Drizzling Of Love

Drizzling Of Love





 رات کا تیسرا پہر ہونے کو آیا تھا لیکن نیند شاید اس سے روٹھ گئ تھی۔ چارپائی پر لیٹے لیٹے کروٹیں بدل بدل کر جب وہ تھک چکا تو اٹھ کر بیٹھ گیا۔ چارپائی سے اتر کر اس نے چپل پہنے اور دیوار کے پاس چھوٹے سے لکڑی کے بوسیدہ میز پر سے پانی کے جگ میں سے پانی گلاس میں انڈیلا اور ایک ہی سانس میں پورا گلاس پی گیا۔ واپس چارپائی پر آکر چت لیٹ کر اس نے اپنی بازو سر کے پیچھے ٹکائی اور بے مقصد چھت کو گھورنے لگا۔ چھت پر کہیں کہیں جالے لگے تھے۔ پورا کمرا بوسیدہ سا گردوغبار سے اٹا تھا جس کی دیواروں کا روغن جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا۔ ایک بلب روشن تھا جس کی مٹیالی روشنی کمرے کے مختصر سے سامان پر پڑ رہی تھی جو کہ ایک میز دو کرسیوں ایک چارپائی اور چند جوڑے کپڑوں پر مشتمل تھا۔ کچھ کپڑے اس کے ایک بڑے سے بستے میں تھے جو ایک کونے میں میز کے نیچے پڑا تھا اور دو ایک جوڑے دیوار پر کھونٹی سے لٹک رہے تھے۔ پورے گاؤں میں وہ تنہا تھا جو اس وقت جاگ رہا تھا۔ یہ چھوٹا سا گاؤں آبادی سے کافی ہٹ کر تھا اور بالکل ویران اور سنسان تھا اس لیۓ اس وقت پتا کھڑکنے تک کی آواز بھی نہیں آرہی تھی۔ ایک طویل مدت تک وہ اسی طرح چھت کو گھورتا رہا۔ یہاں تک کہ گاؤں کی واحد مسجد سے صبح کی اذان کی آواز کھڑکی کے راستے اندر آنا شروع ہوئی۔ وہ کچھ دیر تک لیٹا اذان سنتا رہا پھر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ چارپائی سے اتر کر لباس درست کیا اور باہر نکل کر مسجد کی جانب چل دیا۔ عام طور پر وہ اس وقت اٹھ کر نماز پڑھنے کا عادی نہیں تھا اور اسے یاد بھی نہیں تھا کہ آخری بار اس نے کب نماز پڑھی تھی۔ اپنے گھر میں تھا تو کبھی کبھی جمعہ کی نماز پڑھ لیا کرتا تھا لیکن جب سے اس گاؤں میں اس کی تعیناتی ہوئی تھی اس نے ایک بھی جمعہ نہیں پڑھا تھا۔ آج بھی اگر وہ معمول کے مطابق سورہا ہوتا تو اس وقت اٹھ کر مسجد نہ جاتا لیکن رات بھر کی بیداری کی وجہ سے وہ اٹھ کر باہر نکل آیا۔ اس میں اس کا نماز پڑھنے کے جذبے سے زیادہ بوریت کو رفع کرنے کا خیال زیادہ حاوی تھا۔ اجاڑ رات کے جگراتے کی تھکاوٹ اور اکتاہٹ سے بیزار ہو کر اس نے مسجد کا رخ کیا تا کہ کچھ وقت کٹ سکے۔ وہ باہر نکلا تو ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ جو چند نمازی نماز کے لیۓ جایا کرتے تھے وہ ابھی گھروں سے نہیں نکلے تھے۔ وہ چلتا ہوا آبادی والے حصے سے باہر نکل آیا کیونکہ مسجد گاؤں سے باہر تھی اور قدرے غیرآباد علاقے میں واقع تھی۔ یہاں اسے ٹھنڈ لگنے لگی۔ ابھی جاڑے کا موسم نہیں آیا تھا لیکن صبح اور رات کے وقت کھلی اور ہوادار جگہوں پر سردی محسوس ہوتی تھی۔ اس نے اپنے دونوں بازو سینے پہ باندھ لیۓ اور تیز تیز چلنے لگا۔ اردگرد جھاڑیوں اور کھیتوں سے گھاس کے ٹڈوں اور جھینگروں کی آوازیں مسلسل سنائی دے رہی تھیں۔ مسجد کے قریب پہنچ کر دو تین کتے اسے دیکھ کر دور ہی سے باری باری بھونک کر خاموش ہو گۓ۔ وہ مسجد کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ یہ مسجد ایک ٹیلے پر آباد تھی اور گاؤں کے تمام گھروں سے بلند سطح پر تھی۔ سیڑھیاں چڑھ کر اس نے گاؤں کی جانب دیکھا گھروں کی بتیاں جل رہیں تھیں جو دور سے یوں لگ رہیں تھیں جیسے بہت سے دیۓ روشن ہوں۔ وہ سیڑھیوں کے پاس وضو کے لیۓ مختص جگہ پر بیٹھ گیا اور وضو کرنے لگا۔ وضو کے بعد مسجد کی مختصر سی دہلیز عبور کرکے وہ اندر چلا گیا۔ بہت چھوٹی سی مسجد تھی جس میں بمشکل تمام پچاس آدمیوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش تھی جو کہ گاؤں کی آبادی کے لحاظ سے کافی تھی۔ عمارت انتہائی پرانی تھی اور اس کا ڈیزائن بھی پرانی طرز کا تھا۔ گاؤں کے بزرگوں کا کہنا تھا یہ مسجد ان کی بھی پیدائس سے بہت پہلے کی تھی اور ان میں سے کوئی بھی نہیں جانتا یہ مسجد کب تعمیر ہوئی تھی۔ شاید جب  یہ گاؤں آباد ہوا تھا تب گاؤں والوں نے اسے خود تعمیر کیا تھا۔ مسجد کی خستہ حال عمارت اور  اس کی طرز تعمیر کو دیکھ کر یہی لگتا تھا کہ مسجد کافی قدیم ہے۔ 


وہ اندر داخل ہوا تو امام مسجد نے جو اس وقت قران مجید پڑھنے میں مصروف تھے اسے سر اٹھا کر دیکھا جس کے جواب میں اس نے اپنے سر کی ہلکی سی جنبش سے انہیں سلام کیا اور ایک کونے میں چپ چاپ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ امام مسجد دوبارہ قران شریف پڑھنے میں مصروف ہو گۓ۔ کچھ دیر میں چند اور لوگ آگۓ۔ 


نماز کے بعد وہ باہر نکلا تو دن نکل آیا تھا۔ اس نے مسجد کے صحن میں کھڑے ہو کر مسجد کی ٹوٹی ہوئی دیوار کے اوپر سے جہاں تک نگاہ جاتی تھی جھانک کر دیکھا وہاں دور بہت دور خشک پہاڑیوں کا ایک سلسلہ دکھائی دے رہا تھا۔ یہ پہاڑ گاؤں سے بہت دور تھے جو صرف اس مسجد سے جو کہ ایک بلند ٹیلے پر واقع تھی دکھائی دیتے تھے۔ مسجد میں وہ ایک دو لوگوں سے جن کے ساتھ اس کی علیک سلیک تھی سلام دعا کے بعد نیچے اتر آیا۔ وہ اس گاؤں میں نووارد تھا اس لیۓ ابھی اس کی بہت کم لوگوں سے شناسائی تھی۔ البتہ گاؤں کے بہت سے لوگ اسے پہچانتے تھے کیونکہ وہ اس گاؤں کے ایک چھوٹے سے دواخانہ میں بطور ایک ڈسپینسر کے بھرتی ہو کر آیا تھا اس لیۓ بہت سے لوگوں کا اس سے واسطہ پڑتا تھا۔ نماز کے بعد چند لوگ وہیں کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے اور چند آگے سیر کے لیۓ نکل گۓ۔ وہ واپس اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ راستے میں باری باری دو تین آدمیوں سے اس کی مڈبھیڑ ہوئی جو کسی کام سے کہیں جا رہے تھے ان میں سے ایک کو وہ جانتا تھا۔ پورے گاؤں میں یہی ایک آدمی تھا جس سے ابھی تک اس کی تھوڑی بہت دوستی ہوئی تھی کیونکہ وہ روزانہ دو مرتبہ اس کے ڈھابے سے کھانا کھاتا تھا۔ اس کا نام شیفا تھا اور گاؤں بھر میں اس کا ہوٹل 'شیفے دا ہوٹل' کے نام سے مشہور تھا۔ 


