کردار
ثانیہ= نوجوان ماڈرن لڑکی
طلحہ= نوجوان ماڈرن لڑکا
ساحر= بظاہر عجیب و غریب لیکن اندر سے بالکل سیدھا۔ طلحہ کا دوست اور روم میٹ۔
سائرہ= ایک نوجوان خود مختار لڑکی
شاداب= طلحہ اور ساحر کا دوست
ڈاکٹر امجد فاروق= ثانیہ کا والد (پی ایچ ڈی سکالر ان فزکس)
شعیب انصاری= ڈاکٹر امجد کا دوست
مس سعدیہ ظفر= یونیورسٹی پروفیسر
شکیل= طلحہ اور ساحر کا دوست، شاداب کا روم میٹ
چند دوسرے کردار۔
پہلا منظر
دن کا وقت۔ مقبرۂ جہانگیر۔
ثانیہ مقبرے کے باغ میں ٹہل رہی ہے وہ باغ کی پگڈنڈی پر یوں چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جیسے کسی کا انتظار کر رہی ہو۔ مقبرے میں اس وقت رش کم ہے لیکن کہیں کہیں درختوں کے نیچے گھاس کے قطعے پر اور بنچوں پر چند ایک نوجوان جوڑے بیٹھے ہوۓ دکھائی دیتے ہیں۔ مقبرے کی عمارت کے اوپر چاروں مینار دور سے دھوپ میں چمکتے ہوۓ نظر آرہے ہیں۔ چند لمحوں بعد ایک طرف سے طلحہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا چلا آتا ہے۔
طلحہ: (قریب پہنچ کر) ہاۓ
ثانیہ: آگۓ۔۔۔کتنی دیر لگادی تم نے کہاں رہ گۓ تھے؟
طلحہ: کہاں رہ سکتا ہوں ۔۔۔ فون پر بتایا تو تھا ٹریفک میں پھنس گیا ہوں۔ مقبرۂ جہانگیر دیکھنے کا شوق تمہیں ہی تھا جو اتنی دور آکر ملاقات کرنے کے لیۓ کہا۔ ورنہ تو شہر میں اور بھی اچھی جگہیں ہیں۔
ثانیہ: یہ بھی تو اچھی جگہ ہے۔ تمہیں پتہ ہے مجھے بادشاہوں کے مقبرے اور پرانے قلعے دیکھنے کا کتنا شوق ہے گزرے ہوۓ زمانوں کی ایسی جھلک تاریخ کی کتابوں میں کہاں دکھائی دیتی ہے وہاں تو آپ کو صرف معلومات ملتی ہیں جبکہ تاریخ کا درست احساس اور صحیح ادراک تو یہاں آکر پیدا ہوتا ہے۔
طلحہ: ہاں جی بڑا احساس پیدا ہو رہا ہے (ہاتھ جوڑ کر) اے میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے۔۔۔
ثانیہ: کیوں یہاں ملنے میں کیا برائی ہے؟
طلحہ: اس میں اچھائی کیا ہے۔ بھلا مقبروں پر بھی کوئی ملاقات رکھتا ہے۔
ثانیہ: اوروں کا تو پتہ نہیں مجھے تو یہ اچھے لگتے ہیں۔
طلحہ: توبہ ہے۔۔۔ (ایک طرف ہٹ کر سامنے مقبرے کو دیکھنے لگتا ہے)
ثانیہ: یہاں سے کیا دیکھ رہے ہو چلو اندر چل کر دیکھتے ہیں۔
طلحہ: چلیں جی اب آگۓ ہیں تو دیکھ بھی لیتے ہیں۔ (چلتے چلتے شعر پڑھتا ہے) مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا
(دونوں مقبرے کی عمارت میں داخل ہوتے ہیں)
طلحہ: (اردگرد کا جائزہ لے کر) واہ جی واہ کیا کہنے۔۔۔(پھر سے شعر پڑھتا ہے)
یہ منقّش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
ثانیہ: جی ہاں ایک آپ غریب ہیں اور ایک آپ کی محبت۔
طلحہ: نہیں بالکل نہیں۔۔۔ہم غریب ہو سکتے ہیں مگر ہماری محبت بالکل بھی غریب نہیں یہ تو مالا مال ہے اگر یقین نہ آۓ تو ہمارے دل سے پوچھ لو۔
ثانیہ: آپ کا دل تو جیسے بہت سچا ہے۔
طلحہ: سچا تو ہے۔ اگر یقین نہیں تو بتاؤ اس کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیۓ مجھے کیا کرنا ہو گا۔ کہو تو ابھی مینار کے اوپر چڑھ کر چھلانگ لگا دوں؟
ثانیہ: جناب فی الحال آپ خاموش رہیں تو کافی ہے۔
طلحہ: خاموش!۔۔۔یہ کام تھوڑا مشکل ہے۔
ثانیہ: جانتی ہوں۔
(ثانیہ آگے آگے چلنے لگتی ہے۔ طلحہ بھاگ کر اس کے ساتھ جا ملتا ہے)
طلحہ: چلو شکر ہے کچھ تو تم میرے بارے میں جانتی ہو۔
ثانیہ: کچھ نہیں میں بہت کچھ جانتی ہوں۔
طلحہ: مثلاً کیا؟
ثانیہ: بتاؤں گی لیکن ابھی نہیں کسی دن تفصیل سے بتاؤں گی۔ پہلے تم بتاؤ تمہیں آج کل ساحر لدھیانوی بڑا یاد آرہا ہے میں نے فیس بک پر بھی دیکھا ہے آج کل ساحر کی شاعری کی بڑی پوسٹیں لگا رہے ہو۔
طلحہ: نہیں وہ تو بس ایسے ہی۔۔۔ اصل میں میرا روم میٹ ہے وہ ساحر کی شاعری کا بڑا دیوانہ ہے وہ تقریباً ہر وقت ساحر کی شاعری پڑھتا رہتا ہے یا اس کے لکھے ہوۓ گیت سنتا رہتا ہے۔ اس نے اپنا نام بھی بدل کر ساحر رکھ لیا ہے۔ بس اس کی وجہ سے مجھے بھی تھوڑا چسکا پڑ گیا ہے اس لیۓ میں کبھی کبھی فیس بک پر پوسٹیں لگا دیتا ہوں۔ تم یقین نہیں کرو گی وہ ایک عجیب و غریب قسم کا کریکٹر ہے خلیے سے بلکل آج کل کے فیشن ایبل لڑکوں کی طرح ہے۔ بڑے بڑے بال ہیں جن پر کلپ یا ہیئر بینڈ لگائی رکھتا ہے۔ چہرے پر فیشن ایبل داڑھی ہے اور کبھی کبھی لوفروں کی طرح کانوں میں بالی اور گلے میں چین ڈال لیتا ہے۔ لیکن اس کے پاس آج کے دور میں بھی ایک پرانا ریڈیو ہے جس میں وہ پرانے زمانے کے گانے سنتا رہتا ہے اور سگریٹ ایسے انداز میں پیتا ہے جیسے کوئی پرانی فلموں کا غنڈا سگریٹ پی رہا ہو۔
ثانیہ: سیدھی طرح کہو کھسکا ہوا ہے۔
طلحہ: ہاں کہہ سکتی ہو کسی حد تک کھسکا ہوا تو ہے۔ لیکن دل کا بہت اچھا ہے۔
(دونوں کچھ دیر تک عمارت کے اندر گھومتے رہتے ہیں)
دوسرا منظر
دن کا وقت۔ طلحہ اور ساحر کا کمرا یا اپارٹمنٹ
کمرے میں چیزیں ادھر ادھر بے ترتیبی سے بکھری پڑی ہیں۔ ساحر بستر پر یوں لیٹا ہے کہ ٹانگیں اس کی اوپر دیوار پر ہیں اور دوسری طرف سر بستر سے نیچے لٹک رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں سگریٹ ہے جسے وہ بڑے مزے لے کر پی رہا ہے۔ پاس ہی ایک ریڈیو پڑا ہے جس پر یہ گانا بج رہا ہے۔
تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدی سے مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پراۓ ہیں
میرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے ساۓ ہیں
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
گانا کچھ دیر تک بجتا ہے پھر طلحہ اندر داخل ہوتا ہے۔
طلحہ: کیا ہو رہا ہے شاعر؟۔۔۔پر تم سے کیا پوچھنا کیا ہو رہا یقیناً ساحر کے گانے سن رہے ہو گے۔
(ساحر اس کی طرف بالکل بھی دھیان نہیں کرتا اور اسی انداز میں لیٹا سگریٹ پیتا رہتا ہے۔ طلحہ آگے بڑھتا ہے اور ریڈیو بند کر دیتا ہے۔ ساحر جلدی سے اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے)
ساحر: کیا ہے ریڈیو کیوں بند کیا؟
طلحہ: وہ اس لیۓ کہ اس کو بند کیۓ بغیر تمہاری موجودگی کا احساس نہیں ہوتا۔ مجھے لگنا تھا تم کمرے میں نہیں ہو اور میں دیواروں سے باتیں کر رہا ہوں۔
ساحر: تم نے میری موجودگی کے احساس کو کیا کرنا ہے۔ تم یہی سمجھو میں نہیں ہوں۔ اور ویسے بھی میں پل دو پل کا شاعر ہوں پل دو پل میری کہانی ہے۔
طلحہ: پل دو پل کے شاعر صاحب کچھ کھانے کا بھی بندوبست کیا ہے یا آپ کی ہر پل کی بکواس سے ہی پیٹ بھرنا ہے۔(میز پر پیزے کا ڈبہ اور دوسری کھانے کی چیزیں دیکھ کر) لگتا تو ہے کہ تم نے کچھ منگوایا ہے۔
ساحر: ہاں پیزا منگوایا تھا تمہارا حصہ بھی رکھا تھا مگر بہت انتظار کرنے پر بھی جب تم نہیں آۓ تو میں نے وہ بھی کھا دیا۔
طلحہ: (رک کر اس کی طرف دیکھتا ہے) قربان جاؤں تمہارے انتظار کے وہ انتظار بھی تمہارا بس پل دو پل کا ہی ہو گا۔۔۔اور یہ کیا یار! کتنا گند مچایا ہوا ہے کم سے کم کھانا تو سلیقے سے کھانا چاہیۓ۔
ساحر: میری جان بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی۔
طلحہ: یار یہ تم ہر بات میں ساحر کی شاعری کو بیچ میں مت لے آیا کرو۔
(شاداب کمرے میں داخل ہوتا ہے)
شاداب: شکر کرو یہ صرف ساحر کی شاعری کو بیچ میں لاتا ہے اپنی شاعری کو نہیں لے آتا۔
طلحہ: اپنا شعر کبھی کہا ہو تو لاۓ۔
شاداب: کیوں جونیئر ساحر صاحب! تخلص تو شاعر کا کاپی کر لیا لیکن کبھی اپنا شعر بھی کہا ہے کہ نہیں؟
ساحر: ایک دو بار کوشش کی تھی لیکن بات پہلے مصرعے سے آگے بڑھی نہیں۔
طلحہ: یہ بھی قدرت کا ایک احسان تھا۔
ساحر: کس پر؟
طلحہ: شاعری پر۔۔۔اگر بات دوسرے مصرعے تک پہنچ جاتی تو اردو شاعری پر کتنا بڑا ظلم ہوتا۔
شاداب: وہ مصرعہ تھا کیا ویسے کچھ یاد ہے؟
ساحر: ہاں یاد تو ہے۔
شاداب: سناؤ ذرا!
