے۔ تو ان کو سست اور کاہل کہتا ہے جو صبح پو پھٹنے سے لے کر رات چاند نکلنے تک تیری فیکڑیوں اور تیری زمینوں پر اپنی ہڈیاں گھلاتے رہتے ہیں۔ تو نے کبھی سوچا ہے جب تو اپنے ائیر کنڈیشند کمرے میں میٹھی نیند کے مزے لوٹ رہا ہوتا ہے تو تیرے کارخانوں میں تپتی مشینوں کی حدت کو کون برداشت کرتا ہے؟ جب تو سرد راتوں میں اپنے قیمتی نرم وگرم لحاف میں دبکا پڑا ہوتا ہے تو تیری فصلوں کو ٹھٹرتی سردی میں کون سیراب کرتا ہے؟ تیرے دفتر میں تیرے نیچے کام کرنے والے سینکڑوں ہزاروں مجبور ملازمین جو اپنے بچوں کے دوا دارو کے لیۓ تیری جھڑکیاں برداشت کرتے ہیں ان کا تجھے کبھی خیال نہیں آیا؟ اتنی تگ و دو اور سخت محنت و مشقت کے بعد معاوضے کے طور پر انہیں کیا ملتا ہے؟ وہ معمولی سی ریزگاری جس سے وہ اپنے بال بچوں کو بمشکل دو وقت کی روکھی سوکھی کھلا سکتے ہیں۔ لیکن تو۔۔۔تو تو بغیر تنکا تک دہرا کیۓ ساری دولت، سارے ثمرات سمیٹ لیتا ہے۔ پھر بھی تو کہتا ہے کہ انہیں کام دھندہ کرنا نہیں آتا۔ وہ محنت و مشقت سے جی چراتے ہیں۔
سکندر: اماں تو تو بس ان کی ہر وقت طرف داری کیا کر۔
موبائل فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ اٹھ کر فون سننے لگتا ہے اور باہر نکل جاتا ہے)
چھٹا منظر
دن۔ ریلوے ٹریک۔
داؤد اور زلفی ریل کی خالی پٹری پر چلتے جارہے ہیں۔ اردگرد کوئی اور آدمی دکھائی نہیں دے رہا۔ چلتے چلتے زلفی رک جاتا ہے۔
زلفی: (پٹری سے اتر کر ایک طرف جا کر) یار میں تو تھک گیا ہوں یہاں بیٹھتے ہیں تھوڑی دیر۔
(داؤد بھی اس کے پاس جا کر بیٹھ جاتا ہے)
زلفی: کھانے کا کیا کریں بھوک بڑی سخت لگی ہے۔
(داؤد خاموش رہتا ہے۔ اچانک ایک طرف سے کوئی آواز سنائی دیتی ہے)
داؤد: یہ کیسی آواز ہے لگتا ہے کوئی ہتھوڑے سے زور زور سے ضربیں لگا رہا ہے۔
زلفی: (لاپرواہی سے) مزدور ہوں گے۔ اردگرد کوئی کام چل رہا ہوگا۔
داؤد: پر یہاں تو نہ کوئی گھر ہے اور نہ کوئی اور عمارت دور تک ویرانہ ہی ویرانہ ہے۔ بس یہ ریل کی پٹری ہے۔
زلفی: چھوڑ نہ یار ہو گا کچھ۔ فی الحال اپنے پیٹ کی سوچو اس کا کیا کرنا ہے۔
(داؤد اٹھ کر اردگرد دیکھتا ہے۔ کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ وہ چل کر اس سمت جاتا ہے۔ تھوڑا آگے جاتا ہے تو اسے ایک باڑ دکھائی دیتی ہے وہاں رک کر آواز کو غور سے سنتا ہے۔ آواز باڑ کے پیچھے سے آرہی ہوتی ہے۔ پیچھے جاکر دیکھتا ہے تو ایک لوہے کے جنگلے پر نظر پڑتی ہے جس پر سلاخیں لگیں ہیں۔ جنگلے کے بیچ میں سے کئ سلاخیں غائب ہیں۔ وہاں ایک لڑکی کھڑی جنگلے میں سے ایک سلاخ کو اکھاڑ رہی ہے۔ یہ لڑکی ماریہ ہے وہ اسے دیکھ کر بھاگ کھڑی ہوتی ہے۔ داؤد آوازیں دیتا ہوا اس کے پیچھے بھاگتا ہے۔
داؤد: (بھاگتے ہوۓ) رک جاؤ۔۔۔ٹھہرو۔۔۔ کیا کر رہی تھی۔۔۔
(ماریہ رکتی نہیں بھاگتی جاتی ہے۔ داؤد تھوڑی دور جا کر اسے پکڑ لیتا ہے)
داؤد: جنگلا کیوں اکھاڑ رہی تھی۔۔۔بتاؤ۔
ماریہ: پہلے تم بتاؤ تم کون ہو؟
داؤد: سوال پہلے میں نے پوچھا ہے۔
ماریہ: نہ بتاؤں تو؟
داؤد: تو پھر ٹھیک ہے پولیس پوچھ لے گی تم سے۔
ماریہ: اچھا بتاتی ہوں چھوڑو میرا ہاتھ۔
(داؤد ہاتھ چھوڑ دیتا ہے زلفی بھی بھاگتا ہوا وہاں پہنچ جاتا ہے)
داؤد: ہاں بتاؤ کیوں جنگلا اکھاڑ رہی تھی۔ تم جانتی ہو یہ گورنمنٹ کی پراپرٹی ہے اگر پولیس تک بات پہنچ گئ تو تمہاری خیر نہیں۔
ماریہ: بتاتی ہوں پر وعدہ کرو تم لوگ کسی کو بتاؤ گے نہیں اور مجھے جانے دو گے۔ میں وعدہ کرتی ہوں آئندہ کبھی یہاں نہیں آؤں گی۔
داؤد: نہیں بتائیں گے اب بتاؤ۔
ماریہ: وہ اصل میں میں یہاں۔۔۔اس جنگلے سے سلاخیں اکھاڑ کر بیچتی ہوں۔
زلفی: یعنی کہ تم کہہ رہی ہو تم یہاں سے سلاخیں چوری کرکے کباڑیےکو بیچتی ہو؟
ماریہ: ہاں۔
داؤد: لیکن کیوں؟ چوری کیوں کرتی ہو۔ اتنی سی سلاخ کا تمہیں کیا مل جاتا ہے؟
ماریہ: لوہا بہت مہنگا ہے یہ ایک سلاخ تقریباً اڑھائی تین سو سے زیادہ کی بکتی ہے۔
زلفی: بس۔۔۔اڑھائی تین سو روپے کے لیۓ تم چوری کرتی ہو۔ تمہیں شرم نہیں آتی۔
ماریہ: شروع میں آتی تھی جب پہلی دفعہ چوری کی تھی۔ پھر میں نے سوچا کہ میں کون سا کسی کا ذاتی مال چرا رہی ہوں۔ یہ جگہ کتنے عرصے سے بیکار پڑی ہے یہاں پر یہ جنگلا ویسے ہی گل سڑ رہا ہے تو کیوں نہ میں اس سے فائدہ اٹھا لوں۔
داؤد: لیکن تم ایسا کرتی کیوں ہو اس سے تمہیں کیا مل جاتا ہے؟
ماریہ: ایک وقت کا کھانا۔۔۔اس سے مجھے ایک وقت کا کھانا مل جاتا ہے۔
داؤد: (خیرت سے) کھانا؟
ماریہ: ہاں کھانا۔۔۔ میں اپنے ابو کے ساتھ اکیلی رہتی ہوں میرے ابو ایک مل میں ملازم تھے برسوں سے وہ اس مل میں کام کر رہے تھے لیکن ایک دن ان کے ساتھ ایک حادثہ پیش آگیا۔
زلفی: حادثہ؟ کیسا حادثہ؟
ماریہ: ایک دن وہ مل میں کسی بلند جگہ پر مل کا کوئی کام کر رہے تھے وہاں سے ان کا کام کرتے کرتے پاؤں پھسلا اور وہ نیچے گر گۓ۔
(لڑکی خاموش ہو جاتی ہے)
داؤد: پھر۔۔۔پھر کیا ہوا؟
ماریہ: وہ زندگی بھر کے لیۓ اپاہج ہو گۓ۔ پچیس سال جس مل میں کام کرتے رہے اس مل کے مالک نے ایک لمحہ ضائع کیۓ بغیر انہیں کھڑے کھڑے نکال دیا کیونکہ اب میرے ابو اس کے لیۓ بالکل بیکار ہو گۓ تھے۔ ان کے اس طرح اچانک بستر سے لگ جانے کے بعد مجھے روزی روٹی کے لیۓ نکلنا پڑا۔ کبھی کام ملتا تھا کبھی نہیں۔ تو جب کبھی کھانے کو کچھ نہیں ہوتا میں یہاں سے ایک سلاخ چرا لیتی ہوں۔۔۔ (چند لمحے خاموشی کے بعد) لیکن اب یہ ذریعہ بھی گیا۔۔۔ چلو! دیکھتے ہیں شاید کچھ اور مل جاۓ۔ آپ سے بس یہ التجا ہے پولیس کو کچھ مت بتانا۔
(کچھ دیر خاموشی رہتی ہے۔ پھر داؤد اور زلفی اک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور دونوں بلند آواز سے قہقہہ لگاتے ہیں۔ لڑکی خیرت سے ان کی طرف دیکھتی ہے)
ماریہ: ہنس کیوں رہے ہو؟
داؤد: اپنی بیوقوفی پہ ہنس رہے ہیں۔
ماریہ: (خیرت سے) کیا مطلب؟
زلفی: مطلب یہ کہ ہم یہاں سے روز گزرتے ہیں لیکن ہمارے دماغ میں یہ بات نہیں آئی۔ تم ایک لڑکی ہو کر ایسا کام کر گئ۔