گھر پہنچ کر اس نے بڑے سے بستے میں سے اپنا لباس نکالا جو اس نے آج کام پر پہن کر جانا تھا۔ لباس نکال کر استری کرنے کے بعد اس نے اسے دروازے کے اوپر لٹکا دیا اور خود چارپائی پر آکر لیٹ گیا۔ ابھی ڈسپینسری جانے کے لیۓ بہت وقت تھا اس لیۓ اس نے آنکھیں بند کیں اور اطمینان سے سو گیا۔


کافی دیر بعد دھوپ کی کرنیں کھڑکی سے گزر کر اس کے چہرے پر پڑنے لگیں تو اس کی آنکھ کھل گئ۔ اس نے وقت دیکھا جو بہت کم رہ گیا تھا۔ وہ جلدی سے اٹھا اور نہا دھو کر تیار ہو گیا۔


سارا دن کام کرنے کے بعد وہ تقریباً سپہر کے وقت ہسپتال سے نکلا اور شیفے کے ہوٹل کی طرف چل دیا۔ ہوٹل پہنچا تو وہاں شیفا نہیں تھا کسی کام سے کہیں گیا ہوا تھا اس نے اپنے بیٹھنے کے لیۓ مناسب جگہ تلاس کی اور بیٹھ گیا۔ شیفے کے ملازم نے اس سے کھانے کا پوچھا اس نے کھانے کی بجاۓ صرف ایک پیالی چاۓ لانے کو کہا اور خود کرسی سے ٹیک لگا کر ٹانگیں میز کے نیچے پھیلا کر آرام سے سگریٹ پینے میں مںشغول ہو گیا۔ ہوٹل میں اس وقت رش زیادہ نہیں تھا صرف چند گنے چنے لوگ تھے ان میں سے کچھ کھانا کھانے یا چاۓ پینے آۓ تھے اور کچھ بس یونہی وقت گزاری کے لیۓ بیٹھے تھے۔ شیفے کا ہوٹل گاؤں کا واحد ہوٹل تھا اس لیۓ وہاں ہر وقت لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ صبح جب وہ کام شروع کرتا تھا اس وقت سے لے کر رات دیر تک گاؤں کے تین چار آدمی لازماً اس کے ہوٹل میں موجود ہوتے تھا۔ 


کچھ دیر میں شیفا لوٹ آیا اس نے آتے ہی اپنی بیٹھی ہوئی آواز میں پہلے اپنے ملازم کو کوئی ہدایات دیں اور پھر اسے دیکھ کر اس کی جانب لپکا اور اس کے سامنے بیٹھتے ہوۓ بولا۔ 'آ ممود (محمود) پائی! کیسا ہے چا نئ (نہیں) پی ابھی تک۔ اوۓ غفورے چا لا اپنے ممود پائی کے لیۓ اور ایک کپ میرے لیۓ بھی لا فٹا فٹ۔' 


شیفا جب بولتا تھا تو یوں لگتا تھا اس کے گلے میں مستقل طور پر کوئی چیز پھنسی ہوئی ہے۔ اس کی آواز میں ایک رکاوٹ تھی ایک ہرہراہٹ تھی جو ہر وقت اس کے بولنے پر محسوس ہوتی تھی۔ جیسے کسی ریڈیو سیٹ کا سپیکر خراب ہو جاۓ تو اس کی آواز بیٹھ جاتی ہے اور یوں لگتا ہے سپیکر کے اندر کوئی چیز اٹک گئ ہے۔ شیفے کی آواز بھی بالکل اسی طرح تھی۔ اس کے گلے کا سپیکر کب خراب ہوا تھا یا یہ کہ بچپن سے ہی ایسا تھا کسی کو معلوم نہیں تھا۔ اس نے کچھ دیر تک محمود کے پاس بیٹھ کر چاۓ پی اور پھر اپنے کام میں لگ گیا۔ محمود نے بھی چاۓ پی کر ایک دو سگریٹ پیئے اور اپنے گھر کی طرف چل دیا۔


باہر نکلا تو شام ہونے والی تھی۔ کچھ لوگ جو کام کاج کے لیۓ گاؤں سے باہر جاتے تھے واپس گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ آسمان پر پرندوں کے غول کے غول بھی قطار اندر قطار اپنے ٹھکانوں کا رخ کر رہے تھے۔ ایک وسیع میدان میں کھیلتے ہوۓ بچے اپنا کھیل ختم کر کے شور مچاتے نعرے لگاتے ہوۓ گھروں کو بھاگ نکلے۔ گھروں کے اندر سے کھانا پکانے کی آوازیں اور خوشبوئیں ایک ساتھ آرہی تھیں۔ وہ آرام سے چلتا ہوا اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیا۔ 


کمرے میں پہنچ کر اس نے نہا دھو کر کپڑے بدلے اور کھڑکی کھول کر باہر جھانک کر دیکھا باہر اندھیرا ہو چکا تھا۔ وہ چارپائی پر لیٹ گیا۔ اس نے آنکھیں بند کیں تو اسے نیند آگئ۔ لیکن کچھ ہی دیر میں اس کی آنکھ کھل گئ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو گھنٹے گزرے تھے اور ابھی پہاڑ جیسی رات اس کے سامنے تھی۔ کافی دیر تک وہ چارپائی پر لیٹ کر چھت کو گھورتا رہا۔ پھر اٹھا اور کچھ دیر کمرے میں ٹہلنے کے بعد باہر گلی میں نکل آیا اپنے کمرے کو تالا لگا کر ایک طرف کو چل پڑا۔ ابھی رات اتنی زیادہ نہیں ہوئی تھی اس لیۓ گاؤں میں گھومتے پھرتے ہوۓ چند آدمی دکھائی دے رہے تھے۔ چند ایک دکانیں بھی کھلی ہوئیں تھیں۔ اس نے ایک دکان سے سگریٹ کا پیکٹ خریدا اور سیدھا شیفے کے ہوٹل کی طرف چل دیا۔