ساحر: وہ تھا۔۔۔ہر اک خیال تیرا ہمیں ناشاد کرتا رہا۔۔۔
شاداب: کیا کیا۔۔۔کیا کہا دوبارہ کہو۔
ساحر: ہر اک خیال تیرا ہمیں ناشاد کرتا رہا۔۔۔
شاداب: یار ساحر دوسرا مصرعہ ادھر بڑی آسانی سے آسکتا تھا۔
ساحر: وہ کیا؟
شاداب: وہ یوں کہ
ہر اک خیال تیرا ہمیں ناشاد کرتا رہا
اے عشق کب سے تو ہمیں برباد کرتا رہا
ساحر: واہ واہ واہ واہ کیا کہہ دیا۔۔۔کیا کہہ دیا یار (اٹھ کر اس کو گلے لگا لیتا ہے) کیا شعر مکمل کیا ہے۔ ہر اک خیال تیرا۔۔۔(پورا شعر دوبارہ پڑھتا ہے) کیا کہنے۔۔۔ کوئی تین برس پہلے میں نے یہ مصرعہ کہا تھا تم نے آج دوسرا مصرعہ کہہ کر شعر مکمل کر دیا۔
طلحہ: چلو کوئی نہیں دونوں مل کر کوشش کرو تین برس میں ایک شعر مکمل ہوا ہے تو اگلے آٹھ دس برس تک پوری غزل ہو ہی جاۓ گی۔ پھر لوگ کہا کریں گے ایک غزل دو شاعر۔
ساحر: چھوڑو اس کو یہ تو جلتا ہے تم نے کمال کر دیا کیا مصرعہ کہا ہے۔
طلحہ: جی ہاں میں تو جلتا ہوں لیکن تم لوگ ذرا احتیاط کرنا اگر یہ بات باہر نکل گئ اور لوگوں کو پتہ چل گیا کہ تم لوگوں نے ایک شعر کہا ہے تو ہنگامہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کچھ لوگ پتھر اٹھا لیں۔
طلحہ: لوگوں کا تو پتہ نہیں لیکن اگر تم نے اپنی بکواس بند نہ کی تو ہم دونوں چپل ضرور اٹھا لیں گے۔
ساحر: چھوڑ اسے۔۔۔وہ کیا کہتے ہیں ایسے جہلا کے منہ نہیں لگتے۔
طلحہ: آۓ ہاۓ میرے دو عالم فاضل دوست۔۔۔(ساحر کے دونوں گال پکڑ کر پیار سے کھینچتا ہے۔ اور اس کے ہاتھ سے سگریٹ چھین کر خود پینے لگتا ہے)
ساحر: (اکتاہٹ سے) یار یہ تمہاری بڑی بری حرکت ہے ایک تو تو میرے گال مت کھینچا کرو اور دوسرا میرے ہاتھ سے سگریٹ مت چھینا کرو جب بھی میں سگریٹ پینے لگتا ہوں آدھا سگریٹ مجھ سے چھین لیتے ہو۔
طلحہ: تو کوئی بات نہیں تمہیں اعتراض ہے تو آئندہ میں آدھا سگریٹ نہیں چھینوں گا۔۔۔پورا چھینوں گا۔
شاداب: چھوڑو یار! کچھ کھانے کو منگواؤ بڑی بھوک لگی ہے۔ شکیل اپنے گھر گیا ہوا ہے اور میرا اکیلے کھانا کھانے کو بالکل موڈ نہیں کر رہا۔
ساحر: تم دونوں اپنے لیۓ منگوا لو میں کھا چکا ہوں۔ (اٹھ کر دوبارہ سگریٹ سلگا لیتا ہے)
طلحہ: پکی بات ہے تم نے کچھ نہیں کھانا ہم اپنے لیۓ منگوا لیں؟
ساحر: (مسکرا کر) نہیں تھوڑا بہت ٹیسٹ تو کروں گا۔
طلحہ: دیکھا مجھے پتہ تھا۔
شاداب: (اٹھ کر جاتے ہوۓ) منگوا لے یار اس کے لیۓ بھی پہلے یہ اسی طرح کہتا ہے بعد میں ہمارے حصے کا بھی کھا جاتا ہے۔
طلحہ: تم تو بیٹھو کہاں جارہے ہو؟
شاداب: ہمارا کمرے کا کرایہ دینے والا رہتا ہے میں وہ دے کر آیا۔ (کمرے سے نکل جاتا ہے)
طلحہ: (پیچھے سے آواز دے کر) منگواؤں کیا کچھ بتا کر تو جاؤ۔
شاداب: (باہر سے) کچھ بھی منگوا لو میں کھا لوں گا۔
ساحر: (بلند آواز سے) زہر منگوا لیں؟
(طلحہ اس کی طرف دیکھ کر ہنستا ہے)
تیسرا منظر
دن کا وقت۔ ثانیہ کا گھر۔
کمرے میں ڈاکٹر امجد، اس کا دوست انصاری اور پروفیسر سعدیہ بیٹھے ہیں۔ تینوں ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو کر رہے ہیں۔
فاروق: جی پروفیسر صاحبہ! میں کہہ رہا ہوں
matter can not be destroyed but it change its form
۔۔۔ یعنی زندگی جب عدم سے وجود میں آجاتی ہے تو وہ دوبارہ عدم میں نہیں چلی جاتی بلکہ وہ صرف اپنی حالت بدلتی ہے، وہ اپنی ہیئت تبدیل کرکے کسی اور فارم میں ڈھل جاتی ہے۔ زندگی کو کسی صورت فنا نہیں بس وہ نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ اسی بات کو شاعر نے کتنی عمدگی سے بیان کیا ہے۔
غافل موت کو سمجھے ہیں اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی
پروفیسر: کیا بات ہے فاروق صاحب آپ سائنسدان ہیں مگر سائنس کے ساتھ آپ نے جو شاعری کا تڑکا لگایا ہے کمال ہے۔
فاروق: آپ کا شکریہ پروفیسر صاحبہ۔ میں تو سمجھتا ہوں شاعر اور سائنسدان ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں۔ شاعر پر بھی خیالات اترتے ہیں، آمد ہوتی ہے اور سائنسدان پر بھی۔
انصاری: اس بات کو چھوڑیۓ فاروق صاحب آپ نے پروفیسر صاحبہ کو بیرون ملک ملازمت ملنے پر مبارک باد نہیں دی؟
فاروق: ارے ہاں وہ تو میں بھول ہی گیا تھا۔ مبارک ہو آپ کو اب تو آپ ہماری طرح پردیسی ہو جائیں گی۔
پروفسر: جی فاروق صاحب بس اللہ کا کرم ہے۔ موقع مل رہا تھا تو میں نے کہا اس سے فائدہ اٹھا لینا چاہیۓ۔ آپ بتائیں آپ ابھی وہیں ملازمت کر رہیں ہیں یا پاکستان ہمیشہ کے لیۓ چلے آۓ ہیں؟
فاروق: نہیں جی ابھی تو چھٹی آیا ہوں۔ یہاں آکر میں کیا کروں گا میں تو ثانیہ سے بھی کہتا ہوں وہ وہاں چلی آۓ اور میرے ساتھ رہے مگر وہ بضد ہے کہ یہیں رہے گی۔ اصل میں اس کے چچا زاد، ماموں زاد سب یہیں ہے تو اس کا یہاں دل لگا ہوا ہے۔ کہتی ہے ڈگری مکمل کرنے کے بعد سوچوں گی۔
پروفیسر: چلیں یہ تو اچھی بات ہے۔ ڈگری مکمل کرکے بے شک چلی جاۓ درمیان میں چھوڑنا کوئی دانش مندی نہیں۔ لیکن وہ ہے کہاں میں اسی سے ملنے آئی تھی کہہ رہی تھی میم آپ نے مجھے جانے سے پہلے ضرور ایک بار مل کے جانا ہے۔
فاروق: فون تو کر دیا ہے بس آتی ہوگی۔
(ثانیہ اندر آتی ہے)
ثانیہ: میں آگئ۔
فاروق: لیں وہ آگئی۔
(پروفیسر سے گلے ملتی ہے)
پروفیسر: تم نے اتنی دیر لگا دی میں تو جانے والی تھی۔
ثانیہ: اگر آپ مجھے آنے سے پہلے فون کر دیتیں تو میں کہیں جاتی ہی نہیں۔
فاروق: (اٹھتے ہوۓ) چلیں انصاری صاحب ہم چلتے ہیں ان کی شاگردہ آگئی ہیں تو ہمارا اب یہاں کیا کام۔
ثانیہ: کیوں آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟
انصاری: بیٹا ہمیں ذرا کام ہے ہم نکلنے والے تھے کہ پروفیسر صاحبہ آگئیں۔ اب آپ آگئی ہیں تو آپ لوگ بیٹھیۓ ہم چلتے ہیں۔ ٹھیک ہے پروفیسر صاحبہ ہم چلتے ہیں۔
(چلے جاتے ہیں)
پروفیسر: لگتا ہے تمہارے ابو اور انصاری صاحب کی بڑی گہری دوستی ہے جہاں دیکھو اکٹھے ملتے ہیں۔
ثانیہ: جی میم آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ ابو تو لگتا ہے پاکستان آتے ہی انصاری صاحب کے لیۓ ہیں۔ ہر وقت یا تو وہ ہمارے گھر پاۓ جاتے ہیں یا یہ ان کے گھر۔ دونوں باہر بھی ساتھ ساتھ جاتے ہیں۔ خیر چھوڑیں آپ یہ بتائیں آپ کب جارہی ہیں؟
پروفیسر: بس ایک دو کام ہیں وہ نپٹا کر دو تین دن تک نکل جاؤں گی۔
ثانیہ: یونیورسٹی چکر نہیں لگائیں گی؟
پروفیسر: نہیں یونیورسٹی تو مشکل ہے چکر لگے۔
ثانیہ: اچھا! چلیں کوئی نہیں آپ یہاں ملنے آگئیں یہی کافی ہے۔