ماریہ: ایسا کام کرنے کے لیۓ کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہیۓ اور بھوک سے بڑی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔ بھوک بہت سے ایسے کام کروا دیتی ہے جو انسان عام حالات میں نہیں کرتا۔
(دونوں دوبارہ ہنستے ہیں)
ماریہ: اب کیوں ہنسے؟
زلفی: اس لیۓ کہ ہم بھی کل سے بھوکے ہیں بلکہ صدیوں سے بھوکے ہیں۔ ہم تینوں ایک ہی راستے کے مسافر ہیں تمہارے اور ہمارے حالات میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔
ماریہ: تو اس کا مطلب تم بھی۔۔۔؟
داؤد: ہاں ہم بھی۔ ہم ابھی یہی سوچ رہے تھے کہ کھانے کا بندوبست کیسے کریں۔
زلفی: اور تم ہمیں مل گئ۔
ماریہ: تو کیا تم میرے ساتھ مل کر یہ لوہا۔۔۔
داؤد: ہاں۔ فرق بس یہ ہے پہلے تم ایک سلاخ چراتی تھی اب ہم چار سلاخیں چرائیں گے۔
ماریہ: چار کیوں؟ ہم تو تین ہیں۔
داؤد: چوتھے تمہارے ابو بھی تو ہیں ان کے لیۓ کھانا نہیں لے کر جانا۔۔۔
ماریہ: (ہنس کر) ہاں لے کر تو جانا ہے۔۔۔
زلفی: (آگے بڑھ کر) تو چلو آؤ پھر جلدی کرو بڑی بھوک لگی ہے۔
(تینوں جنگلے میں سے سلاخیں اکھاڑنے لگتے ہیں)
زلفی: اگر ہم ایک ایک سلاخ کی بجاۓ تین چار سلاخیں اکھاڑ لیں تو وہ زیادہ بہتر نہیں؟ ہمیں زیادہ پیسے مل جائیں گے۔
ماریہ: نہیں ایسا کرنے سے ہم پکڑیں جائیں گے۔ اور ویسے بھی میں یہ کام اس وقت کرتی ہوں جب میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔
زلفی: تو تم نے اسے مشکل وقت کے لیۓ رکھا ہوا ہے۔۔۔
ماریہ: ہاں۔
داؤد: اس کا مطلب ہے یہ تمہارا سیونگ اکاؤنٹ ہے۔
(تینوں ہنستے ہیں)
ساتواں منظر
دن۔ کباڑ خانہ
ماریہ، داؤد اور زلفی تینوں ایک کباڑ خانے میں داخل ہوتے ہیں۔ کباڑ خانہ ایک کھلے احاطے میں ہے جہاں ہر طرف پرانا لوہا اور دیگر بہت ساری پرانی چیزیں پڑی ہیں۔ کباڑ خانے کا مالک ایک کونے میں زمین پر بیٹھا لوہے کو بڑے سے ہتھوڑے سے کوٹ رہا ہے۔
ماریہ: اسلام علیکم غفور بھائی۔
غفور: وعلیکم سلام۔ بڑی جلدی آگئ ابھی پچھلے دنوں تو چکر لگایا تھا۔
ماریہ: جی غفور بھائی آج پیسوں کی ضرورت تھی اس لیۓ آنا پڑا۔ ان چار سلاخوں کا حساب لگاؤ کیا بنتا ہے۔
غفور: ابھی لگا لیتے ہیں۔ (بلند آواز سے) اوۓ فانے۔۔۔(دوسری طرف سے آواز نہیں آتی) اوۓ فانے کہاں مر گیا ہے۔ یہاں آ جلدی۔
فانا: (صرف آواز آتی ہے) جی استاد جی! آیا۔
(ایک پندرہ سولہ سال کا لڑکا آتا ہے)
فانا: جی استاد جی!
غفور: یہ سلاخیں پکڑ اور تول کر بتا کتنا وزن ہے۔
(فانا سلاخیں اٹھاتا ہے اور باری باری ہر ایک سلاخ کا وزن کرتا ہے)
فانا: استاد جی ایک سلاخ تقریباً تین کلو کی بنتی ہے۔
غفور: ہونہہ۔۔۔ایک سلاخ تین کی۔۔۔ تو تین چوکے ہوگۓ بارہ۔۔۔ بارہ کلو کا تم لوگوں کا بن گیا گیارہ سو روپیہ۔۔۔ چلو تم بارہ لے لو۔
ماریہ: کیا غفور بھائی کم سے کم پندرہ تو دو۔
غفور: پندرہ۔۔۔اتنے کا تو کوئی بھی نہیں لیتا۔ تمہیں میں نے بالکل ٹھیک ریٹ لگایا ہے۔
ماریہ: چلو ٹھیک ہے غفور بھائی جیسے تم خوش۔
(پیسے لیتے ہیں اور تینوں کباڑ خانے سے نکل جاتے ہیں)
آٹھواں منظر
دن۔ ملک سکندر کا گھر۔
ملک سکندر کسی سے فون پر بات کر رہا ہے۔
ملک سکندر: (فون پر) جی کیوں نہیں آپ کہیں گے تو ہم مال تیار کروا دیں گے۔۔۔ وہ تو آپ کے مال کے حساب سے ہو گا۔۔۔جی ہاں بدھ کو۔۔۔بالکل ٹھیک۔۔۔
(ایک آدمی اندر آتا ہے)
ملک سکندر: (آدمی کو دیکھ کر فون پر) ٹھیک ہے پھر آپ سے بعد میں بات ہوتی ہے میں تھوڑا مصروف ہوں۔۔۔ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔۔بہت شکریہ جی بہت شکریہ۔۔۔
(فون بند کر دیتا ہے)
ملک سکندر: جی اشتیاق صاحب کیسے آنا ہوا؟
آدمی: سر وہ فیکٹری میں مزدور کام کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور مشینیں بند کر دی ہیں۔
ملک سکندر: کیوں کیا ہوا؟ کیا کہتے ہیں وہ لوگ؟
آدمی: جناب وہ کہتے ہیں پہلے ہم بارہ گھنٹے کام کرتے تھے لیکن اب چودہ گھنٹے کام کرتے ہیں جبکہ تنخواہ ہمیں بارہ گھنٹوں کے حساب سے ہی ملتی ہے۔ ان کا کہنا ہے پہلے ہی ہماری تنخواہیں جتنی ہونی چاہییں اتنی نہیں ہیں اور کوئی الاونسز وغیرہ بھی نہیں۔ اوپر سے گھنٹے بھی بڑھ گۓ ہیں لیکن تنخواہ اتنی ہی ہے۔ لہذا ہماری تنخواہوں میں فی گھنٹہ کے حساب سے اضافہ کیا جاۓ۔
ملک سکندر: اور کتنی تنخواہ دوں انہیں پوری فیکٹری ان کے نام کردوں؟ جاؤ جا کر انہیں کہہ دو کسی کی ایک فیصد بھی تنخواہ نہیں بڑھے گی۔ انہیں جتنی بھی تنخواہ دے دی جاۓ وہ یہی کہیں گے ہماری تنخواہیں کم ہیں۔ انہیں اپنے اخراجات کو مینج کرنا آتا نہیں اور الزام تنخواہوں پہ ڈال دیتے ہیں۔
آدمی: لیکن سر وہ نہیں مانیں گے۔ صرف یہی نہیں وہ تو یہ بھی اعتراض کر رہے ہیں کہ ساری زندگی ہم فیکٹری میں کام کرتے رہتے ہیں لیکن ہمارا کوئی پینشن سسٹم نہیں اور اگر کوئی مزدور فیکٹری کا کام کرتے ہوۓ زخمی یا جاں بحق ہو جاۓ تو اس کی کوئی انشورنس اور میڈیکل الاؤنس وغیرہ نہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کم سے کم ان کا ایک مناسب میڈیکل الاؤنس مقرر کیا جاۓ۔
ملک سکندر: خیرت کی بات ہے تیس پینتیس سال ہو گۓ مجھے اس فیکٹری کو چلاتے ہوۓ آج تک کسی نے ایسی بات نہیں کی۔ اس قسم کی باتیں یہ مزدور خود نہیں کر سکتے یقیناً ان کے پیچھے کوئی اور آدمی جو انہیں یہ سب سکھا رہا ہے۔
آدمی: جی جناب ایک نیا ورکر آیا ہے ذولقرنین، تھوڑا پڑھا لکھا ہے باہر کی فیکڑیوں میں کام کرکے آیا ہے۔ وہ انہیں مزدوروں کے حقوق اور اس قسم کی باتیں کرکے اکستا ہے۔ یہ ہڑتال بھی لگتا ہے انہوں نے اسی کے کہنے پر کی ہے۔
ملک سکندر: ہونہہ! (کچھ سوچ کر) ٹھیک ہے تم جاؤ میں دفتر آتا ہوں پھر بات کرتے ہیں۔
آدمی: جی ٹھیک ہے۔
(آدمی چلا جاتا ہے۔ ملک سکندر کچھ سوچنے لگتا ہے)
نواں منظر
دن۔ داؤد اور زلفی کا گھر۔
کمرے میں زلفی اس وقت اکیلا ہے اور اپنی پٹھی ہوئی پتلون کو پیوند لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔ داؤد اندر آتا ہے۔
داؤد: (پرجوش انداز میں) مبارک ہو کام مل گیا ہے۔