شیفے کے ہوٹل میں اس وقت بہت سے آدمی تھے۔ ان میں زیادہ تر وہ بزرگ یا بڑی عمر کے لوگ تھے جو اپنا فارغ وقت گزارنے کے لیۓ روزانہ کافی دیر تک ہوٹل میں بیٹھے رہتے تھے۔ موسمِ گرما تھا اس لیۓ بہت سے لوگ باہر کھلے میں بیٹھے تھے اس نے بھی باہر بیٹھنے کو ترجیع دی اور چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھا ایک کونے میں جہاں کم لوگ تھے وہ وہاں جا کر بیٹھ گیا۔ پہلے اس نے میز پر پڑے ہوۓ پانی سے ایک گلاس پانی پیا اور پھر سگریٹ سلگا لیا۔ آج دوپہر کے وقت اس نے ہسپتال میں تھوڑا سا کھانا کھایا تھا لیکن ابھی اسے بھوک بالکل بھی نہیں لگ رہی تھی۔ سگریٹ پیتے ہوۓ اس نے گردن ایک طرف گھما کر شیفے کو دیکھا جو اپنے کام میں مگن تھا۔ اس کی کام میں پھرتی اور مہارت دیکھ کر وہ کافی متاثر ہوا۔ اس کے چہرے پر موٹی سی مونچھیں تھیں جو اسے بہت پسند آئی تھیں۔ جب اسے یہاں آۓ ابھی چند دن ہوۓ تھے تو اس نے بھی شیفے کی طرح مونچھ رکھنے کا فیصلہ کیا اور کچھ دنوں تک اس نے اپنی مونچھوں کی وضع بالکل شیفے کی مونچھوں کی طرح کر لی تھی مگر اس کے باریک چہرے پر اس قسم کی لحیم و شحیم مونچھیں بالکل نہیں جچتی تھیں جیسے وہ شیفے کے چہرے پر جچتی تھیں لہذا وہ انہیں تراش کر دوبارہ اپنی پہلے والی حالت میں لے آیا۔


وہ دیر تک وہاں بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ لوگوں کا رش کافی کم ہو گیا اور چند گنے چنے لوگ رہ گۓ۔ جب وہ سب بھی چلے گۓ اور شیفے کے ہوٹل کے بند ہونے کا وقت ہو گیا تو وہ بھی اٹھ کر چل دیا۔ واپسی پر سارے راستے اسے کوئی بھی آدمی دکھائی نہ دیا۔ ابھی دس بجے تھے مگر اس گاؤں میں جو شہری آبادی سے کافی دور ویرانے میں آباد تھا آدھی رات گزر چکی تھی۔ چند آدمی جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہوٹل میں بیٹھے تھے وہ بھی گھروں میں جا گھسے تھے۔ فصلیں، کھیت ، کھلیان، کھڑکیاں، چوبارے، میدان یوں لگتا تھا ہر چیز گہری نیند سو گئ ہے۔ 


وہ اپنے کمرے میں پہنچا اور آتے ہی چارپائی پر ڈھیر ہو گیا۔ رات کو دو تین بار اس کی آنکھ کھلی لیکن کچھ دیر بعد وہ دوبارہ سو گیا۔ صبح جب اٹھا تو سورج سر پر چڑھ آیا تھا۔ وہ جلدی سے اٹھ کر تیار ہوا اور کام پر چل دیا۔


دن بھر کام کرنے کے بعد اس نے کچھ ضروری رسیدیں اپنے ساتھی کے حوالے کیں اور ہسپتال سے نکل کر حسبِ معمول شیفے کے ہوٹل کی طرف چل دیا۔ آج اس نے ہسپتال میں کھانا نہیں کھایا تھا اس لیۓ اس نے ہوٹل میں کھانا کھایا اور پچھلے پہر وہاں سے نکل آیا۔ جب وہ باہر نکلا تو تیز ہوا چل رہی تھی اور آسمان پر کہیں کہیں بادلوں کے ٹکڑے نمودار ہونا شروع ہو گۓ تھے۔ وہ جلدی آگیا تھا اس لیۓ جب میدان کے پاس پہنچا تو بچے ابھی کھیل رہے تھے وہ کھڑے ہو کر ان کا کھیل دیکھنے لگ گیا۔ کافی دیر تک وہ بڑے انہماک سے ان کا کھیل دیکھتا رہا۔ ابھی وہ آگے بڑھنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ تیز آندھی آئی اور گردوغبار اڑنے لگی۔ آسمان گھنے سیاہ بادلوں سے بھر گیا۔ دھول سے بچنے کے لیۓ اس نے آنکھوں کے آگے اپنا بازو رکھ لیا اور قدم آگے بڑھاۓ لیکن ابھی دو چار قدم چلا تھا کہ تیز بارش ہونے لگی۔ وہ بھیگنے سے بچنے کے لیۓ کوئی پناہ گاہ تلاش کرنے لگا مگر وہاں دور دور تک کھلے کھیت اور وسیع و عریض میدان کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ میدان میں کھیلتے ہوۓ بچوں نے اپنے کھیل کا سامان اٹھایا اور بھاگ کھڑے ہوۓ۔ وہ بھی ان کے ساتھ بھاگا مگر جلد رک گیا۔ بارش اتنی تیز تھی کہ وہ ابھی سے پوری طرح بھیگ گیا تھا اس لیۓ بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ بچے شور مچاتے اور شرارتیں کرتے آگے بڑھ گۓ اور وہ آرام سے ان کے پیچھے چلنے لگا۔ 


کچھ دور جا کر وہ گھر جانے والے راستے کی طرف جانے کی بجاۓ دوسری جانب ایک بڑی سی پگڈنڈی پر اتر گیا اور کھیتوں کے بیچ میں سے گزرتا ہوا نہر کی طرف نکل گیا۔ ٹھنڈی اور تیز ہوا کے تھپیڑوں میں درختوں کی شاخیں اور پتے گنگنا رہے تھے اور فصلیں جھوم رہی تھیں۔ نہر کے اوپر ایک پرندہ آندھی اور بارش سے لڑتا ہوا ہوا میں بہے چلا جا رہا تھا۔ ایک آدمی سائیکل پر تیز تیز پیڈل گھماتا ہوا اس کے قریب سے گزر گیا۔ وہ نہر کے کنارے ٹہلتے ہوۓ کافی دور تک گیا اور پھر گھوم کر دوسری جانب چل دیا۔ ایک لمبا چکر کاٹ کر وہ گاؤں کے عقب سے گاؤں میں داخل ہوا اور اپنے گھر کی راہ لی۔ 


اگلے کئ دنوں تک اس کے معمول میں کوئی خاطر خواہ فرق نہیں آیا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ گاؤں کے دیگر افراد سے اس کی شناسائی ہونے لگی تھی۔ کچھ عرصے بعد اس کی ملاقات ایک لڑکے جبار سے ہوئی جو فوراً دوستی میں بدل گئ۔ وہ تقریباً ہر روز رات کو جب وہ شیفے کے ہوٹل سے کھانا کھا کر لوٹتا تو راستے میں اس کے پاس کچھ دیر ٹھہر جاتا۔ جبار کا اپنا ایک چھوٹا سا کارخانہ تھا جس میں وہ اور اس کا باپ دن بھر لکڑی کی کرسیاں میز بنایا کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ مال ان کا اپنے گاؤں میں بک جاتا تھا اور کچھ وہ آس پاس کے دیہات میں بیچ دیتے تھے۔ دن کے وقت دونوں باپ بیٹا کام کرتے تھے جبکہ شام کو اس کا باپ گھر چلا جایا کرتا تھا اور جبار اکیلا کارخانہ سنبھالتا تھا۔ 


شام ہو گئ تھی وہ شیفے کے ہوٹل سے نکلا اور جبار کے گھر کی طرف چل دیا۔ ایک بڑی گلی عبور کرنے کے بعد وہ مڑا اور ایک چھوٹے سے احاطے کے بیرونی دروازے میں داخل ہوا۔ جیسے ہی اس نے قدم اندر رکھا ایک لڑکی اندر سے تقریباً بھاگتی ہوئی آئی اور اس کے قریب پہنچ کر ٹھٹک گئ۔ اس نے اپنے دوپٹے کے پلو سے اپنا چہرا ڈھانپا اور دروازے سے باہر نکل گئ۔ وہ چند لمحے خیرت زدہ وہیں کھڑا رہا پھر اندر احاطے میں چلا گیا جہاں سے وہ لڑکی نکل کر آئی تھی۔ اندر داخل ہوا تو جبار رندے سے کسی لکڑی کو چھیلنے میں مصروف تھا۔ اس نے اک نظر اٹھا کر محمود کو دیکھا اور بولا۔ ' آگۓ۔ آجا بیٹھ جا۔ چا پیۓ گا! یہ پڑی ہوئی ہے کپ میں ڈال کے پی لے۔' اس نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا جہاں ایک کرسی کے اوپر تھرمس پڑا ہوا تھا۔ محمود نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گیا۔ وہاں اردگرد ہر جگہ لکڑی کا برادہ بکھرا پڑا تھا اور لکڑی کی مخصوص قسم کی ہلکی سی بو پھیلی تھی۔


  'ایک بات تو بتا جبارے؟' محمود کپ میں چاۓ ڈالتے ہوۓ بولا۔


ہاں پوچھو!'