چوتھا منظر
دن کا وقت۔ سڑک
تیز بارش ہو رہی ہے۔ ساحر بس اسٹاپ پر کھڑا ہے۔ اس کے موبائل کی گھنٹی بجتی ہے جیب سے موبائل نکال کر کال اٹینڈ کرتا ہے۔
ساحر: ہیلو۔۔۔نہیں بس سٹاپ پر کھڑا ہوں۔۔۔بس میں کہیں نہیں جارہا بارش رکنے کا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔ہاں بس پانچ دس منٹ تک پہنچ جاؤں گا۔۔۔یار پہنچ جاؤں گا کہا تو ہے۔۔۔نہیں ہوتی تمہیں دیر۔۔۔
(اچانک اس کی نظر سڑک کے دوسری جانب اک لڑکی پر پڑتی ہے جو سڑک کے اس پار ہینڈ بیگ کندھے پر لٹکاۓ سڑک پار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ فوراً کال کاٹتا ہے اور فون جیب میں رکھ کر بڑے انہماک سے لڑکی کو دیکھنے لگتا ہے۔ لڑکی جو سائرہ ہے بمشکل تمام بارش میں سڑک پار کرتی ہے اور بس اسٹاپ پر آکر رک جاتی ہے۔ کندھے سے ہینڈ بیگ اتار کر بنچ پر رکھتی ہے اور دوپٹے کے پلو سے اپنا چہرا اور سر کے بالوں کو خشک کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اک اچٹتی سی نگاہ ساحر پر ڈالتی ہے پھر بڑے مختاط انداز سے کھڑی ہوکر سامنے سڑک کی طرف نگاہ کر لیتی ہے۔ ساحر جو ابھی تک اسے دیکھ رہا ہوتا ہے اس کی نظر پڑتے ہی فوراً نظریں ہٹا لیتا ہے۔ لیکن کچھ دیر بعد دوبارہ کنکھیوں سے دیکھنے کو کوشش کرتا ہے۔ اس کے دیکھنے کے بعد جب وہ نگاہ دوسری طرف کر لیتا ہے تو لڑکی بھی دوبارہ اسے اک نظر دیکھتی ہے۔ چند لمحے یونہی گزر جاتے ہیں۔ بارش کی آواز مسلسل آتی رہتی ہے۔ کچھ دیر بعد بس آکر سٹاپ پر رکتی ہے پانی میں بس کے کھڑے ہونے کی آواز آتی ہے۔ چند مسافر اترتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی لڑکی تیزی سے بس پر سوار ہو جاتی ہے۔ ساحر چند لمحے کچھ سوچتا ہے اور پھر فوراً وہ بھی بس پر سوار ہو جاتا ہے۔)
پانچواں منظر
وہی وقت۔ سڑک
بس چل رہی ہے۔ ساحر دیگر چند مسافروں کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہ لڑکی آگے دوسری خواتین کے ساتھ بیٹھی ہے اس کا دھیان آگے کی طرف ہے وہ ساحر کو نہیں دیکھ رہی جبکہ ساحر کا دھیان اسی کی طرف ہے۔ کچھ دیر بعد گاڑی ایک جگہ رکتی ہے۔ چند مسافر اترے ہیں اور چند سوار ہو جاتے ہیں، گاڑی دوبارہ چلنے لگتی ہے۔ کنڈکٹر نئے آنے والے مسافروں سے کرایہ وصول کرنے اور ٹکٹ کاٹنے کے لیۓ ان کے پاس جاتا ہے۔ کنڈکٹر دو چار مسافروں کی ٹکٹ کاٹتا ہے اتنے میں گاڑی پھر سے ایک سٹاپ پر آرکتی ہے۔ کچھ مسافروں کے ساتھ وہ لڑکی بھی نیچے اتر جاتی ہے۔ ساحر بھی بھاگ کر تیزی سے بس سے اتر جاتا ہے۔ باہر آکر اردگرد دیکھتا ہے وہ لڑکی اسے کہیں دکھائی نہیں دیتی وہ خیران ہو کر ادھر ادھر گھوم کر اسے تلاش کرتا ہے۔ ایک راہ گیر کو روکتا ہے۔
ساحر: بات سنو تم نے اس طرف جاتے ہوۓ کسی لڑکی کو تو نہیں دیکھا۔ اس نے کندھے پر ہینڈبیگ لٹکایا ہوا ہے اور ابھی ابھی بس سے اتری ہے۔
راہ گیر: نہیں میں نے نہیں دیکھا۔
(راہ گیر چلا جاتا ہے۔ ساحر کچھ دیر کھڑا ہو کر سوچتا ہے پھر واپس بس اسٹاپ کی طرف چل پڑتا ہے)
چھٹا منظر
دن کا وقت۔ ساحر اور طلحہ کا کمرا۔
طلحہ اور شاداب کمرے میں موجود ہیں طلحہ اپنا فون کان پر لگاۓ کھڑا ہے۔
طلحہ: (شاداب سے) دیکھو پھر فون کاٹ دیا کہہ رہا تھا میں بس سٹاپ پر ہوں پتہ نہیں کون سے سٹاپ پر ہے۔ بس سٹاپ سے یہاں کا فاصلہ تو بس تین چار منٹ کا ہے۔
شاداب: تو پھر پکا یہ کہیں اور ہے۔
طلحہ: مجھے بھی لگتا ہے جھوٹ بول رہا ہے۔
شاداب: آلینے دے آج اسے ٹھیک کرتے ہیں۔
طلحہ: ہاں ایک بار آۓ تو پھر اس کا بندوبست کرتے ہیں۔
ساتواں منظر
وہی وقت۔
ساحر کمرے کے باہر پہنچتا ہے اور طلحہ اور شاداب کی باتیں سن لیتا ہے۔ وہیں رک جاتا ہے اور فوراً اپنی شرٹ کے اوپر کے بٹن کھولتا ہے، اپنے بال بکھیر لیتا ہے اور فرش سے تھوڑی سی دھول یا مٹی ہاتھ پر مل کر اپنے کپڑوں پر لگاتا ہے۔ اپنا حلیہ بگاڑ کر لنگڑاتا ہوا کمرے میں داخل ہوتا ہے۔
ساحر: (کانپتی ہوئی آواز میں) پانی دو
یار پانی۔
(شاداب اور طلحہ بھاگ کر اسے پکڑتے ہیں)
طلحہ: کیا ہوا؟
شاداب: خیریت ہے لگتا ہے کہیں گرے ہو۔
(دونوں اسے بستر پر بٹھاتے ہیں)
طلحہ: اب بتاؤ کیا ہوا ہے؟
ساحر: کچھ نہ پوچھو یار بڑا برا ایکسیڈنٹ ہوا ہے یوں سمجھو بس مرتا مرتا بچا ہوں۔
طلحہ: وہ کیسے کہاں پر لگی ہے؟
ساحر: ٹانگ پر لگی ہے۔
طلحہ: دکھاؤ ذرا۔
ساحر: دیکھ کر کیا کرو گے۔
شاداب: دیکھاؤ تو سہی پتہ تو چلے زیادہ سخت تو نہیں لگی۔
ساحر: اچھا! ۔۔۔ دکھا دیتا ہوں۔
(اپنی پتلون کا پائنچہ فولڈ کرنے لگتا ہے)
شاداب: آتے ہوۓ تو تم بائیں ٹانگ سے لنگڑا رہے تھے تو بائیں ٹانگ پر لگی ہو گی دائیں ٹانگ کا پائنچہ کیوں فولڈ کر رہے ہو؟
ساحر: ہاں ہاں بائیں ٹانگ۔ میں بھول گیا تھا تکلیف میں کس کو یاد رہتا ہے بایاں کون سا ہے دایاں کون سا۔
شاداب: بالکل ٹھیک کہا۔۔۔ چلو دکھاؤ۔
(آہستہ آہستہ پائنچہ اوپر کرتا ہے)
طلحہ: یہ کیا چوٹ تو کہیں نہیں؟
ساحر: وہ۔۔۔ اندرونی چوٹ ہے۔
طلحہ: اچھا اندرونی چوٹ ہے۔ ٹھیک ہے ہم ایسی دوا دیں گے اندرونی بیرونی سب چوٹیں ایک دم بالکل ٹھیک ہو جائیں گی۔
ساحر: کیا مطلب؟
شاداب: مطلب ابھی سمجھاتے ہیں۔
(شاداب اور طلحہ دونوں تکیے اٹھاتے ہیں اور ساحر پر پل پڑتے ہیں۔ باہر سے شکیل بھی اندر آتا ہے اور انہیں دیکھ کر مسکراتا ہے۔)
شکیل: ارے واہ۔ ایسے نیک کام میرے بغیر ہی۔
(وہ بھی کوئی چیز اٹھاتا ہے اور شروع ہو جاتا ہے۔ کچھ دیر تک چاروں لڑائی کرتے ہیں)
آٹھواں منظر
دن کا وقت۔ ثانیہ کا گھر
ثانیہ گھر کے کسی کام میں مصروف ہے فاروق اسے آواز دیتا ہوا اندر داخل ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک شاپر ہے جو وہ ثانیہ کو پکڑاتا ہے۔
فاروق: (اندر آکر) ثانیہ۔۔۔ ثانیہ۔۔۔
ثانیہ: جی ابا آپ آگۓ۔
فاروق: ہاں آگیا ہوں۔ (شاپر اسے دیتا ہے)
ثانیہ: بڑی دیر لگادی آپ نے کہاں رہ گۓ تھے؟
فاروق: وہ بس انصاری صاحب کا تھوڑا کام تھا تو ذرا دیر ہو گئ۔ (کوٹ اتار کر صوفے پر بیٹھتے ہوۓ) پروفیسر صاحبہ چلی گئیں؟
ثانیہ: (شاپر لے کر دوسرے کمرے میں جاتے ہوۓ) وہ تو کب کی چلی گئیں۔
فاروق: تو کب جارہی ہیں تمہاری پروفیسر صاحبہ ملک سے باہر؟
ثانیہ: (دوسرے کمرے سے) کہہ رہی تھیں تین دن بعد کی فلائیٹ ہے۔ کھانا لاؤں آپ کے لیۓ؟
فاروق: ہاں لے آؤ۔