زلفی: (خوش ہو کر) کیا۔ واقعی! کہاں پر؟
داؤد: وہ ہمارے یتیم خانے میں ایک لڑکا نہیں تھا ظہیر؟
زلفی: ہاں تھا۔ تو؟
داؤد: وہ مجھے آج راستے میں مل گیا۔ جب اسے میں نے ہم دونوں کا بتایا تو اس نے کہا کہ میں جس فیکٹری میں کام کر رہا ہوں وہاں کچھ دن پہلے سوپر وائزر کہہ رہا تھا کہ اسے ایک لڑکے کی ضرورت ہے تم میرے ساتھ چل کر دیکھو اگر انہوں نے لڑکا رکھ نہیں لیا تو شاید تمہیں رکھ لیں۔
زلفی: پھر؟
داؤد: پھر میں فوراً اس کے ساتھ گیا اور سوپر وائزر سے ملا اس نے مجھ سے دو تین منٹ بات چیت کی اور پھر مجھے اسی وقت کام پر رکھ لیا۔۔۔لیکن ایک مسئلہ ہے۔
زلفی: اب کیا مسئلہ ہے؟
داؤد: ابھی فیکٹری میں ہڑتال چل رہی ہے تو کام بند ہے۔ سوپر وائزر کہہ رہا تھا جیسے ہی ہڑتال ختم ہو گی وہ مجھے بلا لے گا۔
زلفی: وہ تو ٹھیک ہے پر اس وقت تک کیا کریں ہمارے پاس تو کھانے پینے کے بھی پیسے نہیں۔ اور ہڑتال کا تو پتہ نہیں کب ختم ہو۔
داؤد: انتظار کرتے ہیں پھر اور کیا کیا جا سکتا ہے۔
(زلفی سر ہلاتا ہے اور دوبارہ پتلون سینے میں مصروف ہو جاتا ہے)
دسواں منظر
دن۔ ملک سکندر کا دفتر۔
ملک سکندر اپنے دفتر میں ٹہل رہا ہے۔ دروازہ کھلتا ہے اور وہی آدمی جس کا نام اشتیاق ہے جو پہلے ملک سکندر کے گھر پر اس سے ملا تھا اندر آتا ہے۔
ملک سکندر: آؤ اشتیاق میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔ میرے پاس ان کی ہڑتال ختم کروانے کے لیۓ ایک اسکیم ہے۔
اشتیاق: کیا اسکیم جناب؟
ملک سکندر: تم ایسا کرو کمپنی کی طرف سے مزدوروں کے لیۓ ہفتے میں ایک بار مفت لنگر کا انتظام کرو۔ تم جا کر انہیں بتاؤ کہ کمپنی کی طرف سے ہر مزدور ہفتے میں ایک بار ایک وقت کا مفت کھانا کھا سکے گا۔ اور ایسا کرو! مزدوروں میں ایک ایک جوڑا کپڑوں کا یا اس قسم کی کوئی چیز خیرات کے طور پر بانٹ دو۔
اشتیاق: جی جناب میں ابھی ان سب چیزوں کا انتظام کر دیتا ہوں۔
ملک سکندر: ٹھیک ہے تم جاؤ۔
(چلا جاتا ہے)
گیارواں منظر
دن۔ ریلوے ٹریک۔
ویران اور سنسان ریلوے ٹریک پر ماریہ اور داؤد اکیلے بیٹھے ہیں۔ ریلوے ٹریک کے اردگرد وسیع و عریض خالی میدان کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔
ماریہ: بس کہیں سے ہزار پندرہ سو روپے ہاتھ لگے تھے ان میں سے کچھ ابو کی دوائیوں پر خرچ ہو گۓ اور کچھ کا کھانا آگیا۔
داؤد: ہم تو اس انتظار میں ہیں کہ جلد سے جلد ہڑتال ختم ہو جاۓ۔
ماریہ: تو ہڑتال ختم ہونے تک کیا کرو گے۔ اور پھر جاتے ہی تمہیں پیسے تو نہیں مل جائیں گے اس کے لیۓ بھی کچھ دن لگے گیں۔
داؤد: ہاں وہی تو ہمیں بھی سمجھ نہیں آرہی۔ اتنے دن تو رہے ایک طرف ہمیں تو یہ بھی سمجھ نہیں آرہی ہم آج کے دن کے لیۓ کیا کریں۔
ماریہ: آج کے لیۓ تو صرف ایک ہی کام ہو سکتا ہے۔
داؤد: وہ کیا؟
ماریہ: (مسکرا کر) وہی! اپنا پسندیدہ۔۔۔
داؤد: اچھا وہ۔۔۔ وہ بھی ٹھیک ہے۔
ماریہ: تو چلیں پھر؟
داؤد: چلو! نیک کام میں دیر کیسی۔
(دونوں اٹھ کر اک طرف چل پڑتے ہیں)
بارہواں منظر
دن۔ ملک سکندر کی فیکٹری۔
فیکٹری میں اشتیاق اپنے ایک دو ساتھیوں کے ساتھ کھڑا مزدوروں میں کپڑے اور دیگر چیزیں بانٹ رہا ہے۔ باری باری سب کے پاس جا کر چیزیں انہیں پیش کرتا ہے۔
اشتیاق: کیوں چاچا! ٹھیک ہے نا اب خوش ہو نا اپنی کمپنی سے۔۔۔آج سے لنگر کا انتظام بھی ہو جاۓ گا کھانا بھی کھا کر جانا۔ (دوسرے آدمی سے) یہ لو شکور بھائی اپنا تحفہ! تم بھی کھانا وانا کھا کر جانا اور کل وقت پر فیکٹری پہنچ جانا۔ مشینیں تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔ جیسا شکور بھائی تم مشین پر کھڑے ہو کر کام کرتا ہو ویسا کام اس پوری فیکٹری میں کوئی نہیں کر سکتا۔
(ذولقرنین آتا ہے)
ذوالقرنین: (مزدوروں سے بلند آواز سے) اب بھی وقت ہے باز آجاؤ میرے بھائیو۔ اتنی دور آکر تم کیوں پیچھے ہٹ رہے ہو۔ تم کیوں نہیں سمجھ رہے یہ صاحب کی چال ہے وہ تمہیں تمہارے حقوق دینے کی بجاۓ تمہیں تھوڑی سی خیرات دے کر خاموش کروانا چاہتا ہے۔ وہ تمہیں یہ سب اس لیۓ پیش کر رہا تاکہ تم اپنے حق کے لیۓ آواز نہ اٹھاؤ۔ خیرات چھوڑو میرے بھائیو حق مانگو حق۔
(اس کی آواز کوئی نہیں سنتا سب خیرات لیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ ایک آدمی ذولقرنین کے پاس سے گزرتے ہوۓ رک جاتا ہے)
آدمی: (ذوالقرنین سے) چھوڑو بھائی ذوالقرنین میری مانو تو تم بھی اسے قبول کر لو اور ہڑتال ختم کر دو۔ کچھ دن اور فیکٹری بند رہی تو ہم بھوکے مر جائیں گے۔ تم اچھی طرح جانتے ہو پہلے ہی ہم کتنی دشواری سے اپنے گھر کا خرچہ چلاتے ہیں۔
ذولقرنین: میں جانتا ہوں اور اس کی وجہ بھی اچھی طرح جانتا ہوں اسی لیۓ تو کہہ رہا ہوں تمہیں اپنے حقوق کے لیۓ لڑنا چاہیۓ۔
آدمی: ایک آدمی سے لڑنا ہو تو اور بات ہے پر پورے سسٹم سے ہم جیسے لوگ کیسے لڑ سکتے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیۓ اپنے آپ سے جنگ کرنی پڑتی ہے۔۔۔ اور پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ہڑتال کرنے سے صاحب ہمارے مطالبات مان لے گا۔۔۔ میرے بھائی جو کچھ مل رہا ہے اس پر گزارا کرو ورنہ اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔
ذولقرنین: تو تم کیا چاہتے ہو میں اپنے حق کے لیۓ آواز نہ اٹھاؤں اس کا ذکر تک نہ کروں؟ اور پھر یہ میرے اکیلے کی نہیں ہم سب کی بات ہے۔
آدمی: ذکر کرو ضرور کرو۔ جو بھی حق اور سچ کی بات ہے کرو، کوئی اور تمہارے ساتھ کھڑا ہو یا نہیں میں ضرور تمہارے ساتھ کھڑا رہوں گا۔ لیکن خدا کے لیۓ کام بند مت کرو۔ ہڑتال ختم کر دو۔ نہیں تو لوگوں کے گھروں کا چولہا بھی بند ہو جاۓ گا۔ جو تھوڑا بہت انہیں مل رہا ہے وہ بھی نہیں ملے گا۔
(اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے) میں مانتا ہوں تم بالکل ٹھیک کہتے ہو جب بھی ہم حقوق و انصاف کی بات کرتے ہیں ہمیں ایسی معمولی سی خیرات دے کر ٹرحا دیا جاتا ہے۔ پر تم یہ بھی تو سوچو ان کے حصول کا جو طریقہ تم نے اختیار کیا ہے اس سے ہمیں فائدے کی بجاۓ زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ اس لیۓ میرے بھائی اس کی بجاۓ کوئی بہتر طریقہ اختیار کرو۔۔۔۔ میں چلتا ہوں لیکن میری بات کو ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچنا۔
(چلا جاتا ہے)
تیرہواں منظر
رات۔ سکندر کا گھر
حال میں سکندر اکیلا بیٹھا فون پر کسی سے بات کر رہا ہے۔ اس کی ماں اندر آتی ہے۔ سکندر کال بند کر دیتا ہے اور فون کی اسکرین پر نظریں جما لیتا ہے۔
اماں: آگیا تو فیکٹری سے۔۔۔ کس وقت آیا؟
سکندر: بس اماں تھوڑی دیر ہوئی ہے۔
اماں: وہ تیری فیکٹری میں ہڑتال ختم ہوگئ؟
سکندر: ہاں سمجھو بس ہو گئ۔
اماں: کیسے ختم کی انہوں نے۔۔۔ ان کے مطالبات تم نے مان لیۓ؟
سکندر: نہیں اماں مطالبات نہیں مانیں میں نے انہیں کچھ اور پیشکش کی جو انہوں نے قبول کر لی۔
اماں: کیا پیشکش کی تم نے؟
سکندر: میں نے ان میں کچھ چیزیں بانٹیں اور کہا کہ ہفتے میں ایک بار ایک وقت کا کھانا میری طرف سے ہو گا۔
اماں: یہ پیشکش تم نے ان مطالبات کے بدلے میں دی ہے جو انہوں نے کیۓ تھے۔۔۔
سکندر: ہاں اماں۔ تو کہتی تھی مزدوروں کا خیال کیا کر اب تو تو خوش ہے۔
اماں: خوشی کس بات کی یہ سب تو تم نے ہڑتال ختم کرنے کے لیے کیا ہے۔
سکندر: جس وجہ سے بھی کیا ہے پر تمہارے مزدوروں کے لیۓ ہی تو کیا ہے۔
اماں: یہ تم نے مزدوروں کے لیۓ نہیں کیا ملک سکندر! میں تمہاری ماں ہوں خوب سمجھتی ہوں یہ سب تم نے کیوں کیا ہے۔ یہ تم نے اس لیا کیا ہے تاکہ تمہیں مزدوروں کے مطالبات نہ ماننے پڑیں۔۔۔ اکیلے تم کیا! اس دنیا میں تم جیسے ہزاروں لوگ ہیں جو غرباء اور مساکین کو خوش کرنے کے لیۓ مندروں اور مسجدوں کے باہر خیرات بانٹتے پھرتے ہیں، صدقات دیتے ہیں، این جی اوز بناتے ہیں، چیرٹی فنڈ مختص کرتے ہیں۔ مگر بالکل تمہاری طرح اپنی کمپنیوں کارخانوں میں، اپنی جاگیروں اور زمینوں پر ان کے جائز حقوق انہیں نہیں دیتے۔ یہ صدقہ و خیرات، یہ چیرٹی اور ویلفئیر کے کام یہ سب اس لیۓ نہیں کہ انہیں غربت ختم کرنے میں کوئی دلچسپی ہے بلکہ یہ اس لیۓ ہے تاکہ غرباء کو زندہ رکھا جا سکے تاکہ وہ محنت و مشقت سے تم جیسے لوگوں کے لیۓ مزید دولت پیدا کر سکیں۔ اپنا خون پسینہ جلا کر تم لوگوں کے لیۓ پر آسائش زندگی کے سامان پیدا کرسکیں۔
سکندر: اماں تو بھی کسی حال میں خوش نہیں ہوتی۔
اماں: میں خوش تب ہوں گی پتر جب تو سچ مچ سمجھ جاۓ گا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔۔۔ نہ صرف سمجھ جاۓ گا بلکہ صحیح راہ پر چل بھی پڑے گا۔
سکندر: اماں چھوڑ یہ سب! تو کن چکروں میں پڑ رہی ہے۔ تجھے دنیا اور لوگوں کی نہیں سمجھ تو یہ سب مجھ پر چھوڑ دے۔ (اٹھ کر) میں کسی کام سے جا رہا ہوں تم سو جانا میں تھوڑی دیر تک آجاؤں گا۔
(چلا جاتا ہے)
چودھواں منظر
دن۔ سکندر کا دفتر۔
سکندر اپنے دفتر میں اشتیاق کے ساتھ بیٹھا ہے۔
اشتیاق: سر وہ ذوالقرنین خطرناک ہو سکتا ہے مزدوروں نے ہڑتال تو ختم کر دی ہے لیکن وہ انہیں ابھی بھی بھڑکا سکتا ہے۔
سکندر: تو کیا خیال ہے کیا علاج کیا جاۓ اس کا؟
اشتیاق: میرا خیال ہے سر اس کو دوسری فیکٹری میں بھیج دیتے ہیں یہاں اس نے کافی پاؤں جما لیۓ ہیں، بہت سے مزدوروں کو اس نے اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ فی الحال تو اس کے روکنے کے باوجود مزدوروں نے ہڑتال ختم کر دی ہے لیکن وہ کسی بھی بات کو لے کر دوبارہ انہیں ہڑتال پر آمادہ کر سکتا ہے۔
سکندر: بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن اسے دوسری فیکٹری نہیں بھیجا جا سکتا یہاں پر مزدوروں کو بڑی مشکل سے قابو کیا ہے اگر اسے ادھر بھیج دیا تو وہاں بھی وہ انہیں اپنے ساتھ ملا لے گا۔ اس لیۓ بہتر یہی ہے اس کی چھٹی کرا دی جاۓ۔ تم کوئی مناسب سا بہانہ بنا کر اسے فارغ کر دو۔
اشتیاق: ٹھیک ہے جناب میں کرتا ہوں بندوبست۔
(اٹھ کر کمرے سے نکل جاتا ہے)
پندھرواں منظر
دن۔ ریلوے ٹریک۔
ایک خالی ریلوے ٹریک جس پر داؤد اور ماریہ اکیلے باتیں کرتے چلے جارہے ہیں۔
ماریہ: ہم ہر دفعہ اس خالی ریلوے ٹریک پر کیوں ملتے ہیں؟
داؤد: شاید اس لیۓ کہ ہم پہلی دفعہ یہیں ملے تھے اسی ریلوے ٹریک کے پاس۔۔۔ اور پھر ہم دونوں کی زندگی بھی تو اس خالی ریل کی پٹری کی طرح ہے، بظاہر گزر تو رہی ہے مگر اصل میں یہیں کھڑی ہے۔
ماریہ: ٹھیک کہتے ہو۔ میری زندگی بھی چلتے چلتے یوں رک گئ جیسے کوئی ریل گاڑی تیز رفتاری سے بھاگتے ہوۓ کسی خرابی سے اچانک تھم جاتی ہے۔۔۔ امی کے جانے کے بعد زندگی کی رفتار میں تبدیلی ضرور آئی تھی مگر پھر بھی چل رہی تھی لیکن اب جب سے ابو بیمار پڑے ہیں یوں لگتا ہے اس پر طاری جمود کبھی نہیں ٹوٹے گا۔
داؤد: میری زندگی تو شروع سے یونہی تھی۔ جنہوں نے میری زندگی کی گاڑی کے انجن کو سٹارٹ کرنا تھا وہ تو پتہ نہیں کہاں تھے۔ جب سے ہوش سنبھالا اور زندگی کو کچھ جاننے کے قابل ہوا تب سے خود کو بس ایسے ہی دیکھ رہا ہوں۔
ماریہ: تم نے کبھی انہیں ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی؟
داؤد: کیا کوشش کروں۔۔۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں وہ اس دنیا میں ہیں بھی یا نہیں۔ مجھے تو ان کے نام تک نہیں پتہ۔ ویسے بھی ابھی کام تلاش کروں کہ انہیں تلاش کروں۔
ماریہ: کام کا کیا بنا ہڑتال ختم ہوئی کہ نہیں؟
داؤد: ہو گئ ہے صبح جاؤں گا جا کر دیکھوں گا کیا کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا تو تھا ہڑتال کے بعد آنا تو رکھ لیں گے۔
ماریہ: خدا کرے رکھ لیں۔
(ٹرین کی سیٹی کی آواز آتی ہے)
داؤد: لگتا ہے گاڑی آرہی ہے۔ پٹری سے اتر جاؤ۔
ماریہ: ہاں! چلو گھر چلتے ہیں کافی دیر ہو گئ ہے ابو میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔
داؤد: تو آج وہ رہنے دیں؟
ماریہ: میرے پاس تو آج کے لیۓ پیسے ہیں ابو کے لیۓ اور اپنے لیۓ کھانا لے جاؤں گی۔
داؤد: ہمارے پاس بھی ابھی ہیں کل والے رات کے کھانے کا بندوبست ہو جاۓ گا۔