یہ لڑکی کون ہے جو ابھی یہاں سے گئ ہے۔'


جبار نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا پھر ہنستے ہوۓ بولا۔ 'تم نے دیکھ لیا۔ چل بتاتا ہوں  پر بتائیں نہ کسی کو۔'


نہیں بتاتا تو بتا تو سہی کون ہے۔' 


یار یہ لڑکی مجھ سے ملنے آئی تھی۔ تین چار سال ہو گۓ ہیں ہمیں اس طرح ملتے ہوۓ۔ جب کبھی موقع ملتا ہے ہم چھپ کر ملاقات کر لیتے ہیں۔ میں نے اپنے ابے سے اس کے ساتھ ویاہ کی بات کی ہے پر ابا نہیں مانتا۔'


کیوں! وہ کیوں نہیں مانتا؟' محمود نے چاۓ کا گھونٹ بھر کر پوچھا۔


وہ کہتا ہے اوبڑوں میں نہیں کرنا۔ کرنا ہے تو اپنی برادری میں کرنا ہے۔' اس نے اپنے کان کی پشت میں اڑسی ہوئی پینسل نکالی اور پیمائس کے آلے سے لکڑی کی پیمائش کرکے نشان لگا کر کہا۔


 'میں نے بھی سوچ لیا ہے۔ میں نے اک دن اسے بھگا کر لے جانا ہے۔' 


لڑکی اس کے لیۓ تیار ہے؟' محمود نے خیرت سے پوچھا۔ 


ہاں وہ بھی تیار ہے۔' جبار نے ایک اور پیمائش کے بعد نشان لگایا اور لکڑی کو  آری سے تھوڑا سا کاٹ کر بولا۔ 'بس کسی دن ہم نے کوئی چنگا سا موقع دیکھ کر فرار ہو جانا ہے۔'


محمود نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے چاۓ پینے میں مصروف ہو گیا۔ دونوں اس وقت جس جگہ موجود تھے وہ بڑا سا حال نما کمرا تھا جس میں جلتا ہوا ایک بلب پورے کمرے کو روشنی پہنچانے کے لیۓ ناکافی تھا لیکن جبار عین بلب کے نیچے کام کر رہا تھا اس لیۓ اسے کوئی دقت پیش نہیں آرہی تھی۔ اس کے عقب میں کچھ فاصلے پر جہاں قدرے اندھیرا تھا چند زیرِ تعمیر کرسیاں میز پڑے تھے۔ کمرے کی چھت بہت اونچی تھی جس کے ساتھ ایک بڑا سا روشن دان آدھا کھلا اور آدھا بند تھا۔ دونوں کبھی باتیں کرنے لگتے تھے اور کبھی یوں خاموش ہو جاتے جیسے کمرے میں کوئی موجود نہ ہو۔ وہ بہت دیر تک جبار کے پاس بیٹھا رہا پھر جب جبار کے کام بند کرنے کا وقت ہوا تو دونوں اٹھ کر اپنے اپنے گھر آگۓ۔


اگلی صبح اس نے اپنے معمول کے مطابق ڈسپینسری میں کام کیا اور پھر شیفے کے ہوٹل سے دوپہر کا کھانا کھا کر گھر آکر سو گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو شام ہو چکی تھی۔ وہ منہ ہاتھ دھو کر باہر نکل آیا اور ہوٹل کی طرف چل دیا۔ راستے میں اسے جبار مل گیا وہ کچھ پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ جب اس نے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے تو اس نے کہا۔ 'میں تمہاری طرف ہی آرہا تھا تم سے ضروری بات کرنی تھی پر یہاں نہیں کر سکتا۔ چلو احاطے میں چلتے ہیں ابا گھر چلا گیا ہو گا وہاں چل کر بات کرتے ہیں۔'


وہ دونوں احاطے کی طرف چل پڑے۔ جب وہ احاطے میں پہنچے تو جبار کا باپ گھر جا چکا تھا۔ وہاں پہنچ کر جبار نے اس سے کہا۔ 'ہم نے سوچ لیا ہے ہم کل یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔'


اتنی جلدی کیا پڑ گئ ہے۔ ہوا کیا ہے؟' محمود نے خیرت سے پوچھا۔ 


جلدی پڑ گئ ہے کیونکہ پتہ چلا ہے اس کا باپ ایک دو دن تک اس کی کہیں بات پکی کر رہا ہے۔ اس لیۓ ہم کل ہی بھاگ کر شادی کر لیں گے۔' جبار نے محمود کے ہاتھ سے سگریٹ لے کر کش لگایا جو اس نے احاطے میں بیٹھتے ہوۓ سلگا لیا تھا۔ 


پھر بھی یار پہلے اچھی طرح سوچ لے۔ تو لڑکی کو بول کہ اپنے باپ کو تمہارے بارے میں بتاۓ۔ ہو سکتا وہ مان جاۓ۔'


وہ نہیں مانے گا۔' جبار ایک لمبا کش لگا کر بولا۔ 'وہ کہتا ہے اس کی شادی وہیں ہو گی جہاں وہ چاہتا ہے۔ اور پھر میرا باپ بھی تو نہیں مان رہا۔ تم بس بتاؤ تم بھاگنے میں میری مدد کرو گے؟'


'ہاں وہ تو کردوں گا پر۔۔۔'


تو پھر ٹھیک ہے۔' جبار اس کی بات کاٹ کر بولا۔ 'کل رات تم ہمیں لاری تک چھوڑ کر آؤ گے۔'


وہ تو ٹھیک ہے پر وہاں تک جائیں گے کیسے؟ اگر تمہارا موٹرسائیکل لے کر جائیں گے تو واپس کرتے ہوۓ وہ تمہارا پوچھیں گے نہیں؟'


ہاں یہ تو ہے۔ پھر کسی اور سے تھوڑی دیر کے لیۓ موٹر سائیکل مانگ لیں؟ کیا خیال ہے؟' جبار کچھ سوچ کر بولا۔


اس سے بھی سیدھا شک مجھ پر جاۓ گا جب اگلے دن تم غائب ہو گے تو سب یہی کہیں گے کہ میں تم لوگوں کو چھوڑ کر آیا تھا۔ پھر میں انہیں کیا جواب دوں گا۔' 


تو پھر کیا کریں؟' جبار کچھ پریشان ہو کر بولا۔ اس نے سگریٹ کا کش لگا کر سگریٹ محمود کو پکڑایا اور خود کمرے میں ٹہلنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر سوچ کر دوبارہ بولا۔ 'پھر ایک ہی طریقہ ہے؟'


کیا؟'