ثانیہ: (واپس کمرے میں آکر کھانا پروستے ہوۓ) اچھا ابا میں نے ان سے پوچھا میں آگے کون سا مضمون لوں تو کہہ رہی تھیں تمہیں تاریخ میں دلچسپی ہے تو بہتر ہے تاریخ میں داخلہ لو۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
فاروق: میں کیا کہوں اگر تمہیں واقعی تاریخ میں دلچسپی ہے تو ایڈمشن لے لو۔ تاریخ کوئی ایسا برا مضمون تو نہیں جس میں ایڈمشن نہیں لیا جا سکتا۔
ثانیہ: لیکن ابا ایک مسئلہ ہے۔
فاروق: کیا؟
ثانیہ: تاریخ ایسا مضمون ہے جسے میں پروفیشنل کیریئر کے طور پر اختیار نہیں کر سکتی۔ تاریخ میں ڈگری لینے کے بعد میں آگے جاب کیا کروں گی۔
فاروق: ہاں یہ مسئلہ تو ہے تاریخ میں ڈگری لینے کے بعد تم اسے پروفیشنل کیریئر تو نہیں بنا سکتی اور پاکستان میں تو بالکل بھی نہیں بنا سکتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے تم کسی کالج یا یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کردو۔
ثانیہ: (پاس بیٹھتے ہوۓ) تو پھر بتائیں میں کیا کروں؟
فاروق: میں کیا کہہ سکتا ہوں یہ فیصلہ تو تمہیں کرنا ہے چاہے تو تاریخ لے لو چاہے کچھ اور اختیار کر لو۔
ثانیہ: ابا کبھی تو آپ کوئی مشورہ دے دیا کریں۔ لوگوں کے باپ اور خاندان کے بڑے بزرگ بچوں پر حکم چلاتے ہیں انہیں اپنی پسند نا پسند پر مجبور کرتے ہیں اور ایک آپ ہیں آپ تو مشورہ بھی نہیں دیتے۔
فاروق: (ہنسں کر) میں کیا مشورہ دوں۔ اگر تو تمہیں پروفیشنل کیریئر عزیز ہے تو پھر وہی اختیار کرو جو آج کل کے زیادہ تر نوجوان لڑکے لڑکیاں کرتے ہیں۔ یعنی کامرس میں داخلہ لے لو اور ایم بی اے یا بی بی اے کرکے کسی کارپوریٹ سیکٹر میں ملازمت اختیار کرکے موج کرو۔ لیکن اگر تمہیں علم سے اتنی محبت ہے تو پھر وہی مضمون منتخب کرو جس میں تمہارا دل ہے۔
ثانیہ: تاریخ سے مجھے محبت تو ہے لیکن ابا پڑھانا مجھے بالکل بھی پسند نہیں اس لیۓ میں تعلیم مکمل کرکے ٹیچنگ نہیں کرنا چاہتی۔
فاروق: تو پھر جیسے مرضی ہے کرو میں کیا کر سکتا ہوں۔
ثانیہ: ابا کیا ایسا نہیں ہو سکتا میں دونوں کو ساتھ لے کر چلوں۔ کیونکہ نہ تو میں کیریئر چھوڑنا چاہتی ہوں اور نہ اپنی پسند کا مضمون۔
فاروق: (کھانا کھاتے ہوۓ) ہو تو سکتا ہے بالکل ہو سکتا ہے۔ تم تاریخ میں بھی ڈگری حاصل کرو اور اس کے بعد کوئی پروفیشنل ڈگری بھی حاصل کر لو جس سے تمہیں اپنی پسند کی جاب بھی مل جاۓ گی اور تعلیم بھی تمہاری اپنی مرضی کی ہو جاۓ گی۔
ثانیہ: ہاں یہ ہو سکتا ہے۔ اچھا ابا! آپ نے کیسے فیصلہ کیا تھا آپ کو بھی تو یہی مسئلہ پیش آیا ہو گا۔
فاروق: مجھے۔۔۔ مجھے تو فزکس سے عشق تھا داخلہ لینے سے پہلے میں اچھی طرح جانتا تھا فزکس کے میدان میں پروفیشنل کیریئر کے حوالے سے مجھے کافی مشکلات پیش آئیں گی۔ پاکستان میں تو اس کا بالکل بھی سکوپ نہیں تھا اور نہ اب ہے۔ لیکن پھر بھی میں نے اپنے عشق کو چنا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا فزکس میں آنرز کرتے ہی مجھے ماسٹر اور پی ایچ ڈی کے لیۓ بیرون ملک جانے کا موقع مل گیا اور اس دوران وہاں جاب بھی مل گئ۔
ثانیہ: یہ تو کمال ہو گیا۔
فاروق: ہاں اسی لیۓ تو میں کہتا ہوں تم بھی یہاں پڑھنے کی بجاۓ باہر ایڈمشن لے لو۔ ہمارے ملک میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو بے چارے پڑھنے کے لیۓ یا ملازمت کے لیۓ باہر جانے کو ترستے ہیں اور ایک تم ہو تمہیں بیٹھے بٹھاۓ موقع مل رہا ہے پر تم جانا نہیں چاہتی۔
ثانیہ: ابا آپ نے کہا تھا آپ اس بات کا ذکر بار بار نہیں کریں گے۔
فاروق: بار بار نہیں کر رہا پر میں اپنی راۓ کا اظہار تو کر سکتا ہوں۔ پھر کہتی ہو آپ کوئی مشورہ نہیں دیتے۔
ثانیہ: ویسے ابا۔۔۔! آپ ایک بات تو بتائیں آپ نے مجھے کبھی کسی بات کے لیۓ نہیں روکا، کبھی کوئی ناجائز پابندی نہیں لگائی یہاں تک کہ میرے پاکستان رہنے کے فیصلے پر بھی آپ نے اعتراض نہیں کیا تو کیا آپ مجھے میری شادی کے فیصلے کا بھی اختیار دیں گے؟
فاروق: ہاں بالکل دوں گا۔ بشرطیکہ تمہارا وہ فیصلہ بھی تاریخ کے مضمون کی طرح بہتر ہوگا۔
ثانیہ: اور اگر اس فیصلے میں کوئی خرابی ہوئی؟
فاروق: تو پھر میں تمہیں سمجھاؤں گا، تمہیں بتاؤں گا کہ یہ کیوں اور کیسے درست نہیں۔ لیکن فیصلے کا اختیار تمہارے ۔پاس ہی رہے گا۔ہ
:ثانیہ
You are the best father in all over the world
(فاروق مسکرا کر سر ہلاتا ہے)
نواں منظر
دن کا وقت۔ ساحر اور طلحہ کا کمرا۔
کمرے میں ساحر، طلحہ، شاداب اور شکیل چاروں موجود ہیں۔ ابھی ابھی ساحر کو پیٹنے اور لڑائی کے شغل سے فارغ ہو کر بیٹھے ہیں اور اسی موضوع پر بات کر رہے ہیں اور ہنسی مذاق کر رہے ہیں۔
شکیل: جو اسے میری پڑی ہے وہ کمال کی تھی۔
طلحہ: نہیں شاداب کی ٹھیک پڑی ہے تمہاری بس آواز زیادہ آئی تھی۔
ساحر: نہیں مجھے پڑی بھی اسی کی سخت ہے۔ (شکیل کی طرف اشارہ کرکے) اس ظالم نے تو پولیس والوں کی طرح مارا ہے۔
شاداب: ہاں یہ ٹھیک بات ہے اس نے تو اچھل اچھل کر مارا ہے۔ اور مزے کی بات ہے اسے ابھی تک پتہ بھی نہیں کہ ہم اسے مار کیوں رہے تھے۔
طلحہ: لگتا ہے تم نے اس سے کوئی پرانا بدلہ لیا ہے۔
شکیل: نہیں یار! میں نے کہا نیک کام میں اپنا حصہ ڈال لینا چاہیۓ۔
ساحر: تم لوگ ساری باتیں چھوڑو اس شاداب کے بچے کی جاسوسی چیک کرو کہتا ہے پہلے تم بائیں ٹانگ سے لنگڑا رہے تھے اور اب دکھا دائیں ٹانگ رہے ہو۔
طلحہ: صحیح بات ہے پورا شرلاک ہوم ہے یہ۔۔۔ ویسے تم اب تو بتا دو آخر گۓ کہاں تھے۔ بس سٹاپ سے یہاں کا فاصلہ اتنا زیادہ تو نہیں؟
ساحر: (مسکرا کر، شرما کر) وہ۔۔۔ وہ بس راستے میں کوئی مل گیا تھا۔
شاداب: ہاں دیکھا آگئ نا وہی بات۔۔۔ سچ سچ بتانا کوئی لڑکی تھی؟
ساحر: (مسکرا کر) ہاں۔
شکیل: کون تھی وہ کہاں گۓ تھے اس کے ساتھ؟
ساحر: پتہ نہیں کون تھی یار! جیسے ہی میں نے اسے دیکھا مجھے اس کا چہرا اتنا شناسا لگا جیسے میں اسے برسوں سے جانتا ہوں۔ وہ بس میں بیٹھ کر کہیں گئ تو میں غیرارادی طور پر اس کے پیچھے چل پڑا۔
طلحہ: تو پھر کیا پتہ لگا کون تھی وہ؟
ساحر: پتہ نہیں وہ بس سے اتری تو میں بھی اس کے پیچھے بس سے اتر گیا لیکن پھر وہ غائب ہو گئ۔
(اٹھ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتا ہے پھر شعر پڑھتا ہے)
گۓ دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو خیران کر گیا وہ
دسواں منظر
دن کا وقت۔ شالیمار باغ
شالیمار باغ میں طلحہ اور ثانیہ پیدل چلے جارہے ہیں جبکہ ان کے پیچھے کچھ فاصلے پر ان کی یونیورسٹی کے دوست اور ہم جماعت سب مختلف ٹولیوں میں کھڑے ہیں۔ یہ دونوں ان سب سے ہٹ کر اک طرف چل رہے ہیں۔