ماریہ: تو پھر ٹھیک ہے آج رہنے دیتے ہیں۔
داؤد: ہاں صحیح ہے۔ (ہنس کر) سیونگ اکاؤنٹ۔
(ماریہ بھی ہلکا سا ہنستی ہے۔ ٹرین کی آواز قریب آجاتی ہے)
داؤد: چلو ہٹو یہاں سے جلدی۔
(دونوں پٹری سے اتر کر ایک طرف چلنے لگتے ہیں۔ ان کے پیچھے سے ٹرین تیزی سے گزر جاتی ہے)
سولہواں منظر
دن۔ سکندر کی فیکٹری۔
فیکٹری میں داؤد مختلف کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک گتا اٹھاتا ہے اور اسے مشین پر رکھ کر درست کرتا ہے گتا مشین میں سے گزرتا ہے اور دوسری طرف سے بڑی نفاست سے کٹ کر باہر نکل آتا ہے۔ کٹے ہوۓ گتے کو دوسری مشین میں رکھتا ہے اور واپس آکر دوبارہ ایک نیا گتا مشین پر رکھ دیتا ہے۔ اردگرد مزدور دوسری مشینوں پر کام کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔ مشینوں کی آوازوں کا شور سنائی دے رہا ہے۔
سترھواں منظر
شام کا وقت۔ سکندر کی فیکٹری۔
داؤد کام ختم کرکے کپڑے تبدیل کرتا ہے اور سوپر وائزر کے پاس جاتا ہے۔ سوپر وائیزر رجسٹر پر کچھ لکھنے میں مصروف ہے۔
سوپروائیزر: (داؤد کو دیکھ کر) آؤ داؤد آج کا کام تمہارا ختم ہو گیا تم یہ۔۔۔یہاں (رجسٹر آگے کرکے انگلی رکھ کر جگہ کی نشاندہی کرتا ہے) پر دستخط کردو۔ (داؤد دستخط کرتا ہے) ٹھیک ہے اب تم جاسکتے ہو پر کل وقت پر آجانا۔
داؤد: آجاؤں گا۔۔۔ سوپروائیزر صاحب آپ سے ایک بات کرنی تھی؟
سوپروائیزر: ہاں کرو کیا بات ہے؟
داؤد: اگر آپ میری تنخواہ میں سے کچھ پیسے مجھے ابھی ایڈوانس میں دے دیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ مجھے پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔
سوپروائیزر: دیکھو۔۔۔ایسے نہیں ہوتا ابھی تمہیں ایک دن تو ہوا ہے آۓ ہوۓ ابھی تو ہم دیکھیں گے تم کیسا کام کرتے ہو پھر تمہیں یہاں رکھیں گے۔
داؤد: تو پھر ایسا کریں آپ مجھے ایک دن کے پیسے دے دیں۔ آج میں نے جتنا کام کیا ہے اس حساب سے میرے جتنے پیسے بنتے ہیں آپ وہ مجھے دے دیں۔
سوپروائیزر: نہیں میں یہ نہیں کر سکتا ایسا کرنے کی مجھے اجازت نہیں۔
(ایک طرف سے ظہیر ان کی باتیں سن کر آجاتا ہے۔)
ظہیر: (پاس آکر) کیا ہوا سوپروائیزر صاحب؟
سوپروائیزر: یار یہ جو تم بندا لے کر آۓ ہو بڑا عجیب آدمی ہے ابھی ایک دن ہوا ہے اسے اور کہتا ہے میری تنخواہ میں سے کچھ پیسے ابھی دے دو۔
ظہیر: کوئی بات نہیں سوپروائیزر صاحب پیسے دے دو اسے میں جانتا ہوں اسے سچ مچ پیسوں کی ضرورت ہے۔
سوپروائیزر: کچھ عقل سے کام لو ظہیر! میں اسے پیسے کیسے دے دوں اگر یہ ایڈوانس پیسے لے کر کل سے کام پر نہ آیا تو پھر۔۔۔میں کہاں سے پورا کرتا پھروں گا اتنے پیسے۔۔۔
ظہیر: نہیں یار یہ ایسا آدمی نہیں میں اسے جانتا ہوں۔ ہم اکٹھے ہی یتیم خانے میں پلے بڑھے ہیں میری طرح اس کا بھی کوئی نہیں۔ اگر کوئی مسئلہ ہوا تو تم میری تنخواہ سے کاٹ لینا۔
سوپروائیزر: تو پھر ٹھیک ہے میں تمہاری تنخواہ میں سے پیسے اس کو دے دیتا ہوں جب اسے تنخواہ ملے گی تو تم اس سے لے لینا پر رجسٹر میں انٹری تمہارے نام کی ہو گی۔
ظہیر: ٹھیک ہے سوپروائیزر صاحب جیسے تم خوش رہو تم میرے نام کی انٹری کر دو اور میری تنخواہ میں سے پیسے اسے دے دو۔
داؤد: تمہارا بہت شکریہ ظہیر! میں اپنی تنخواہ ملتے ہی تمہیں پیسے دے دوں گا۔
ظہیر: شکریے کی کوئی بات نہیں یارا بس کل سے وقت پہ کام پر آجانا۔
داؤد: میں آجاؤں گا تم فکر مت کرو۔
اٹھارواں منظر
رات۔ ماریہ کا گھر
ماریہ کا گھر نہایت خستہ حال اور بوسیدہ ہے۔ ایک جھلک سے ہی غربت اور پسماندگی نمایاں طور پر نظر آجاتی ہے۔ چھوٹا سا ایک برآمدہ نما حال ہے جس میں کچھ فاصلے پر دو چارپائیاں بچھی ہیں۔ ایک چارپائی پر ماریہ کا والد لیٹا ہے جبکہ دوسری چارپائی خالی ہے۔ برآمدے کے ایک کونے پر چولہا پڑا ہے جہاں ماریہ چاۓ بنا رہی ہے۔ چولہے سے برتن اٹھاتی ہے اور زمین پر پڑے ہوۓ دو کپوں میں چاۓ انڈیلتی ہے۔ چاۓ ڈال کر برتن دوبارہ چولہے پر رکھ دیتی ہے اور چولہا بند کر دیتی ہے۔ پھر کپ اٹھاتی ہے اور اپنے والد کی چارپائی کے پاس آجاتی ہے۔ چارپائی کے پاس دونوں کپ زمین پر رکھتی ہے اور والد کو آواز دیتی ہے۔
ماریہ: ابو چاۓ پی لیں۔
(اس کا والد تھوڑا سا اوپر اٹھتا ہے ماریہ اس کے تکیے کے اوپر ایک اور تکیہ رکھ دیتی ہے۔ وہ دونوں تکیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہے۔)
ماریہ: (چاۓ کا کپ پکڑاتے ہوۓ) آج رات پھر چاۓ پر گزارا کرنا پڑے گا ابو۔ رات کے کھانے کا بندوبست نہیں ہو سکا۔
ابو: کوئی بات نہیں۔ دن کو کھا لیا تھا کافی ہے اب کل دیکھیں گے۔
(ماریہ اس کے قریب موڑھے پر بیٹھ کر چاۓ پینے لگتی ہے)
ماریہ: ابو کل آپ کی دوائی بھی ختم ہو جاۓ گی پتہ نہیں کل کیا بنے گا۔ اگر دوائی کا انتظام کروں گی تو کھانا نہیں آۓ گا اور اگر کھانے کا بندوبست کرتی ہوں تو دوائی نہیں ملے گی۔
ابو: تم کھانے کا انتظام کر لینا دوائی رہنے دینا ویسے بھی دوائی سے مجھے آرام تو آ نہیں رہا۔
ماریہ: نہیں ابو دوائی سے فرق پڑ رہا ہے پہلے آپ بالکل چل نہیں سکتے تھے اب آپ تھوڑا بہت تو چل پھر لیتے ہیں۔
(دروازے پر دستک ہوتی ہے)
ماریہ: (خیرت سے) اس وقت کون ہے۔
(اٹھ کر چند قدم دور دروازے تک جاتی ہے۔ دروازہ کھولتی ہے تو سامنے داؤد اور زلفی کو دیکھتی ہے۔ دونوں نے ہاتھ میں کچھ شاپر پکڑ رکھے ہیں)
ماریہ: (خیرت سے) تم لوگ یہاں؟
داؤد: ہاں ہم لوگ یہاں! جلدی کرو کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے ہمیں بڑی سخت بھوک لگی ہے۔ اور مجھے یقین ہے تم لوگوں کو بھی بھوک لگی ہو گی۔
(دونوں اندر آجاتے ہیں۔)
ابو:کون ہے ماریہ بیٹا؟
ماریہ: ابو داؤد اور زلفی ہیں وہ جن کے بارے میں میں نے آپ کو بتایا تھا۔
(داؤد اور زلفی دونوں آگے بڑھتے ہیں اور اس کے والد سے ملتے ہیں)
داؤد: کیا حال ہے انکل آپ کا! طبعیت اب کیسی ہے؟
ابو: میں ٹھیک ہوں۔ پہلے سے بہتر ہوں۔
(داؤد اور زلفی دونوں خالی چارپائی پر بیٹھ جاتے ہیں۔)