ہم چل کر وہاں تک جائیں گے۔' 


اتنا لمبا راستہ چل کر کیسے جائیں گے؟' محمود نے پوچھا۔


جانا تو پڑے گا اور کوئی طریقہ نہیں۔ ہم رات کے اندھیرے میں نکلیں گے تم ہمیں لاری میں بٹھا کر واپس آجانا اور چپ چاپ اپنے گھر جا کر سو جانا۔ کسی کو بھی کچھ پتہ نہیں چلے گا۔ بس گاؤں سے نکلتے ہوۓ اختیاط کرنی پڑے گی اس وقت ہمیں کوئی دیکھ نہ لے۔'


محمود نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور کسی سوچ میں پڑ گیا۔


کیا سوچ رہے ہو ہمیں چھوڑ کر آؤ گے کہ۔۔۔' جبار نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھتے ہوۓ پوچھا۔


ہاں یار چھوڑ آؤں گا۔' محمود نے کہا۔ 'میں کل شام کو اسی طرح تمہارے پاس آؤں گا جس طرح روز آتا ہوں اور اپنے وقت پر گھر چلا جاؤں گا تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ پھر میں رات کو دوبارہ آؤں گا اور ہم اکٹھے یہاں سے نکل جائیں گے۔'


نہیں یہاں سے نہیں نکلیں گے بلکہ نہر کی طرف سے جائیں گے وہاں رات کے وقت کوئی نہیں ہوتا۔ میں لڑکی کو لے کر نہر کے پاس آجاؤں گا تم وہاں ہمارا انتظار کرنا۔' 


یہ ٹھیک ہے۔ اس طرح مجھے بھی دوبارہ یہاں نہیں آنے پڑے گا۔ یہاں آنا زیادہ خطرناک ہے کوئی بھی مجھے دیکھ سکتا ہے۔' محمود نے اس سے اتفاق کرتے ہوۓ کہا۔


دونوں جب وقت، جگہ اور دیگر تفصیلات طے کر چکے تو اٹھ کر اپنے اپنے گھر چلے گۓ۔ وہ رات گزر گئ۔ اگلا دن بھی گزر گیا۔ شام آئی تو محمود شیفے کے ہوٹل سے نکل کر جبار کی طرف چل دیا۔ راستے میں دو تین آدمیوں نے جو اسے پہچانتے تھے جبار کی طرف جاتے ہوۓ دیکھا لیکن کوئی پریشانی والی بات نہیں تھی کیونکہ اس وقت وہ روزانہ یہاں سے گزر کر جبار کی طرف جایا کرتا تھا۔ جب وہ جبار کے پاس پہنچا تو جبار پہلے سے اس کا بے صبری اور بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ 


دونوں کچھ دیر وہاں ٹھہرے اور پھر اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق اٹھ کر گھر چلے گۓ۔ گھر آکر محمود اپنی چارپائی پر لیٹ کر مقررہ وقت کا انتظار کرنے لگا۔ جب وقت قریب آیا تو وہ اٹھ کر باہر نکل آیا بڑے آرام سے اس نے دروازے کو تالا لگایا اور بہت آہستگی کے ساتھ گلی سے نکلا۔ موسم بدل چکا تھا رات کے وقت سردی کافی بڑھ گئ تھی اس لیۓ اس وقت گلیاں ویران اور سنسان پڑی تھیں۔ پورا گاؤں گہری نیند سویا تھا مگر وہ پھر بھی اردگرد دیکھ کر بڑی اختیاط سے چل رہا تھا۔ جب وہ گلیوں سے نکل کر کھلے میں آگیا تو اس نے سکھ کا سانس لیا اور اپنی رفتار تیز کردی۔ کچھ دور تک چلنے کے بعد اسے بھینسوں کا ایک باڑہ نظر آیا وہ وہیں رک گیا اور ذرا فاصلے سے ایک طرف ہٹ کر اختیاط سے چلنے لگا۔ وہ نہیں چاہتا تھا باڑے میں موجود کوئی آدمی جو ان بھینسوں کی رکھوالی پر معمور تھا اسے دیکھ لے اس لیۓ وہ آہستہ آہستہ چلنے لگا تاکہ پاؤں کی حرکت سے آواز پیدا نہ ہو۔ باڑہ عبور کرنے کے بعد اس نے اپنی رفتار دوبارہ بڑھا دی۔ وہ جتنی جلدی ممکن ہو نہر تک پہنچ جانا چاہتا تھا۔ چند قدم چل کر اسے کوئی آہٹ محسوس ہوئی وہ وہیں رک گیا اور درخت کی اوٹ لے کر آواز کی سمت کا تعین کرنے لگا۔ مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ چند لمحے انتظار کے بعد وہ آگے چل پڑا اور کچھ دیر میں نہر کے پاس پہنچ گیا۔ ابھی تک جبار اور وہ لڑکی یہاں نہیں پہنچے تھے۔ وہ ایک درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔اس نے نہر میں جھانک کر دیکھا چاند نہر میں اتر آیا تھا اور بہتے پانی پر رقصاں تھا۔ پانی کا ہلکا ہلکا شور سنسان رات کی گہری خاموشی میں سنائی دے رہا تھا۔ 


 تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد اسے دور سے دو ساۓ اپنی طرف آتے ہوۓ دکھائی دیۓ۔ پہلے تو اس نے سمجھا جبار اور وہ لڑکی ہے مگر جب ساۓ تھوڑا اور قریب آۓ تو ان کی چال سے اسے اندازہ ہوا کہ دونوں مرد ہیں۔ وہ انہیں بڑے غور سے دیکھنے لگا جب وہ اتنے قریب آگۓ جہاں سے وہ انہیں آسانی سے پہچان سکتا تھا تو وہ فوراً ایک طرف ہٹا اور درختوں کے پیچھے جاکر چھپ گیا۔ وہ دونوں آدمی تیز تیز قدم اٹھاتے ہوۓ باتیں کرتے آگے نکل گۓ۔ ان کی باتوں سے اسے بلکل بھی معلوم نہ ہوا کہ وہ دونوں کون تھے اور رات کے اس پہر کہاں جا رہے تھے۔ اسے جبار اور اس لڑکی کے بارے میں تشویش ہونے لگی۔ اسے یہ خیال آرہا تھا کہیں وہ پکڑے نہ گۓ ہوں۔ وہ انہی وسوسوں میں الجھا تھا جب اسی سمت سے جس سمت سے وہ دونوں آدمی آۓ تھے دو اور ساۓ آتے دکھائی دیۓ۔ ابھی وہ بہت دور تھے  اندھیرے میں ان کی چال سے کچھ بھی اندازہ لگانا مشکل تھا۔ مگر جب وہ اور قریب آگۓ تو اس نے جبار اور اس لڑکی کو دور ہی سے پہچان لیا۔ پاس آکر پوچھنے پر جبار نے اسے بتایا کہ راستے میں دو آدمیوں کی وجہ سے وہ ایک جگہ چھپ گۓ تھے اس لیۓ انہیں دیر ہو گئ۔ محمود نے ایک اچٹتی سی نگاہ لڑکی پر ڈالی جس نے آج بھی اس دن کی طرح اپنا چہرہ دوپٹے کے پلو سے ڈھانپ رکھا تھا۔ وہ کچھ گبھرائی ہوئی لگ رہی تھی۔ محمود نے انہیں جلدی سے چلنے کو کہا اور کہا کہ وہ دو آدمی جو ابھی یہاں سے گۓ ہیں ممکن ہے واپس بھی آئیں اس لیۓ انہیں دھیان رکھنا ہو گا۔ 