طلحہ: تمہارے ساتھ اور تو کوئی مسئلہ نہیں بس ایک مسئلہ ہے۔ تم مجھے تاریخی مقامات کی سیر کروا کروا کر مار دو گی۔ کبھی مقبرۂ جہانگیر، کبھی شالیمار باغ، کبھی کہاں اور کبھی کہاں۔
ثانیہ: یہاں آنے کا فیصلہ صرف میرا تو نہیں تھا پوری کلاس کا تھا۔
طلحہ: جی اور انہیں یہاں آنے پر قائل کس نے کیا تھا میں اچھی طرح جانتا ہوں یہ آئیڈیا تمہارے سوا اور کسی کا نہیں ہو سکتا۔
ثانیہ: ہاں تو میں نے کسی کو مجبور تو نہیں کیا تھا میں کسی کو زبردستی اٹھا کر یہاں تو نہیں لے آئی۔ پوری کلاس کا آؤٹنگ کا پروگرام بن رہا تھا تو میں نے کہا شالیمار باغ چلتے ہیں۔ سب مان گۓ تو ہم یہاں آگۓ۔
طلحہ: تم بڑی تیز ہو کل میں چھٹی پر تھا تو تم لوگوں نے کل ہی پروگرام طے کر لیا تمہیں پتہ تھا میں ہوتا تو یہاں آنے کی مخالفت کرتا۔
ثانیہ: تم نے تو ہر بات کی مخالفت کرنی ہوتی ہے ورنہ کیا ہے اس جگہ میں اتنی خوبصورت تو ہے مغل آرکیٹیکچر کا کتنا شاندار نمونہ ہے۔
طلحہ: پاس رکھو تم اپنا مغل آرٹ۔۔۔ان مغلوں کی تو میں۔۔۔
(ٹانگ ہوا میں زور سے کک مارنے کے انداز سے لہراتا ہے جس سے اس کا جوتا اتر کر تالاب میں جا گرتا ہے۔ ثانیہ زور زور سے ہنسنے لگتی ہے۔ دور کھڑے چند طلبہ بھی یہ منظر دیکھ کر ہنسنے لگتے ہیں)
ثانیہ: ٹھیک ہے جناب طلحہ امین صاحب! ہم اپنا مغل آرٹ اپنے پاس رکھتے ہیں اور آپ نے ابھی جو اپنے آرٹ کا مظاہرہ کیا ہے اس سے آپ خود بھگتیں۔ ہم تو چلے۔
(جانے لگتی ہے اور واپس جاتے ہوۓ مڑ کر دوبارہ ہنستی ہے۔ طلحہ منہ پھلاۓ وہیں ساکت کھڑا اپنے جوتے کو دیکھتا رہتا ہے)
گیارواں منظر
دن کا وقت۔ ساحر کا کمرا۔
ساحر باتھ روم میں آئینے کے سامنے کھڑا شیو بنا رہا ہے۔ کہیں دور سے کسی گانے کی آواز آتی ہے۔ ہاتھ روک کر کان آواز کی طرف لگاتا ہے اور گانا دھیان سے سننے کی کوشش کرتا ہے۔ آواز کافی دھیمی ہے گانے کے بول سنائی نہیں دے رہے۔ باتھ روم کی کھڑکی سے کان لگا کر سننے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر باہر نکلتا ہے اور کمرے کی کھڑکی پر کان لگا کر سننے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر چھت پر چڑھ جاتا ہے یہاں آواز بالکل صاف سنائی دیتی ہے۔ نیل ڈائمنڈ کا گانا what a beautiful noise بج رہا ہے۔
ساحر اردگرد آواز کی سمت کا تعین کرنے کی کوشش کرتا ہے ایک دم اس کی نظر سامنے ایک گھر پر پڑتی ہے جس کی کھڑکی کھلی ہے اور کھڑکی کے بالکل پاس وہی لڑکی سائرہ بیٹھی کتاب پڑھ رہی ہے جو اسے بس اسٹاپ پر ملی تھی۔ اس کے پاس ایک میز پر ریڈیو پڑا ہے جس سے گانے کی آواز آرہی ہے۔
What a beautiful noise
Comin' up from the street
Got a beautiful sound
It's got a beautiful beat
It's a beautiful noise
Goin' on everywhere
Like the clickety-clack
Of a train on a track
It's got rhythm to spare...
ساحر کھڑے ہو کر کافی دیر تک گانا سنتا ہے۔ لڑکی کا دھیان اس پر ابھی تک نہیں پڑا۔ کچھ دیر میں اس کی نظر ساحر پر پڑتی ہے جب وہ ساحر کو اپنی طرف متوجہ دیکھتی ہے تو فوراً کھڑکی بند کر دیتی ہے۔ ساحر وہیں کھڑا رہ کر بند کھڑکی کو چند لمحے دیکھتا ہے۔
بارہواں منظر
دن کا وقت۔ شالیمار باغ
طلحہ ایک درمیانے سائز کی چھڑی سے تالاب کے کنارے جھک کر اپنا جوتا باہر نکالنے کی کوشش کررہا ہے۔ چھڑی چھوٹی ہے جوتے تک مشکل سے پہنچتی ہے کافی کوشش کے بعد جوتا چھڑی میں اٹکتا ہے لیکن طلحہ اسے جیسے ہی کھینچتا ہے جوتا پھسل کر دوبارہ گر جاتا ہے۔ دوسری مرتبہ ذرا زیادہ جھک کر جوتا پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اور پھسل کر خود بھی پانی میں گر جاتا ہے۔ اس کے گرتے ہی ہر طرف قہقہے بلند ہوتے ہیں۔ ثانیہ بھی ایک طرف کھڑی ہنسنے لگتی ہے۔ طلحہ غصے سے ان سب کو دیکھتا ہے پھر خود بھی ہنسنے لگتا ہے۔
تیرھواں منظر
دن کا وقت۔ ساحر کا کمرا
ساحر اپنی چھت پر کھڑا ہے۔ وہ لڑکی اپنی کھڑکی میں ہے۔ ساحر کی چھت اور اس کھڑکی کے درمیان یوں تو فاصلہ کافی ہے لیکن اس منظر میں چونکہ ساحر خواب دیکھ رہا ہے اس لیۓ وہ کھڑکی اور ساحر کی چھت دونوں بالکل پاس آجاتے ہیں۔ دونوں اپنی اپنی جگہ پر رہ کر مکالمے ادا کرتے ہیں۔
ساحر: تو بتاؤ پھر کیا سوچا ہے؟
لڑکی: کس بارے میں؟
ساحر: شادی کے بارے میں۔
لڑکی: پہلے تم بتاؤ تم میرے لیۓ کیا کر سکتے ہو؟
ساحر: میں۔۔۔(سوچتے ہوۓ) میں۔۔۔تمہارے لیۓ کیا کر سکتا ہوں۔ میں تمہیں برابری کے حقوق دے سکتا ہوں۔
لڑکی: (خیرت سے) کیا مطلب؟
ساحر: مطلب یہ کہ تم اپنی مرضی سے نوکری کر سکو گی۔ گھر کے اور خاندان کے بہت سے امور میں تمہاری راۓ کو اہمیت دی جاۓ گی اور تم اپنی مرضی سے آزادانہ فیصلے کر سکو گی۔ اور۔۔۔۔اور کیا۔۔۔ہاں اور یہ کہ گھر کے کام ہم دونوں مل کر کر لیا کریں گے تمہیں اکیلے نہیں کرنے پڑیں گے۔ کبھی میں کھانا بنا دیا کروں گا کبھی تم بنا لینا۔ کم سے کم تم ایک لڑکی ایسی ہو گی جسے دیگر عورتوں کی طرح بینر پکڑ کر عورت مارچ نہیں کرنا پڑے گا۔ تمہیں مکمل طور پر برابری کے حقوق ملیں گے۔
لڑکی: در فٹے منہ۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ لوگ تو ایسے موقعوں پر چاند تارے توڑ کر لانے کی بات کرتے ہیں، اتنے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں میں تمہیں دنیا بھر کی آسائشیں دوں گا، قیمتی سے قیمتی چیز تمہارے قدموں میں لاکر رکھ دوں گا یہ کر دوں گا وہ کر دوں گا۔ اور تم ایسے معمولی سے دعوے کر رہے ہو۔
ساحر: یہ معمولی دعوے نہیں ہیں مخترمہ یہ چاند تاڑے توڑ کر لانے سے زیادہ مشکل کام ہیں شاید اسی لیۓ اس کا دعوی بھی کوئی نہیں کرتا۔
لڑکی: دعوی بڑا ہو گا لیکن اس میں وہ رومانویت نہیں جو چاند تارے توڑ کر لانے کی بات میں ہے۔
ساحر: بس اسی رومانویت کے چکر میں تم لڑکیاں اپنا نقصان کرواتی ہو۔ ایسے ایسے دعووں کی توقع کرتی ہو جو ممکن بھی نہیں اور شاید ناجائز بھی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا رومانویت بالکل نہ ہو، ہو لیکن حقیقت کے ساتھ ساتھ رہے تو بہتر ہے۔
لڑکی: اچھا چلو مان لیا ناممکن تو ہوئیں لیکن ناجائز کیسے ہو گئیں۔ ہمارے کھانے پینے اور دیگر اخراجات کی ذمےداری کیا تم لوگوں پر نہیں؟ تم لوگ بس اپنی ذمے داری سے بھاگتے ہو اور کچھ نہیں۔