داؤد: (ماریہ سے مسکرا کر) تم کیوں کھڑی ہو؟ اسے اپنا ہی گھر سمجھو۔ شرمانے کی ضروت نہیں یہ شاپر اٹھاؤ اور جلدی سے کھانا پلیٹوں میں ڈال کر لے آؤ۔ سب مل کر کھاتے ہیں۔
(ماریہ داؤد کی طرف خیرت سے دیکھتی ہے کچھ کہنا چاہتی ہے مگر بغیر کچھ کہے شاپر اٹھا کر لے جاتی ہے)
زلفی: انکل آپ بالکل اٹھ نہیں سکتے یا تھوڑا بہت چل پھر لیتے ہیں؟
ابو: پہلے تو بالکل اٹھ نہیں سکتا تھا لیکن اب تھوڑا بہت چل لیتا ہوں۔ کسی دیوار یا کسی چیز کا سہارا لے تھوڑا سا ٹہل بھی لیتا ہوں۔
(ماریہ کھانا شاپر سے برتنوں میں منتقل کر لیتی ہے اور برتن اٹھانے لگتی ہے۔ داؤد اسے دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
داؤد: میں مدد کرتا ہوں۔
(اس کے پاس جاتا ہے اور برتن اٹھانے لگتا ہے)
ماریہ: (آہستگی سے) تمہارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آۓ؟ اتنا سارا کھانا کیسے لاۓ ہو؟
داؤد: بتاتا ہوں پہلے کھانا کھا تو لیں پھر آرام سے بتاؤں گا۔ بڑی بھوک لگی ہے۔
ماریہ: (اس کی قیمص پکڑ کر کھینچتی ہے) نہیں پہلے بتاؤ۔
داؤد: کیا کر رہی ہو برتن گر جاۓ گا۔ کس قدر ضدی ہو تم کہا تو ہے بتاتا ہوں اب چھوڑو مجھے۔
(برتن لے کر چارپائیوں کے پاس چھوٹے سے میز پر رکھ دیتا ہے۔ ماریہ باقی برتن اٹھا کر لے آتی ہے۔ سب مل کر کھانا کھانے لگتے ہیں۔)
ماریہ کا والد: (کھانا کھاتے ہوۓ) تم لوگوں کا بہت شکریہ! تم لوگوں نے یہ سب کیا۔ جب ماریہ نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا کہ دو لڑکے ہیں جن سے مل کر وہ کام کرتی ہے تو میں تھوڑا سا گھبرایا میں نے سوچا پتہ نہیں کیسے لوگ ہیں۔ لیکن یہ کہتی تھی اچھے لڑکے ہیں آپ فکر مت کریں۔ جیسے یہ تم لوگوں کے بارے میں بتاتی تھی اس کی باتیں سن کر کچھ تسلی تو ہو جاتی تھی مگر پھر بھی میں پریشان رہتا تھا۔ لیکن اب تم سے مل لیا ہے تو کچھ اطمینان ہو گیا ہے۔
داؤد: آپ بے فکر رہیں انکل! ہماری طرف سے ماریہ کو کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ اور پھر یہ تو خود ہی اپنے کام کی بہت ماہر ہے (ماریہ کی طرف مسکرا کر دیکھتا ہے) ہم نے تو سارا کام اس سے سیکھا ہے۔
(ماریہ زیرِ لب مسکراتی ہے)
زلفی: ہاں یہ بات تو بالکل ٹھیک ہے کام تو ہم نے واقعی اس سے سیکھا ہمیں تو سچ میں کچھ نہیں آتا تھا۔ بلکہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا یہ کام بھی ہو سکتا ہے۔
(داؤد اس کو کہنی مار کر ایسی بات کرنے سے روکتا ہے)
ماریہ کا والد: پھر بھی پریشانی تو رہتی ہے یہ اکیلی باہر جاتی ہے سارا دن پتہ نہیں کہاں کہاں دھکے کھاتی ہے۔ میرا جو حال ہے وہ تم لوگوں کے سامنے ہے میں تو چل کر دروازے تک نہیں جا سکتا۔
داؤد: آپ فکر نہ کریں انکل ہم اس کا پورا دھیان رکھیں گے۔
(ماریہ کا والد خاموش ہو جاتا ہے)
انیسواں منظر
وہی وقت۔ ماریہ کا گھر
صحن کے ایک کونے میں بیسن لگا ہے جہاں داؤد ہاتھ دھو رہا ہے۔ اس کے کچھ فاصلے پر ماریہ خاموش کھڑی اس کو دیکھ رہی ہے۔
داؤد: (اس کی طرف دیکھ کر) خاموش کیوں ہو۔۔۔کیا سوچ رہی ہو؟
ماریہ: کچھ خاص نہیں۔
داؤد: خاص نہیں تو کچھ عام تو سوچ ہی رہی ہو۔
ماریہ: تم نے ایسا کیوں کیا داؤد! اتنے سارے پیسے تم نے ایک ہی دن لگا دئیے باقی دن کیا کرو گے جب پیسے ختم ہو جائیں گے۔ اوپر سے مہینے کے آخر میں تمہیں تنخواہ بھی نہیں ملے گی جو ملے گی وہ تو تمہیں لوٹانی پڑے گی۔
داؤد: نہیں کون سا ساری تنخواہ میں نے ایڈوانس لی ہے۔ تنخواہ میں سے صرف کچھ پیسے لئیے ہیں تم پریشان نہ ہو کچھ نہیں ہو گا۔
ماریہ: پھر بھی داؤد۔۔۔
داؤد: بس اب چپ کر جاؤ۔ اس بارے میں مزید کوئی بات نہ کرنا۔
(زلفی کی آواز آتی ہے)
زلفی: داؤد آجاؤ یار کافی وقت ہو گیا ہے اب چلیں۔
(ماریہ اور داؤد دونوں چل کر ان کے پاس جاتے ہیں۔ زلفی اور داؤد آخری مرتبہ ماریہ کے والد سے ملتے ہیں۔)
زلفی: اچھا انکل جی ہم چلتے ہیں آپ آرام کریں۔
ماریہ کا والد: ٹھیک ہے بہت شکریہ تم دونوں کا۔ دوبارہ ضرور آنا۔
زلفی: جی انکل ضرور آئیں گے۔ (ماریہ سے) ٹھیک ہے ماریہ ہم چلتے ہیں۔
(دونوں دروازے کی طرف بڑھتے ہیں اور باہر نکل جاتے ہیں۔ ماریہ دروازے کے پاس جاتی ہے کچھ دیر تک انہیں جاتا ہوا دیکھتی ہے پھر دروازہ بند کر لیتی ہے۔ اس پورے منظر میں ماریہ کچھ بجھی بجھی سی رہتی ہے)
بیسواں منظر
دن۔ سکندر کی فیکٹری
فیکٹری میں داؤد، ظہیر اور ایک اور آدمی ایک جگہ پر کھڑے ہیں۔ اردگرد مشینیں چل رہی ہیں اور کام جاری ہے۔ مشینیں چلنے کی آوازیں مسلسل آرہی ہیں۔
آدمی: ویسے یار جو بھی ہے پر ذوالقرنین تھا بڑا دلیر آدمی۔۔۔ اس جیسی ہمت آج تک اس فیکٹری میں کسی نے نہیں دکھائی۔
ظہیر: یہ تو ہے جب تک وہ تھا ہمارے حقوق کی بات کرنے والا تو کوئی تھا۔ اب کس میں اتنی جرات ہے ایسی بات کرنے کی۔
داؤد: تو پھر اس نے ہڑتال ختم کیوں کی؟
آدمی: اس نے کہاں ختم کی! یہ تو مزدوروں نے ختم کی۔ اس کے منع کرنے کے باوجود مزدوروں نے ہڑتال ختم کردی اگر سب لوگ اس کا اور تھوڑی دیر تک ساتھ دے جاتے تو شاید بات بں جاتی۔
ظہیر: مزدور بھی کیا کرتے اگر ہڑتال جاری رکھتے تو کھاتے کہاں سے۔۔۔ اور کچھ عرصہ کام نہ کرتے تو گھر چلانا مشکل ہو جاتا۔
(سوپر وائیزر آتا ہے)
سوپروائیزر: وہ والا بنڈل مکمل ہو گیا ہے؟
آدمی: ہاں ہو گیا ہے۔ اب کھانے کا وقفہ ہونے والا ہے اس کے بعد ہی نیا بنڈل لگائیں گے۔
سوپروائیزر: ٹھیک ہے! وہ گودام سے باقی سامان اٹھا کر باہر رکھ دینا میں جارہا ہوں۔
ظہیر: بے فکر رہو صاحبو رکھ دیں گے۔
(سوپروائیزر چلا جاتا ہے)
داؤد: یہ سوپر وائیزر صاحب آج بڑی جلدی میں ہیں؟
ظہیر: ہاں صبح بتا رہے تھے کسی شادی پہ جانا ہے۔
داؤد: اچھا! اسی لیئے۔۔۔
اکیسواں منظر
رات۔ داوؤد اور زلفی کا گھر۔
داؤد اپنے کمرے کے باہر ایک چھوٹی سی بالکنی میں بیٹھا ہے۔ سامنے سڑک پر رواں ٹریفک کو دیکھ رہا ہے لیکن دراصل دھیان اس کا کہیں اور ہے۔ کسی خیال میں کھویا ہے۔ زلفی خوشی سے جھومتا ہوا کمرے کے اندر سے ہی اسے آوازیں دیتا ہوا آتا ہے۔
زلفی: داؤد۔۔۔داؤد۔۔۔کہاں ہو یار!