تینوں بڑی تیزی سے چلنے لگے ان کی کوشش تھی جتنی جلدی ہو سکے وہ گاؤں سے باہر نکل جائیں۔ گاؤں کے آخر میں ایک اور بھینسوں کا باڑہ تھا جب وہ اس کے قریب پہنچے تو اندر سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ محمود آگے آگے چل رہا تھا جبکہ جبار اور وہ لڑکی پیچھے تھے۔ محمود آہٹ سن کر رک گیا وہ دونوں بھی وہیں رک گۓ۔ محمود نے انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ آوازیں جب قریب ہوئیں تو وہ تینوں سڑک سے ہٹ کر جھاڑیوں میں چھپ گۓ۔ دو آدمی باتیں کرتے ہوۓ باڑے سے نکل رہے تھے۔ قدموں کی آوازوں کے ساتھ ان کی اپنی آوازیں بھی شامل ہو گئ تھیں۔ باہر آکر وہ اس جانب چل دیۓ جس جانب گاؤں تھا۔ اندھیرا اس قدر تھا کہ دونوں آدمی پہچان میں نہیں آرہے تھے ان کا چہرا بالکل دھندلا سا دکھائی دے رہا تھا۔ ان میں سے ایک آدمی نے ہاتھ میں کوئی چیز پکڑ رکھی تھی۔ شاید یہ دونوں وہی تھے جو کچھ دیر پہلے یہاں سے گزرے تھے۔ وہ آگے چلے گۓ تو ان کے جانے کے بعد وہ تینوں کچھ دیر تک وہیں ٹھہرے رہے جب انہیں تسلی ہو گئ کہ باڑے میں سے کوئی اور آدمی باہر نہیں آنے والا تو وہ جھاڑیوں سے نکل آۓ اور مختاط انداز سے چلنے لگے۔ باڑے کے سامنے سے گزر کر ابھی وہ دوسری دیوار کے پاس پہنچے تھے کہ پیچھے سے کسی کی آواز آئی۔ کسی نے بلند آواز سے پکارا 'کون اے باہر' وہ تینوں جلدی سے آگے بڑھے اور سڑک سے اتر کر باڑے کی دیوار کی اوٹ میں چھپ گۓ۔ وہ آدمی باہر نکل کر سڑک پر آیا اس کے ہاتھ میں ٹارچ تھی اس نے ٹارچ کی روشنی اردگرد پھینک کر دیکھا اور دوبارہ بلند آواز سے پکارا۔ 'کون یہاں سے گزرا ہے۔ وہاں کون ہے؟' وہ تینوں چپ چاپ اپنی جگہ پر چھپے رہے۔ لڑکی کافی گبھرا گئ تھی جبار نے اسے تسلی دی اور اشارے سے اسے کسی بھی قسم کی حرکت کرنے سے منع کیا۔ وہ آدمی آگے بڑھا اور گاؤں سے باہر جانے والے راستے کی طرف چند قدم چل کر اس نے سڑک کے دونوں جانب روشنی پھینک کر دیکھا۔ جب اسے کچھ بھی دکھائی نہ دیا تو وہ اسے اپنا وہم سمجھ کر واپس اندر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد محمود نے ان دونوں کو وہیں رہنے کو کہا اور خود آہستہ آہستہ آگے بڑھا۔ سڑک پر پہنچ کر اس نے اردگرد دیکھا کوئی نہیں تھا۔ اس نے سرگوشی کے انداز میں ان دونوں کو باہر نکل آنے کو کہا۔ 


تینوں دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہوۓ۔ وہ کافی تیز چل رہے تھے تاکہ جلد از جلد گاؤں سے دور نکل جائیں۔ کچھ دور جاکر لڑکی رک گئ اور کہا کہ وہ مزید نہیں چل سکتی۔ وہ تینوں تھوڑی دیر سستانے کے لیۓ وہیں ٹھہر گۓ۔ سڑک کے ایک جانب دو بڑے سے پتھر تھے جبار اور وہ لڑکی پتھروں پر بیٹھ گۓ۔ محمود چند قدم آگے بڑھا وہاں ایک چھوٹی سی پلیا تھی پلیا کے دونوں اطراف چھوٹی چھوٹی دیواریں تھیں محمود ایک دیوار پر جا کر بیٹھ گیا اور جیب سے سگریٹ نکال کر پینے لگا۔ دونوں جانب تاحدِ نگاہ پھیلے سر سبز کھیت تھے۔ اس چھوٹے سے پل کے نیچے کوئی ندی، نالا یا نہر نہیں بہہ رہی تھی بلکہ اس کے نیچے نکاسئ آب کے لیۓ چھوٹا سا راستہ بنایا گیا تھا جس کا مقصد سڑک کے دونوں جانب والے کھیتوں کو سیراب کرنا تھا۔ محمود نے اک نظر جبار اور اس لڑکی کی طرف دیکھا جو اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھے ہوۓ تھے پھر سامنے کھیتوں کی طرف دیکھنے لگا۔ چاند بادلوں کی اوٹ سے نمودار ہوا اور اردگرد کا سارا علاقہ جگمگا اٹھا۔ ہرے بھرے کھیت سنہری چاندنی میں چمکنے لگے۔ ان کے اوپر جگنو جلتے بجھتے اڑتے پھر رہے تھے۔ چاولوں کی فصل کی مخصوص خوشبو ہر سو پھیلی تھی۔ 

   


محمود نے سگریٹ کا آخری کش لگا کر سگریٹ پھینکا اور جبار کو چلنے کے لیۓ کہا وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوۓ۔ اس بار وہ زیادہ تیز نہیں چل رہے تھے وہ گاؤں سے کافی دور آچکے تھے اور یہ سارا علاقہ سنسان اور ویران تھا کہیں کوئی ایک مکان تک نہیں تھا۔ اس لیۓ وہ کافی حد تک محفوظ تھے۔ لیکن وہ اچھی طرح جانتے تھے جب تک وہ لاری میں بیٹھ کر نکل نہیں جاتے تب تک خطرہ ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا۔ اس لیۓ ان کی رفتار اس قدر دھیمی بھی نہیں تھی۔


راستے میں ایک بار پھر وہ ایک دو منٹ کے لیۓ ٹھہرے اور سانس بحال کرکے دوبارہ چل پڑے۔ بالآخر وہ بڑی سڑک پر پہنچ گۓ جہاں گاڑیاں آکر رکتی تھیں۔ اب انہیں گاڑی کا انتظار تھا۔ ان کا دھیان گاؤں کی طرف سے آنے والے راستے پر بھی تھا کیونکہ کسی بھی وقت لوگ یہاں پہنچ سکتے تھے۔ وہ سڑک کے کنارے اس جگہ کھڑے تھے جہاں اندھیرا تھا اور دور سے صاف دکھائی نہیں دیتا تھا۔ آس پاس اور کوئی بھی نہیں تھا۔ کبھی کبھار سڑک پر وقفے وقفے سے کوئی گاڑی گزر جاتی تھی۔ تقریباً پندرہ بیس منٹ کے بعد گاڑی آگئ۔ محمود نے جلدی سے انہیں گاڑی میں بٹھایا اور روانہ کردیا۔ 