ساحر: میں یہ نہیں کہہ رہا یہ ذمے داری ہماری نہیں، بالکل ہماری ہے لیکن وہ ذمے داری تمہاری ضرورتوں کو پورا کرنے کی ہے عیاشیوں اور قیمتی آسائشوں کے لیۓ نہیں۔ کسی سے بھی ایسی توقع کرنا کہ وہ دنیا بھر کی آسائشیں تمہارے قدموں میں لاکر رکھ دے ناجائز نہیں تو اور کیا ہے۔ اور پھر تمہارا برابری اور آزادی کا مطالبہ بھی تو ہے۔ یہ دونوں باتیں ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ یہ فیصلہ تمہیں کرنا ہے تم لوگوں کو آزادی اور برابری کے حقوق چاہیئں یا بھیک کے طور پر ملنے والی آسائیشیں۔
(اچانک سے ساحر کو کوئی شور سنائی دیتا ہے۔ وہ چونکتا ہے اور بیدار ہو جاتا ہے۔ آنکھ کھلتی ہے تو کمرے میں طلحہ اور شاداب کو دیکھتا ہے جو اسے آوازیں دے کر اور جھنجوڑ کر اٹھا رہے ہیں۔ ساحر اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے)
ساحر: کیا ہے کیوں شور مچا رہے ہو، اٹھ گیا ہوں۔
شاداب: یار اتنا بے ہوش کون سوتا ہے۔۔۔پچھلے پندرہ منٹ سے تمہیں اٹھا رہے ہیں۔
ساحر: کیوں اٹھا رہے تھے ایسی کون سی قیامت آگئ۔ ابھی ابھی تو آنکھ لگی تھی۔۔۔ اتنا اچھا خواب دیکھ رہا تھا میں۔
طلحہ: (پاس بیٹھ کر) کیا خواب دیکھ رہے تھے۔ ہمیں بھی بتاؤ۔
شاداب: اسی لڑکی کا ہو گا۔
ساحر: ہاں اسی کا تھا۔
شاداب: یار یہ تم لڑکوں کا بڑا مسئلہ ہے ابھی لڑکی پوری طرح دکھی نہیں اور اس کے خواب دیکھنے شروع۔
طلحہ: ہم لڑکے ہیں؟۔۔۔تو تم کیا ہو؟۔۔۔بابا جی۔۔۔
شاداب: نہیں میرا مطلب ہے۔۔۔
ساحر: چھوڑو یار یہ سب۔۔۔وہ آج مجھے پھر نظر آئی ہے۔
طلحہ: ارے واہ۔۔۔کہاں پر؟
ساحر: یہیں چھت پر۔ وہ یہیں پاس میں رہتی ہے۔۔۔چند گھر چھوڑ کر۔
طلحہ: سچ میں۔۔۔تمہیں کیسے پتہ چلا؟ یہ تو بڑی خیران کن بات ہے۔
ساحر: ہاں میں بھی خیران ہوا تھا۔ اس سے پہلے اسے کبھی یہاں دیکھا نہیں۔
شاداب: وہ ملی کیسے یہ تو بتاؤ؟ اور اس نے بھی تمہیں دیکھا کہ نہیں؟
ساحر: ہاں اس نے بھی مجھے دیکھا۔ میں آج شیو کر رہا تھا جب مجھے کسی گانے کی آواز آئی میں نے باہر نکل کر دیکھا تو آواز چھت سے آرہی تھی۔ میں چھت پر چلا گیا اردگرد دیکھنے پر مجھے وہ چند گھر چھوڑ کر کھڑکی میں بیٹھی نظر آئی۔ گانے کی آواز اس کے ریڈیو سے آرہی تھی جو اس کے پاس پڑا ہوا تھا۔
طلحہ: پھر کیا ہوا؟
ساحر: پھر کیا ہونا تھا میں کچھ دیر تک اسے دیکھتا رہا پر جب اس کی نظر مجھ پر پڑی تو اس نے کھڑکی بند کر دی۔
شاداب: (ہنستا ہے) چلو کوئی بات نہیں اکثر محبت کا آغاز یونہی ہوتا ہے۔ لیکن تم امید رکھو کبھی تو کھڑکی تمہارے لیۓ کھلے گی۔
طلحہ: آغاز تو جیسا بھی ہوا ہو انجام اچھا ہونا چاہیۓ۔
شاداب: ویسے آغاز بھی کوئی اتنا برا نہیں ہوا ایک بات کی تو تصدیق ہو گئ۔ وہ بھی تمہاری طرح تھوڑی سی (انگلی سے پاگل پن کا اشارا کرکے) کریک ہے۔ وہ بھی ریڈیو پر گانے سنتی ہے جیسے تم سنتے ہو۔ تو ایک بات تو تم دونوں میں مشترک ہے۔
طلحہ: ایک بات اور ہے جو سوچنے والی ہے۔
شاداب: کیا؟
طلحہ: اگر وہ یہیں رہتی ہے تو اس دن یہاں سے بس سٹاپ پر بیٹھ کر کہاں گئ تھی؟
شاداب: یہ بھی کوئی سوچنے والی بات ہوئی۔ کسی کام سے گئی ہو گئ۔
ساحر: نہیں سوچنے والی بات ہے ایسے لگ رہا تھا وہ اس وقت کہیں اور سے آئی تھی تو بجاۓ اس کے وہ یہاں اپنے گھر آتی وہ بس پر بیٹھ کر کہیں چلی گئ۔ اور مجھے لگتا ہے وہ روز یہاں سے بس پر بیٹھ کر جاتی ہے۔ (سوچتے ہوۓ) کہاں جاتی ہو گی؟ پتہ لگانا پڑے گا۔
چودھواں منظر
رات کا وقت۔ ثانیہ کا گھر
ثانیہ اپنے گھر میں پروفیسر صاحبہ سے فون پر بات کر رہی ہے۔
ثانیہ: جی میم! میں بالکل ٹھیک ہوں آپ سنائیں آپ کو جگہ پسند آئی۔ کیسا لگا وہاں کا ماحول؟
پروفیسر: اچھا ہے۔ یہاں کا ماحول تو کافی اچھا ہے اور مراعات بھی وہاں سے بہت بہتر مل رہی ہیں۔ میری مانو تو تم بھی امتخان دے کر یہاں آجاؤ اور یہاں آکر ایڈمشن لو۔ یہاں کی تعلیم کا معیار بھی وہاں سے بہت اعلیٰ ہے۔
ثانیہ: کیا میم آپ بھی ابا کی طرح بات کرنے لگیں۔ وہ اکثر اصرار کرتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ وہاں جاکر رہوں پر میں ٹال جاتی ہوں۔ اور اب آپ۔۔۔
پروفیسر: نہیں میں اصرار تو نہیں کر رہی میں تو بس یونہی کہہ رہی تھی۔
ثانیہ: چلیں چھوڑیں پھر اس بات کو۔۔۔ آپ بتائیں آپ وہاں جا کر مجھے بھول تو نہیں گئیں؟
پروفیسر: نہیں بھولی تو بالکل نہیں بس ذرا بات کرنے کے لیۓ وقت کم ملتا ہے۔
(کچھ دیر تک دونوں فون پر بات کرتی نظر آتی ہیں)
پندھرواں منظر
دن کا وقت۔ سڑک
ساحر بس اسٹاپ پر کھڑا ہے کلائی پر بندھی گھڑھی بار بار دیکھتا ہے اور بے چینی سے ادھر ادھر نظر دوڑاتا ہے۔ سڑک کے اس پار سے وہ لڑکی آتی ہوئی دیکھائی دیتی ہے۔ اس نے کندھے پر بیگ لٹکایا ہوا ہے اور ہاتھ میں دو تین کتابیں تھام رکھی ہیں۔ ساحر اسے دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے۔ لڑکی سڑک پار کرتی ہے تو اس کی نظر ساحر پر پڑتی ہے وہ اسے دیکھ کر ٹھٹھکتی ہے۔ بس اسٹاپ پر کافی بھیڑ ہے وہ خاموشی سے چلتی ہوئی ایک کونے میں جا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ جیسے ہی بس آتی ہے وہ فوراً بھاگ کر بس میں سوار ہو جاتی ہے۔ ساحر بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ بس میں سوار ہو جاتا ہے۔
سولہواں منظر
بس ایک سٹاپ پر آکر رکتی ہے وہ لڑکی نیچے اترتی ہے۔ چند دیگر مسافر بھی اترتے ہیں جن کے ساتھ ساحر بھی اتر کر نیچے آجاتا ہے۔ لڑکی تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی ایک طرف کو چل پڑتی ہے۔ ساحر بھی اس لڑکی کے پیچھے جاتا ہے۔ لڑکی اچانک رک جاتی ہے ساحر بھی رک جاتا ہے۔ پھر لڑکی چل کر اس کے قریب جاتی ہے۔
لڑکی: ( سخت لہجے میں) تمہیں کیا مسئلہ ہے میں دیکھ رہی ہوں کتنے دنوں سے تم میرا پیچھا کر رہے ہو۔ کون ہو تم اور کیا چاہتے ہو؟
ساحر: میں معذرت خواہ ہوں میں آپ کا پیچھا کرنا نہیں چاہتا میں تو آپ سے صرف ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سے بات کرنے کا اور کوئی طریقہ میرا پاس نہیں تھا اس لیۓ۔۔۔
لڑکی: (اسی لہجے میں) کیا بات کرنا چاہتے ہو تم؟
ساحر: بات یہ ہے۔۔۔(کچھ کہنے لگتا ہے لیکن رک جاتا ہے) چھوڑیں پھر کبھی۔۔۔فی الحال آپ کو یہ کتاب دینی تھی۔ آپ اسے بس سٹاپ پر گرا آئیں تھیں۔
(لڑکی ہاتھ میں پکڑی ہوئی اپنی کتابیں دیکھتی ہے وہاں ایک کتاب غائب ملتی ہے جسے وہ بس میں تیزی سے سوار ہوتے ہوۓ گرا آئی تھی۔ وہ اس کے ہاتھ سے کتاب لے لیتی ہے)