(بالکنی میں آکر) یہاں بیٹھے ہو میں بھی کہوں پتہ نہیں کہاں گیا ہے۔ مبارک ہو شاید اب میرے کام کا بھی بندوبست ہو جاۓ۔ آج اپنے گھر گیا ہوا تھا۔ بخاری چاچا سے مل کر آرہا ہوں کہہ رہے تھے میں نے ایک جگہ بات کی ہے ہو سکتا ہے ایک دو دن تک بلا لیں۔
(داؤد اس کی بات پر زیادہ توجہ نہیں دیتا اور اسی طرح سامنے سڑک کی طرف دیکھتا رہتا ہے۔)
زلفی: (اس کے پاس بیٹھ کر) خیر ہے! کیا ہوا ہے؟
داؤد: کچھ نہیں یار بس کچھ سوچ رہا ہوں۔
زلفی: کیا؟
داؤد: میں سوچ رہا ہوں نوکری مل گئ ہے اور اللہ کا شکر ہے اچھی چل رہی ہے تو کیوں نا اس کے بعد والا مرحلہ بھی طے کر لیا جاۓ۔
زلفی: (خیرت سے) بعد والا مرحلہ۔۔۔! وہ کیا؟
داؤد: شادی....! یار دیکھو تمہیں بھی کام مل جاۓ گا کچھ دنوں تک پھر کوئی بھی مسئلہ نہیں رہے گا۔ تو مجھے لگتا ہے ہمیں شادی کر لینی چاہیۓ۔
زلفی: مجھے چھوڑو مجھے شامل نہ کرو تم اپنی بات کرو۔ میں خیران ہوں تمہیں یہ خیال اچانک بیٹھے بٹھاۓ کہاں سے آگیا۔ پہلے تو کبھی تم نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
داؤد: پہلے کام بھی تو نہیں ملا تھا اس کا خیال کیسے آتا۔
زلفی: تو تمہیں کیا لگتا ہے ابھی تمہیں بہت اچھا کام مل گیا ہے جس سے تم شادی کے بعد آرام سے زندگی بسر کر لو گے؟
داؤد: نہیں ایسا تو نہیں لیکن۔۔۔
زلفی: لیکن ویکن چھوڑو میرے بھائی ابھی اس چکر میں مت پڑو اور ویسے بھی شادی کے لیئے ایک عدد لڑکی کی ضرورت ہوتی ہے وہ کہاں سے لاؤ گے۔
داؤد: یار لڑکی تو ہے۔۔۔
زلفی: کہاں ہے لڑکی۔۔۔ لڑکی تو ایسے جیسے پیڑ پر۔۔۔(کچھ یاد آنے پر) ایک منٹ۔۔۔ کہیں تم ماریہ کی بات تو نہیں کر رہے؟
داؤد: ہاں اسی کی کر رہا ہوں۔
زلفی: ہاں جی مجھے اندازہ تھا کہ جناب کچھ ایسا ہی گل کھلائیں گے۔ لڑکی تو چلو ٹھیک ہے اچھی ہے پر تمہیں کیا لگتا ہے جیسے تمہارے اور اس کے حالات آج کل چل رہے ہیں وہ ابھی شادی کے لیۓ راضی ہو جاۓ گی؟ اس سے بات کی ہے؟
داؤد: نہیں اسے تو ابھی کچھ نہیں بتایا۔
زلفی: تو پہلے اسے بتاؤ کہ تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو۔ مجھے نہیں لگتا وہ مانے گی کیونکہ اس کے والد کی حالت تم اچھی طرح جانتے ہو۔ اور اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ تم اس کی اور اس کے والد کی ذمہ داری اٹھا لو گے تو ایسا اس نوکری سے تو ممکن نہیں۔
داؤد: میں جانتا ہوں یار! لیکن کون سا میں نے ہمیشہ اسی نوکری پر رہنا ہے اس سے بہتر کام بھی تو ملے گا۔
زلفی: تو جب تمہیں بہتر کام ملے گا۔ جب تمہاری ترقی ہوگی تب اس بارے میں سوچنا ابھی فی الحال ایسے خیال دل سے نکال دو۔
(داؤد کوئی جواب نہیں دیتا اور سامنے دوبارہ سڑک کی جانب دیکھنے لگتا ہے)
بائیسواں منظر
دن۔ ریلوے ٹریک۔
ریل کی پٹری پر داؤد اور ماریہ دونوں بالکل خاموش کھڑے ہیں۔ دونوں کچھ دیر تک خاموش رہتے ہیں۔
داؤد: اس طرح خاموش تو نہ رہو۔ ایسی کوئی انوکھی بات تو میں نے نہیں کی۔ میں مانتا ہوں ہمارے حالات ابھی ایسے نہیں کہ ہم اس بارے میں کچھ سوچیں۔ زلفی تو مجھے کہہ رہا تھا ایسے خیال ابھی اپنے دل سے نکال دو فی الحال اس کے کوئی چانسز نہیں۔ مگر ماریہ میں نے سوچا تمہیں اپنی خواہش اور ارادے سے آگاہ تو کر سکتا ہوں اور تمہاری خواہش اور ارادے کے بارے میں جان تو سکتا ہوں۔ اگر تمہاری طرف سے ہاں ہے تو پھر ہم تمہارے ابو سے بھی بات کر لیں گے اور اگر انہوں نے بھی رضامندی ظاہر کردی تو اس کے بعد ہمارے حالات میں جب بھی بہتری آئی ہم اگلا مرحلہ بھی طے کرلیں گے۔
(ماریہ خاموشی سے ریل کی پٹری پر چلنے لگتی ہے)
داؤد: کچھ بولو تو! کہاں چل دی۔۔۔
(داؤد بھی اس کے پیچھے چلتا ہے) دیکھو ماریہ ابھی بے شک اس بارے میں کسی قسم کا جواب نہ دو۔ تم گھر جا کر سکون سے سوچنا پھر کل آکر کوئی جواب دینا۔ ابھی بس اتنا بتا دو تمہیں برا تو نہیں لگا۔
(ماریہ رک کر اس کی جانب مڑتی ہے۔ داؤد بھی ٹھہر جاتا ہے۔ ماریہ اسے چند لمحے خاموشی سے دیکھتی رہتی ہے)
داؤد: کیا دیکھ رہی ہو۔ کچھ تو بولو۔۔۔برا تو نہیں لگا؟
ماریہ: برا نہیں لگا۔ تم جواب جاننا چاہتے ہو؟
داؤد: ہاں جاننا تو چاہتا ہوں مگر کوئی بات نہیں تم تسلی سے ایک دو دن سوچ کر بتا دینا۔ اتنا انتظار میں کر لوں گا۔
(ٹرین آنے کی آواز آتی ہے)
ماریہ: نہیں اتنا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں بس تھوڑا سا انتظار کرنا پڑے گا۔
داؤد: کتنا؟
ماریہ: بس یہ ٹرین گزرنے تک۔۔۔ جب ٹرین آۓ گی تو تم بائیں طرف پٹری سے اترو گے اور میں دائیں طرف اتروں گی۔ ٹرین گزرنے کے بعد تمہیں جواب خود ہی مل جاۓ گا۔
(چند لمحے انتظار کے بعد ٹرین قریب آجاتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے مخالف سمت پٹری سے اتر جاتے ہیں۔ داؤد کھڑا ہو کر ٹرین کو گزرتے ہوۓ دیکھتا ہے۔ چلتی ہوئی ٹرین کے پار دوسری طرف دیکھنے کی کوشش کرتا ہے مگر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ کچھ دیر بعد ٹرین گزر جاتی ہے۔ داؤد دوسری طرف دیکھتا ہے ماریہ وہیں کھڑی مسکرا رہی ہوتی ہے۔ داؤد بھی جواب جان کر مسکرا اٹھتا ہے۔)
تئیسواں منظر
رات۔ داؤد لوگوں کا گھر۔
کمرے میں زلفی کسی کام میں مصروف ہے۔ داؤد اندر آتا ہے جو بڑا ہشاش بشاش اور خوش باش نظر آرہا ہے۔ آکر خاموشی سے بیٹھ جاتا ہے اور مسکراتا ہوا کسی خیال میں کھو جاتا ہے۔ زلفی سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھتا ہے۔ چند لمحے اسے دیکھتا رہتا ہے۔ داؤد کو بالکل بھی خبر نہیں ہوتی کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے۔
زلفی: آج خیریت ہے کس دنیا میں پہنچے ہوۓ ہو؟
داؤد: (ہلکا سا چونک کر) ہونہہ! کیا کہا؟
زلفی: میں نے کہا کس دنیا میں ہو؟
داؤد: یہیں ہوں۔ کیوں؟
زلفی: جتنے تم خوش نظر آرہے ہو لگتا تو نہیں تم یہاں ہو۔ اتنی خوشی اس دنیا میں تو میسر نہیں آسکتی۔
داؤد: آسکتی ہے۔۔۔ایک صورت میں آسکتی ہے۔
زلفی: اچھا جی! کس صورت میں؟
داؤد: اگر اس شخص کا ساتھ مل جاۓ جس کے ساتھ آپ پوری زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آسکتی ہے۔
زلفی: تو اس کا مطلب ہے ماریہ نے۔۔۔
داؤد: جی ہاں! اس نے ہاں کر دی ہے۔ بس اب اس کے ابو مان جائیں۔۔۔
زلفی: بڑی بیوقوف لڑکی ہے فوراً مان گئ۔ حالانکہ ہمارے ہاں کی لڑکیوں پر تو فرض ہے چاہے ان کا اپنا کتنا ہی دل ہو، چاہے دل میں کتنی ہی ہاں ہو لیکن جلد ماننا نہیں لٹکاتے جانا ہے۔ لیکن یہ تو اسی وقت مان گئی۔
داؤد: ہاں تو اچھی بات ہے۔ اگر آپ کا اپنا دل یہی چاہتا ہے اگر آپ کی اپنی خواہش بھی یہی ہے تو کیوں بات کو ٹالتے چلے جانا۔ اور اگر آپ یہ نہیں چاہتے تو سیدھا انکار کرنے میں کیا حرج ہے۔
زلفی: بیٹا جی بات تو اچھی ہے مگر دوسری بہت سی اچھی باتوں کی طرح ہمارے ہاں یہ اچھی بات بھی کہیں نہیں پائی جاتی۔ یہ واحد لڑکی ہے جس نے یہ حرکت کی ہے۔ میں تو کہتا ہوں اس کو اس حرکت کی بنا پر سماج سے نکال دینا چاہیۓ۔
داؤد: اچھا مزاق چھوڑو! یہ بتاؤ کیا بنا تمہارے کام کا۔۔۔ آج گۓ تھا جہاں بحاری چاچا نے بھیجا تھا۔
زلفی: ہاں گیا تھا کچھ نہیں بنا۔ انہوں نے کسی کو پہلے ہی رکھ لیا ہوا ہے۔
داؤد: چلو کوئی بات نہیں بحاری چاچا سے کہنا کہیں اور پتا کر دیں۔