ان کے جانے کے بعد وہ پلٹا اور واپس گاؤں کی طرف چل دیا۔ ایک مرحلہ سر ہو چکا تھا مگر ایک مرحلہ ابھی باقی تھا۔ ابھی اسے اپنے گھر پہنچنا تھا۔ اگر جبار اور اس لڑکی کے گھر والوں یا گاؤں میں سے کوئی بھی آدمی اسے اس وقت دیکھ لے تو وہ سب یقیناً یہی سمجھیں گے کہ جبار اور لڑکی کو بھگانے میں اس نے ان کی مدد کی ہے۔ اس لیۓ وہ تیز تیز چلنے لگا تاکہ گاؤں والوں کو ان کا پتہ چلنے سے پہلے وہ گھر پہنچ جاۓ۔ اس نے سارا راستہ بڑی جلدی اور آرام سے طے کر لیا لیکن گاؤں میں داخل ہونے کے بعد وہ بڑی اختیاط سے چلنے لگا۔ نہر پار کرنے کے بعد وہ بہت آہستگی سے چاروں طرف دیکھ کر چل رہا تھا۔ جب وہ آبادی کے قریب آیا تو وہاں مکمل طور پر سکوت تھا اس کا مطلب تھا گاؤں والوں کو ابھی تک ان کی خبر نہیں ہوئی تھی۔ وہ کسی پریشانی کے بغیر اپنے گھر پہنچ گیا۔ 


 بستر پر لیٹ کر وہ تھوڑی دیر پہلے کی ساری واردات پر غور کرنے لگا۔ شروع سے لے کر آخر تک تمام مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگے۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی اور وہ بہت تھک چکا تھا اسے لیٹے لیٹے اسے نیند آگئ۔ صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو چند لمحوں تک اسے بالکل ہوش نہ تھا کہ وہ کہاں ہے۔ آہستہ آہستہ جب وہ مکمل طور پر جاگ گیا تو اس نے وقت دیکھا دن کافی نکل آیا تھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ آج ہسپتال سے چھٹی تھی اس لیۓ اسے دیر ہو جانے کی فکر نہیں تھی۔ وہ دوبارہ لیٹ گیا۔ ابھی وہ لیٹا ہی تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی وہ پہلے تو خیران ہوا اس وقت اسے یہاں کون ملنے آیا ہے پھر اسے رات کے واقعہ کا خیال آیا اس نے سوچا یقیناً جبار لوگوں کے گھر میں سے کوئی ہو گا۔ وہ جانتا تھا صبح جب جبار اور وہ لڑکی غائب ملیں گے تو اس سے ضرور کوئی نہ کوئی پوچھنے آۓ گا۔ دستک دوبارہ ہوئی تو وہ جلدی سے اٹھا اور دروازہ کھول دیا۔ باہر دو لڑکے تھے ان میں سے ایک جبار کا چھوٹا بھائی تھا محمود اسے پہچانتا تھا۔ محمود نے جب اسے دیکھا تو پوچھا 'تم اس وقت یہاں! خیر ہے؟'


وہ محمود پائی رات سے پائی جبار نہیں مل رہا پتہ نہیں کہاں گیا ہے آپ کو تو بتا کر نہیں گیا؟'


نہیں مل رہا؟' محمود خیرت سے بولا۔  مجھے تو اس نے کچھ نہیں بتایا شام کو میں اس کے پاس کتنی دیر بیٹھ کر آیا ہوں۔ بلکہ احاطے سے ہم دونوں اکٹھے نکلے تھے۔'


جی اس کے بعد وہ گھر تو آیا تھا پر رات کو جب سب سو رہے تھے تو کہیں نکل گیا۔' لڑکا بولا۔ 


کہاں جا سکتا ہے یہیں ہو گا۔ نہر کی طرف جا کر دیکھا ہے؟'


ہر جگہ دیکھ لیا پورے پنڈ میں کہیں نہیں ملا۔' 


یہ کیسے ہو سکتا ہے عجیب بات ہے۔' محمود کچھ سوچنے لگا۔ 


آپ کو ابا نے بولایا ہے انہوں نے جلدی آکر ملنے کو کہا ہے۔' لڑکا بولا۔ 


اچھا ٹھیک ہے تم لوگ جاؤ میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں '۔ 


لڑکے چلے گۓ تو محمود نے دروازہ بند کیا اور دوبارہ چارپائی پر آکر لیٹ گیا۔ اسے معلوم تھا اس سے پوچھ داچھ ضرور ہوگی اس لیۓ وہ پہلے سے تیار تھا۔ تھوڑی دیر لیٹنے کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا اور نہا دھو کر تیار ہو گیا۔ 


جب وہ جبار لوگوں کی گلی میں داخل ہوا تو گلی میں کافی لوگ کھڑے تھے۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ لوگ اس وقت یہاں کیوں کھڑے تھے۔ وہ خاموشی سے چلتا ہوا جبار لوگوں کے گھر کے پاس پہنچا تو اسے جبار کا چھوٹا بھائی جو ابھی کچھ دیر پہلے اس سے مل کر گیا تھا اسے باہر گلی میں مل گیا۔ وہ اسے دیکھ کر بولا۔ 'ابو آپ کا ہی اتنظار کر رہے تھے۔' وہ اسے اندر بیٹھک میں لے گیا۔ وہاں پہلے سے دو تین بڑی عمر کے آدمی جبار کے والد کے ساتھ بیٹھے تھے۔ سلام دعا کے بعد جبار کے والد نے اس سے  سرگوشی کے انداز میں پوچھا۔ 'سچ سچ بتاؤ تمہیں کچھ بھی نہیں پتہ جبار کہاں گیا ہے؟'


نہیں مجھے تو اس نے بالکل کچھ بھی نہیں بتایا میں تو خود خیران ہوں ابھی رات کو ہم اکٹھے احاطے سے نکلے تھے اس کے بعد ہم دونوں اپنے اپنے گھر چلے گۓ۔' محمود نے جواب دیا۔


اس نے تمہیں کسی لڑکی کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا؟' اس نے دوبارہ ایک سوال کیا۔


لڑکی؟ محمود خیرت سے بولا۔ 'کون لڑکی؟'


وہ گاؤں کی ایک لڑکی کو لے بھاگا ہے۔' جبار کے والد نے کہا۔ 'وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن ہم میں سے کوئی راضی نہیں تھا۔ مجھے لگتا ہے وہ دونوں ساتھ میں بھاگیں ہیں کیونکہ وہ لڑکی بھی غائب ہے۔' 


 ایک لڑکی کا ذکر اس نے کیا تو تھا جس سے وہ شادی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن۔۔۔' محمود کچھ سوچ کر بولا۔ 'بھاگنے کے بارے میں اس نے کچھ نہیں بتایا۔'



جبار کے والد نے اس سے چند مزید سوال کیۓ پھر خاموش ہو گۓ۔ محمود کچھ دیر تک ان کے پاس بیٹھا رہا پھر اٹھ کر چلا آیا۔ اگلے دن پولیس کو بھی اطلاع کر دی گئ۔ پولیس نے گاؤں میں تفتیش شروع کی تو جس جس سے بھی جبار کا تعلق تھا سب کو بلا لیا۔ محمود کو بھی بلا بھیجا۔ وہ ان سے ملنے جبار کے گھر گیا انسپیکٹر اور اس کے دو ساتھی جبار لوگوں کی گلی کے باہر ایک چھوٹے سے میدان میں کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے دو چارپائیوں پر جبار کا والد اس کے رشتے دار اور گاؤں کے دوسرے بزرگ بیٹھے تھے۔ ان میں لڑکی کا والد اور رشتے دار بھی تھے۔ چند لوگ ان کے پیچھے نیم دائرے کی شکل میں کھڑے تھے۔ جبار جب وہاں پہنچا تو انسپیکٹر اور اس کے ساتھیوں نے اسے ایسے دیکھا جیسے وہ پہلے سے جانتے ہوں کہ مجرم یہی ہے اور یہ کہ جیسے وارادات کے وقت وہ وہاں موجود تھے۔ انہوں نے محمود سے چند سوالات کیۓ جس کا جواب اس نے بڑے اطمینان سے دیا۔ پولیس والے کچھ دیگر لوگوں سے پوچھ داچھ کرنے کے بعد چلے گۓ۔ محمود بھی تھوڑی دیر جبار کے والد کے پاس بیٹھا پھر واپس چلا آیا۔ 