زلفی: (بد دلی سے) کہا ہے انہیں۔ واپسی پر ان سے مل کر آیا تھا۔
چوبیسواں منظر
دن۔ فیکٹری۔
فیکٹری میں داؤد سمیت دیگر بہت سے مزدور کام کر رہے ہیں اچانک ایک طرف سے شور اٹھتا ہے سب بھاگ کر وہاں جاتے ہیں۔ کسی مزدور کا ہاتھ مشین میں آکر کٹ جاتا ہے۔
پہلا آدمی: ہاتھ پورا کٹ گیا ہے جلدی سے ایمبولینس بلاؤ۔
دوسرا آدمی: ایمبولینس کا انتظار کرنے کی بجاۓ اسے ایسے ہی لے چلو۔
تیسرا آدمی: ہاں یہ صحیح ہے۔۔۔لے چلو ایسے ہی۔۔۔اٹھاؤ اسے۔
تیسرا آدمی: (بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہوۓ) کوئی دوسری طرف سے اسے اٹھاۓ۔
(تین چار آدمی اسے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ باقی مزدور بھی افسوس کرتے ہوۓ اپنی اپنی جگہ پر چلے جاتے ہیں۔ ایک جگہ پر داؤد، ظہیر اور دو تین آدمی کھڑے رہتے ہیں۔)
پہلا آدمی: بیچارا اسی عمر میں اپنا ہاتھ گنوا بیٹھا ہے اب اسے کون کام پر رکھے گا۔
دوسرا آدمی: یہ چھ مہینوں میں دوسرا ایسا واقعہ ہے۔
داؤد: (خیرت سے) دوسرا واقعہ۔۔۔
دوسرا آدمی: ہاں یہاں تو ایسے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں تم اختیاط سے کام کرنا۔
داؤد: اگر ایسا ہے تو مزدوروں کی حفاظت کا کوئی انتظام کیوں نہیں کیا جاتا؟
پہلا آدمی: میرے بھائی کون سنتا ہے یہاں، مزدوروں کی کس کو پڑی ہے۔
داؤد: پھر بھی یار مزدورں کی حفاظت کا کچھ تو بندوبست ہونا چاہیے۔ ہمیں جا کر مینجر سے بات کرنی چاہیۓ۔
ظہیر: پاگل ہو۔ ایسی بات سوچنا بھی مت پہلے ہی تمہیں اتنی مشکل سے کام ملا ہے چپ کرکے کام کرتے رہو۔
دوسرا آدمی: ظہیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے چپ کرکے کام کرتے رہو گے تو بہتر رہو گے نہیں تو ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔
داؤد: لیکن پھر بھی۔۔۔
ظہیر: کہا تو ہے چپ کر جاؤ اور کام پر لگ جاؤ سوپروائیزر صاحب آتے ہی ہوں گے۔
(سب اپنی اپنی جگہ پر چلے جاتے ہیں داؤد کچھ دیر تک وہاں کھڑا رہتا ہے)
پچیسواں منظر
دن۔ فیکٹری
فیکٹری میں چھٹی کا وقت ہے۔ داؤد کپڑے تبدیل کرکے کام والی جگہ سے باہر نکل رہا ہے۔ ظہیر آتا ہے دونوں ایک ساتھ چلنے لگتے ہیں۔
داؤد: (تھوڑا سا چلنے کے بعد) تم چلو مجھے ذرا ایک چھوٹا سا کام ہے میں ابھی آیا۔
ظہیر: ٹھیک ہے جلدی آنا۔
(داؤد ایک جانب چل پڑتا ہے)
چھبیسواں منظر
وہی وقت۔ فیکٹری
داؤد مینجر اشتیاق کے کمرے میں کھڑا ہے۔ کمرے میں اشتیاق اور اس کے سوا اور کوئی نہیں۔
داؤد: میں صرف یہ کہہ رہا ہوں اشتاق صاحب اگر مزدوروں کو اور سہولتیں نہیں دے سکتے تو کم سے کم کام کے دوران ان کی حفاظت کا تو کوئی انتظام کر سکتے ہیں۔ آۓ دن اتنے حادثات ہوتے ہیں مگر آپ پھر بھی کچھ نہیں کرتے۔
اشتیاق: تو تم کیا چاہتے ہو میں کام کرتے ہوۓ ہر مزدور کے پاس کھڑا رہا ہوں اور دیکھتا رہوں کہ اس کے ساتھ کوئی حادثہ تو نہیں پیش آنے والا۔
داؤد: میں کیا کہہ رہا یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں اشتیاق صاحب۔ اگر آپ صرف چند اقدامات کر دیں تو ایسے حادثات میں بہت کمی واقع ہو سکتی ہے۔
اشتیاق: فی الحال اس قسم کے اقدامات کرنے کے لیۓ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں۔ پچھلے دو تین مہینوں سے ہماری سیل گرتی جا رہی ہے۔ ابھی جاؤ جب ہمارے پاس وسائل ہوں گے تو پھر ہم اس کا بھی بندوبست کر دیں گے۔
داؤد: میں جانتا ہوں آپ کچھ نہیں کریں گے میں اس کے لیۓ سکندر صاحب سے ملوں گا اور ان سے بات کروں گا۔
اشتیاق: مجھے یہ بتاؤ صرف تم کو تکلیف کیوں ہو رہی ہے اور تو کوئی نہیں آیا بات کرنے کے لیۓ۔
داؤد: وہ بھی آئیں گے۔ لیکن آپ سے بات کرنے کا فائدہ نہیں ہم سیدھا سکندر صاحب کے پاس جائیں گے۔
اشتیاق: شوق سے جاؤ۔ ان سے بات کرکے دیکھ لو۔
داؤد: ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔
(کمرے سے نکل جاتا ہے)
ستائیسواں منظر
دن۔ ملک سکندر کا دفتر
ملک سکندر اپنے دفتر میں اکیلا بیٹھا ہے۔ اشتیاق اندر داخل ہوتا ہے۔
اشتیاق: السلام علیکم سر؟
ملک سکندر: (گرم جوشی سے) وعلیکم السلام! آؤ اشتیاق صاحب کیا حال چال ہیں؟ آؤ بیٹھو۔
اشتیاق: سر آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔
ملک سکندر: ہاں ہاں کیجیۓ، کہیۓ کیا بات ہے؟
اشتیاق: جناب وہ کل پھر ایک مزدور کے ساتھ حادثہ پیش آگیا ہے۔ اس کا ہاتھ مشین میں آکر کٹ گیا ہے۔
ملک سکندر: تو پھر؟
اشتیاق: جناب بات وہ نہیں اصل بات یہ ہے کہ ایک داؤد نام کا نیا مزدور آیا ہے وہ مزدوروں کو بھڑکا رہا ہے کہ حادثہ ہمارے مناسب اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ وہ کہتا ہے ایسے حادثے اس لیۓ ہوتے ہیں کیونکہ مزدوروں کی حفاظت کے لیۓ ٹھیک انتظامات نہیں کیۓ جاتے۔
سکندر: اس کا مطلب ہے نیا ذوالقرنین پیدا ہو گیا ہے۔ ایک سے جان چھڑائی تھی یہ دوسرا کہاں سے آگیا۔
اشتیاق: جی جناب میں اسی لیۓ آیا ہوں کیونکہ یہ آدمی خطرناک ہو سکتا ہے۔ ابھی یہ نیا نیا ہے اسے زیادہ مزدور پہچانتے نہیں۔ لیکن اگر اس نے ذوالقرنین کی طرح پاؤں جما لیۓ تو پھر اسے اکھاڑنا مشکل ہو جاۓ گا۔ اس لیۓ اس کا ابھی سے بندوبست کر لیا جاۓ تو بہتر ہے۔
سکندر: تو ٹھیک ہے کرو اس کا بندوبست جو بھی تمہیں مناسب لگتا ہے تم کرو تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔
اشتیاق: اچھا پھر مجھے اجازت دیں میں چلتا ہوں۔
سکندر: جلدی کیا ہے بیٹھو چاۓ پی کر جانا۔
اشتیاق: نہیں سر مجھے ذرا جلدی ہے چاۓ پھر کبھی۔
سکندر: چلو ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔
اٹھائیسواں منظر
رات۔ داؤد لوگوں کا گھر
کمرے کے باہر بالکنی میں داؤد سر جھکاۓ بیٹھا ہے۔ زلفی اس کے پاس کھڑا ہے۔
داؤد: بس پھر انہوں نے میرے ساتھ دوسرے دو تین لڑکوں کو بھی فارغ کر دیا۔ مجھے اسی بات کا افسوس ہے کہ میری وجہ سے ان کی نوکری بھی چلی گئ۔
زلفی: لیکن یار تمہیں ضرورت کیا تھی مینجر سے جا کر یہ بات کرنے کی۔
داؤد: وہ اس لیۓ کہ یہ بات کرنی ضروری تھی۔ جو میں نے کیا مجھے اس کا بالکل بھی پچھتاوا نہیں کیونکہ میرے نزدیک یہی صحیح تھا۔
زلفی: تو پھر اب گزارا کیسے ہو گا مجھے بھی کام نہیں مل رہا۔
داؤد: (سامنے سڑک پر دیکھتے ہوۓ) پتہ نہیں کیسے ہو گا۔
انتیسواں منظر
دن۔ ریلوے ٹریک۔
ریلوے ٹریک کے پاس جنگلے کے قریب داؤد، ماریہ اور زلفی تینوں موجود ہیں۔ تینوں افسردہ دکھائی دے رہے ہیں۔
ماریہ: کچھ پیسے ہیں پاس یا۔۔۔
داؤد: جو پیسے بچے تھے دو دن تک وہی چلاتے رہے ہیں اب کچھ بھی نہیں بچا۔
ماریہ: میرے پاس بھی کل تک تھے آج کچھ بھی نہیں۔
زلفی: تو پھر سوچ کیا رہے ہو چلو اپنا وہی سیونگ اکاؤنٹ استعمال کرتے ہیں۔
ماریہ: ہاں ٹھیک کہہ رہے ہو آج تو کرنا پڑے گا۔
داؤد: (آگے بڑھتے ہوۓ) چلو پھر۔
(تینوں بھاگ کر جاتے ہیں اور سلاخیں اکھاڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی دوران پولیس کی گاڑی آکر رکتی ہے۔ گاڑی میں تین چار سپاہی باہر نکلتے ہیں اور ان تینوں کی طرف بھاگتے ہیں۔)
پہلا سپاہی: پکڑو انہیں بھاگنے نہ دینے۔
(تینوں بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں مگر فوراً پکڑے جاتے ہیں۔)
Post a Comment
Thank you for your comment