اگلے کئ دنوں تک گاؤں بھر میں جبار اور اس لڑکی کے بارے میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔ شیفے کے ہوٹل میں، میدانوں میں چوپالوں میں ہر جگہ یہی باتیں تھیں۔ بزرگ انہیں لعن طعن کرنے اور توبہ استغفار کرنے میں مشغول رہے جبکہ جوان لڑکے لڑکیوں کے لیۓ وہ ایک مزاح اور شغل میلے کا موضوع بن گیا تھا۔ وہ جہاں بھی اکٹھے ہوتے اسے ہنسی مذاق کے طور پر لیتے تھے۔ چند جوان اپنے دوستوں کو جو خود بھی کسی نہ کسی سے شادی کا ارادہ رکھتے تھے انہیں کبھی مذاق کے طور پر اور کبھی سنجیدگی سے  اسی قسم کی حرکت کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔ ہسپتال میں محمود کے ساتھی بھی اکثر اس موضوع پر بات کرتے محمود کبھی جواب دیتا مگر زیادہ تر خاموشی سے سنتا رہتا اور مسکراتا رہتا تھا۔ کچھ لوگوں کو اس پر شک تھا وہ سمجھتے تھے ہو نہ ہو محمود نے جبار اور اس لڑکی کی بھاگنے میں مدد کی ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ محمود اس موضوع پر بات کرنے سے کتراتا ہے تو وہ اور بھی زیادہ شک کرنے لگے۔ اس لیۓ محمود نے اس موضوع پر تھوڑا بہت حصہ لینا شروع کر دیا تھا اور یہ ظاہر کرنے لگا تھا کہ وہ بھی دوسروں کی طرح اس بات میں دلچسپی رکھتا ہے۔ کچھ عرصہ تک گاؤں بھر میں یہ موضوع گرم رہا پھر رفتہ رفتہ لوگ انہیں بھولنے لگے اور زندگی دوبارہ پرانی ڈگر پر چل پڑی۔ اس دوران پولیس، جبار اور لڑکی کے گھر والوں کی تلاش جاری رہی مگر وہ کہیں نہ ملے۔ البتہ ایک دن ان کی طرف سے ان کے گھر والوں کو پیغام پہنچ گیا کہ دونوں نے شادی کر لی ہے اور بالکل خیریت سے ہیں۔ 



جبار کے جانے کے بعد محمود کے معمول میں دوبارہ تبدیلی آگئ تھی۔ پہلے وہ شیفے کے ہوٹل سے رات کا کھانا کھا کر جبار کے پاس چلا جایا کرتا تھا اور گھنٹوں اس کے پاس بیٹھا رہتا تھا مگر اب وہ کھانے کے بعد وہیں ٹھہرا رہتا اور ہوٹل بند ہونے کے بعد اپنے کمرے میں لوٹتا تھا۔ کئ ہفتوں تک اس کا یہی معمول رہا لیکن پچھلے دو تین دنوں سے اس میں ایک عجیب سی تبدیلی آئی تھی۔ شیفے کا ہوٹل بند ہونے کے بعد وہ گھر جانے کی بجاۓ یونہی بے مقصد گاؤں میں گھومتا رہتا تھا۔ سردیاں اپنے جوبن پر تھیں لوگ شام ہوتے ہی گھروں میں دبک جاتے تھے۔ شیفے کے ہوٹل میں رات کے وقت پہلے جیسا رش نہیں رہا تھا اس لیۓ وہ ہوٹل جلد بند کر دیتا تھا۔ عشاء کی نماز کے بعد گاؤں کی گلیاں سنسان ہو جاتی تھیں۔ کسی آدمی کا سایہ تک دکھائی نہیں دیتا تھا ایسے میں محمود شیفے کے ہوٹل سے نکل کر جس طرف چاہتا تھا چل پڑتا تھا۔ کبھی وہ گھومتا پھرتا نہر کی طرف جا نکلتا اور کبھی میدان کا رخ کرتا جہاں دن کے وقت بچے کھیلا کرتے تھے۔ اس وقت وہ مٹر گشت کرتا ہوا مسجد کی طرف جا نکلا۔ مسجد ویران اور سنسان پڑی تھی۔ وہ اس کے سامنے سے گزر کر دوسری طرف چل پڑا جہاں ایک کچا راستہ تھا جس کے دونوں جانب وسیع کھیت تھے۔ یہ راستہ کہیں بھی نہیں جاتا تھا۔ البتہ تھوڑی دور جا کر جہاں یہ راستہ ختم ہوتا تھا وہاں ایک طرف کھیتوں کے بیچ ایک تنگ سی پگڈنڈی تھی جو آگے جا کر پکی سڑک سے جا ملتی تھی۔ یہ راستہ کسی کے استعمال میں نہیں تھا سواۓ ان چند لوگوں کے جو صبح کی نماز کے بعد سیر کو جایا کرتے تھے۔ وہ مسجد سے نکل کر اس کچے راستے کا رخ کرتے تھے اور جہاں یہ راستہ ختم ہوتا اور پگڈنڈی شروع ہوتی تھی وہاں سے واپس ہو لیتے تھے۔


محمود اس کچے راستے پر چلنے لگا۔ وہ وہاں تک پہنچا جہاں یہ راستہ ختم ہوتا تھا۔ وہاں کھڑے ہو کر چاند کی روشنی میں وہ پگڈنڈی کو دیکھنے لگا جو آگے جا کر پکی سڑک سے جا ملتی تھی۔ یہ پگڈنڈی اس قدر تنگ تھی اور اس پر سرکنڈے اگے ہوۓ تھے اس لیۓ اس پر چلنا انتہائی دشوار تھا۔ کچھ دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد وہ واپس پلٹ آیا۔


اگلی شب وہ شیفے کا ہوٹل بند ہونے کے بعد وہاں سے نکلا اور سیدھا اس کچے راستے کی طرف چل پڑا۔ آج بھی وہ راستے کے اختتام تک گیا اور وہاں کھڑے ہو کر تنگ و تاریک پگڈنڈی کو دیر تک دیکھتا رہا۔ پھر واپس پلٹ آیا۔ اگلے دن بھی اس نے ایسا ہی کیا۔ رات کے وقت جب سارا گاؤں سو رہا تھا وہ ٹھٹھرتی سردی میں ہوٹل سے نکلا اور اس راستے پر پہنچ گیا جو آگے کہیں بھی نہیں جاتا تھا اور جس کے اختتام پر ایک تنگ سی پگڈنڈی تھی۔ وہ کھڑے ہو کر پگڈنڈی کو دور تک دیکھتا رہا جہاں تک اس کی نگاہ جاتی تھی۔ پگڈنڈی کے اردگرد میلوں تک پھیلے سرسبز کھیتوں میں سے جھینگروں، گھاس کے ٹڈوں، مینڈکوں اور دوسرے کیڑے مکوڑوں کی آوازیں آرہیں تھیں۔ ٹھنڈی تیز ہوا کے جھونکے اس کے جسم سے ٹکرا رہے تھے۔ اس نے اپنی سردی میں بھیگتی جیکٹ اور پتلون کو درست کیا، گہرا سانس لیا اور دشوار گزار پگڈی پر اتر گیا۔     


     




 










 






 




 








 


 


 




    







 






 




 


Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post