لڑکی: (کتاب لیتے ہوۓ نرمی سے) آپ کا شکریہ۔ شاید جلدی میں بس میں سوار ہوتے ہوۓ گر گئ تھی۔
ساحر: جی میں نے اسی وقت اٹھا لی تھی۔ بس میں آپ کو لوٹانے کا موقع نہیں ملا اس لیۓ آپ کے پیچھے چلا آیا۔
لڑکی: آپ کا بہت بہت شکریہ۔
ساحر: شکریے کی کوئی بات نہیں۔ میں چلتا ہوں۔
(ساحر واپس چل پڑتا ہے۔ لڑکی بھی اپنی راہ لیتی ہے)
سترھواں منظر
دن کا وقت۔ طلحہ اور ثانیہ کی یونیورسٹی۔
یونیورسٹی کی کسی راہ داری یا لان میں طلحہ اور ثانیہ چہل قدمی کر رہے ہیں۔ ان سے کچھ فاصلے پر اردگرد مختلف جگہوں پر دیگر بہت سے طلبہ و طالبات گھومتے پھرتے اور ٹولیوں میں بیٹھے گپیں لڑاتے ہوۓ نظر آرہے ہیں۔
طلحہ: آج میرے بڑے بھائی کے لیۓ گھر والے لڑکی دیکھنے جا رہے تھے مجھے بھی ساتھ چلنے کو بول رہے تھے لیکن میں یونیورسٹی چلا آیا۔ قسم سے ثانیہ! مجھے تو یہ لڑکی دیکھنے کا رواج یا رسم بڑا بےہودہ اور گھٹیا لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے لڑکی نہیں کوئی چیز ہے، کوئی کموڈٹی
(commodity)ہے
جسے آپ مارکیٹ سے خریدنے جاتے ہیں۔ جیسے کوئی گاڑی بھیڑ بکری خریدنے بازار جاتے ہیں بالکل اسی طرح ہم لڑکی دیکھنے جاتے ہیں۔ پہلے اس کا اچھی طرح معائنہ کرتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ گاڑی کے فنکشنز سب درست کام کر رہیں، بھیڑ بکری کے دانت وانت سب ٹھیک جگہ پر ہیں پھر اگر پسند نہیں آۓ تو اگلی دکان پر چل پڑتے ہیں۔
ثانیہ: تو اگر تمہاری بیٹی ہوئی اور اسے کوئی اس طرح دیکھنے آۓ تو کیا کرو گے؟
طلحہ: میری بیٹی ہوئی تو میں کبھی نہیں چاہوں گا اسے کوئی اس طرح دیکھنے آۓ۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں اس طرح ہم بیٹی کو بیاہتے نہیں اسے فروخت کرتے ہیں، اسے بیچتے ہیں۔ جیسے کوئی گاہک سودا پسند کرنے جاتا ہے اگر اسے سودا پسند آجاتا ہے اور ڈیل مکمل ہو جاتی ہے تو وہ مقررہ تاریخ کو آکر اپنا سودا لے جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی بیہودگی ہے جو صدیوں سے ہمارے سماج کا حصہ چلے آرہی ہے۔ اور افسوس ناک بات یہ ہے ہم اسے مشرقی اقدار اور اپنی اعلیٰ روایات قرار دے کر اس پر فخر کرتے اور اتراتے پھرتے ہیں۔ یہ بات ہے تو بڑی تلخ آسانی سے ہضم ہونے والی نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی سچ ہے۔ اس قسم کی پرانی رسومات اور رواجوں سے جو ابھی تک چلی آرہی ہیں مجھے سخت نفرت ہے۔ اسی لیۓ تاریخ مجھے پسند نہیں کیونکہ وہ بھی پرانی باتوں پر زور دیتی پھرتی ہے۔
ثانیہ: اے ہے۔۔۔تاریخ بیچ میں کہاں سے آگئ۔ تاریخ کا مضمون پرانی باتوں یا گزرے ہوۓ زمانے کو اپنانے کا نہیں کہتا بلکہ تاریخ کا علم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہم سے پہلے جو لوگ، جو قومیں جو معاشرے یا جو انسان گزر چکے ہیں وہ اپنی زندگی کیسے بسر کرتے تھے۔ ان کا رہن سہن، رسوم و رواج، معاشرت، بودوباش، چال چلن کیسا تھا۔ ان میں سے جو ہمیں اچھا لگے اور آج کے دور میں ممکن بھی ہو ہم اپنا سکتے ہیں۔
طلحہ: بس شروع ہو گئ اپنی پسند کے مضمون کی تعریفیں کرنے۔
ثانیہ: اپنی پسند کی تو ہر کوئی تعریف کرتا ہے لیکن یہ بالکل سچی اور صحیح تعریف ہے۔
طلحہ: اچھا جی! چلو آؤ تمہیں کچھ کھلاؤں نہیں تو بک بک کرتی رہو گی۔
ثانیہ: ہاں یہ ہوئی نا بات۔
(دونوں ایک طرف کو چل پڑتے ہیں)
طلحہ: (جاتے ہوۓ) ویسے لگتا ہے مجھے تمہارے مضمون میں دلچسپی لینی پڑے گی۔
ثانیہ: (اس کے ساتھ جاتے ہوۓ) ہاۓ میں تو خوشی سے مر جاؤں گی۔
اٹھارواں منظر
دن کا وقت۔ ساحر اور طلحہ کا کمرا یا اپارٹمنٹ۔
سپہر کا وقت ہے۔ ساحر چھت پر کھڑا ہے۔ اس کا رخ اس لڑکی کے گھر کی طرف ہے اس کے پیچھے کوٹھیوں کے اوپر سے غروب ہوتا ہوا سورج دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی آخری کرنیں مکانوں کی چھتوں پر پڑ رہی ہیں۔ چند لمحوں بعد کھڑکی کھلتی ہے اور ساحر کو وہ لڑکی دکھائی دیتی ہے۔ اس لڑکی کی نظر ساحر پر پڑتی ہے ساحر جھینپ جاتا ہے اور فوراً رخ دوسری طرف موڑ لیتا ہے۔ وہ لڑکی ہنس پڑتی ہے۔ ساحر دوبارہ رخ اس کی جانب پھیرتا ہے۔ وہ لڑکی مسکرا کر اسے دیکھتی ہے۔ پھر چلی جاتی ہے۔ ساحر خوش ہوتا ہے اور مسکراتا ہوا نیچے چلا جاتا ہے۔
انیسواں منظر
دن کا وقت۔ ساحر اور طلحہ کا کمرا۔
کمرے میں اس وقت ساحر، طلحہ اور شاداب تینوں موجود ہیں۔ ساحر اور شاداب سگریٹ پی رہے ہیں جبکہ طلحہ اپنے کپڑے استری کرنے میں مصروف ہے۔
طلحہ: (کام کرتے ہوۓ) میرا خیال ہے اب تمہیں اس لڑکی سے بات کرنی چاہیۓ۔
ساحر: کیا بات کروں۔
طلحہ: اسے اپنا مدعا بتاؤ اور کیا۔
ساحر: (کش لگا کر) یار ہمت کہاں سے لاؤں؟
شاداب: (سگریٹ کا آخری کش لگا کر سگریٹ ایش ٹرے میں بجھا کر) اس میں ہمت کی کیا بات ہے وہی کہو جو بالکل سچ ہے۔ لڑکے تو اکثر جھوٹ بول کر لڑکیوں کو جعلی محبت کے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ انہیں غلط بیانی کرنے کی ہمت ہو جاتی ہے اور تم ہو کہ سچ کہنے سے ڈر رہے ہو۔ تمہاری تو کسی بات اور کسی جذبے میں ذرا بھی فریب نہیں تم تو جو کہو گے بالکل سچ کہو گے۔ پھر تم کیوں ڈر رہے ہو۔
ساحر: نہیں یار یہ کہنا بڑا آسان لگتا ہے پر ہے بڑا مشکل۔ پہلے میں نے بہت کچھ سوچا ہوتا ہے۔ اسے یہ کہوں گا وہ کہوں گا پر جب اس کے سامنے جاتا ہوں ساری باتیں بھول جاتی ہیں۔
طلحہ: ہوتا ہے یارا ایسا ہی ہوتا ہے مگر تم ہمت کرکے بات تو کرو۔ اور بالکل سیدھی بات کرو کسی اور چکر میں پڑنے کی بجاۓ اسے سیدھی طرح بتاؤ تم کیا چاہتے ہو اور تمہارا ارادہ کیا ہے۔
شاداب: اور اگر پھر بھی بات نہ بنی تو میں ایک رسی لادوں گا اس پنکھے سے باندھنا اور لٹک کر شہید ہو جانا۔
(طلحہ ہنستا ہے)
ساحر: (ہلکا سا ہنس کر) چھوڑ یار ادھر میری جان پر بنی ہے اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے۔
(سگریٹ کا کش لگاتا ہے اور کسی گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہے)
بیسواں منظر
دن کا وقت۔ سڑک۔
بارش ہو رہی ہے بس اسٹاپ پر ساحر اور وہ لڑکی کھڑے ہیں۔ اس وقت وہاں ان دونوں کے سوا اور کوئی نہیں۔
ساحر: میں آپ سے صرف ایک بات کرنا چاہتا ہوں اور کچھ نہیں۔
لڑکی: آپ سڑک پر کھڑے ہو کر کیا بات کرنا چاہتے ہیں؟
ساحر: میں جانتا ہوں سڑک پر کھڑے ہو کر بات کرنا مناسب نہیں لیکن اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔
لڑکی: تو پھر جلدی سے کریں جو بات بھی آپ نے کرنی ہے۔
ساحر: بات یوں ہے۔۔۔ میں آپ سے گھما پھرا کر کچھ بھی نہیں کہوں گا نہ کسی اور بکھیڑے میں پڑنے کے لیۓ آپ کو بولوں گا۔ میں بس یہ کہنا چاہتا ہوں جس دن میں نے آپ کو دیکھا تھا اسی وقت میں نے سوچ لیا تھا اور اسی وقت ارادہ کر لیا تھا کہ مجھے اسی لڑکی سے شادی کرنی ہے۔ (ثانیہ خیرت سے اس کی طرف دیکھتی ہے) جی ہاں آپ کو یہ سب بڑا عجیب لگ رہا ہو گا۔ کسی کو یوں ایک دم اس طرح کہہ دینا بڑی عجیب بات ہے لیکن میرا خیال ہے یہ انداز سب سے بہتر ہے۔
لڑکی: کہہ دیا آپ نے جو کہنا تھا۔ اب بہتر یہی ہے آپ خاموش ہو جائیں اور یہاں سے چلے جائیں۔ بات کرنے سے پہلے آپ نے سوچا بھی تھا کہ آپ کیا کہنے جارہے ہیں۔ آپ ایک انجان لڑکی کو جسے آپ ٹھیک طرح سے جانتے بھی نہیں اور شاید آپ کو ابھی تک اس کا نام بھی نہیں پتا آپ اسے سڑک پر کھڑے ہو کر شادی کا پرپوزل دے رہے ہیں۔
ساحر: نام تو میں آپ کا جانتا ہوں آپ کی وہ کتاب جو آپ اس بس سٹاپ پر بھول گئ تھیں اس پر آپ کا نام لکھا ہوا تھا۔ سائرہ نام ہے نا آپ کا؟ اور اس کے علاوہ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں اور یہاں اپنی ایک دوست کے ساتھ رہتی ہیں۔ یونورسٹی کے بعد جاب پر بھی جاتی ہیں ابھی آپ وہیں جا رہی ہیں۔
لڑکی: بس؟ آپ سمجھتے ہیں شادی کے لیۓ اتنا جاننا کافی ہے؟
ساحر: نہیں۔ آپ کو لگتا ہے میں آپ کو بس اتنا سا جانتا ہوں اور آپ کی صرف شکل دیکھ کر میں نے آپ سے شادی کا فیصلہ کیا ہے؟ ایسی بات نہیں۔ میں آپ کی اس خوبی کے بارے میں جانتا ہوں جو شاید آپ خود بھی نہیں جانتی۔
لڑکی: اچھا وہ کیسے آپ مجھ سے کبھی ملے نہیں بس دور سے دیکھا ہے اور آپ میری خوبیوں کو بھی جان گۓ۔
ساحر: آپ کی وہ خوبی تو آپ کی شخصیت میں جھلکتی ہے دیکھنے سے ہی پتہ چل جاتا ہے۔
لڑکی: ایسی کیا خوبی ہے مجھ میں جسے جان کر آپ نے مجھ سے شادی کا فیصلہ کر ڈالا۔
ساحر: وہ یہ کہ خوبصورت ہونے کے علاوہ آپ میں یہ خوبی ہے کہ آپ ایک عام سی سیدھی سادی لڑکی ہیں بالکل میری طرح میں بھی ایک عام سا سیدھا سادہ لڑکا ہوں۔
لڑکی: یہ خوبی ہے؟ لوگ تو اسے خوبی نہیں سمجھتے۔
ساحر: لوگ نہ سمجھیں لیکن میری نظر میں تو یہ بہت بڑی خوبی ہے۔
(ایک آدمی اسٹاپ پر آتا ہے۔ دونوں جلدی سے دور ہٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسے ظاہر کرتے ہیں جیسے ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔ بس آکر رکتی ہے وہ آدمی اور لڑکی دونوں بس میں سوار ہو جاتے ہیں۔ بس میں بیٹھ کر لڑکی کھڑکی میں سے اک نظر ساحر کو دیکھتی ہے پھر بس چل پڑتی ہے)
اکیسواں منظر
دن کا وقت۔ ثانیہ کا گھر۔
ثانیہ کا والد امجد فاروق اور اس کا دوست انصاری کمرے میں موجود ہیں۔ ان کے پاس ایک مہمان آدمی بیٹھا ہے۔ تینوں ہلکے پھلکے انداز میں باتیں کر رہیں۔
آدمی: فاروق صاحب آپ نے بہت سے دوسرے شعبوں پر تنقید کی ہے آپ کی باتیں بجا پر خود سائنس کے بارے میں آپ کا خیال ہے؟
فاروق: نیاز صاحب اس دور میں مسابقت کی جو فضا بن چکی ہے مقابلے بازی کا جو ماحول بنا دیا گیا ہے وہ نہایت افسوس ناک ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی فکر میں ہے ہر کوئی چاہتا ہے وہ دوسرے کو پچھاڑ کر آگے بڑھ جاۓ۔ اس ماحول سے یقیناً سائنس اور دیگر علوم بھی متاثر ہوۓ ہیں۔ اب لوگ علم اس لیۓ حاصل نہیں کرتے کہ اس سے اپنی اور دوسرے انسانوں کی فکری اور مادی زندگی میں بہتری اور بھلائی کے آثار پیدا ہوں گے بلکہ لوگ اس لیۓ علم سیکھتے ہیں تاکہ وہ دوسروں کو پچھاڑ سکیں۔ وہ علم کی طاقت سے دوسروں کو زیر کر سکیں۔ یہ معاملہ افراد تک محدود رہتا تو پھر بھی شاید کسی حد تک قابلِ قبول ہوتا لیکن شرمناک اور خطرناک بات یہ ہے کہ یہ رویہ قوموں اور ریاستوں تک میں پایا جاتا ہے۔ ہر قوم دوسری قوم سے سبقت لے جانے کی فکر میں ہے۔
انصاری: کیا ہی اچھا ہو اگر سب لوگ مادی اسباب کی بجاۓ نیکی، بھلائی، سچائی اور ایمانداری میں سبقت لے جانے کی جدوجہد کریں۔ یہاں کبھی کسی نے مقابلے بازی کی کوشش نہیں کی۔ اس میدان میں کبھی کوئی کھیل دیکھنے کو نہیں ملا۔ یہاں کبھی کسی کا میچ نہیں پڑا۔ کیا ہی اچھا ہو اگر تمام علوم اور فنونِ عالیہ کا مقصد صرف مادی اور ذاتی منفعت کے حصول کی بجاۓ مجموعی نسلِ انسانی کی اصلاح اور فلاح ہو جاۓ۔ان علوم و فنون کی سمت تبدیل ہو جاۓ۔ سائنس اور آرٹ کا رخ مادیت سے روحانیت کی جانب مڑ جاۓ۔
فاروق: معلوم نہیں انصاری صاحب ایسا کبھی ہو گا کہ نہیں۔ لیکن امید رکھنی چاہیۓ شاید کبھی یہ خواب پورا ہو جاۓ۔ ہماری زندگیوں میں نہ ہو تو ہمارے بعد ہو جاۓ۔
آدمی: اچھا فاروق صاحب انصاری صاحب مجھے اجازت دیجیۓ۔
فاروق: اتنی کیا جلدی ہے کچھ دیر بیٹھیۓ۔
آدمی: نہیں مجھے ذرا ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔
انصاری: کیوں خیریت ہے۔ کیا ہو گیا؟
آدمی: وہ پچھلے کچھ عرصے سے نظر کا تھوڑا مسئلہ بنا ہوا ہے تو میں نے سوچا دکھا لینا چاہیۓ بات زیادہ نہ بگڑ جاۓ۔ شاید عینک کا نمبر تبدیل ہونے والا ہو۔
فاروق: ہاں یہ ہو سکتا ہے۔ چلیں پھر تو آپ کو نہیں روکا جا سکتا۔ لیکن کسی دن دوبارہ چکر لگائیے گا جب تک میں یہاں ہوں ایک بار اور ملاقات ہو جاۓ گی۔
آدمی: ہاں ضرور کیوں نہیں۔ کب تک ہیں آپ یہاں پر؟
فاروق: ابھی تقریباً دو تین ہفتے تک تو ہوں۔
آدمی: (اٹھتے ہوۓ) ٹھیک ہے میں چلتا ہوں پھر کسی دن آؤں گا۔
بائیسواں منظر
رات کا وقت۔ ساحر کا کمرا۔
ساحر کمرے میں اکیلا کھڑکی کے پاس کھڑا ہے اور کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہے۔ ریڈیو پر گانا بج رہا ہے۔
آپ آۓ تو خیالِ دلِ ناشاد آیا۔۔۔
گانا کچھ دیر تک بجتا ہے پھر طلحہ اندر آتا ہے۔
طلحہ: (اردگرد تلاش کرتے ہوۓ) یار میرے موزے کہاں ہیں صبح تم نے رکھے تھے۔
(ساحر اس کی بات پر دھیان نہیں دیتا۔ جیسے اس نے بات سنی ہی نہیں)
طلحہ: کہاں کھوۓ ہو میری بات سن رہے ہو؟
(وہ ابھی بھی دھیان نہیں دیتا)
طلحہ: تم ایسے نہیں سنو گے۔
(آگے بڑھتا ہے اور ریڈیو بند کر دیتا ہے۔ ساحر اسی انداز میں کھڑا رہتا ہے)
طلحہ: (خیرت سے) یہ کیا یہ تو ابھی بھی نہیں بولا۔ (اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر) کس دنیا میں ہو بھائی جان!
(ساحر اس کی طرف مڑتا ہے)
طلحہ: آجاؤ جناب واپس ہماری دنیا میں آجاؤ۔
ساحر: (چل کر بستر پر بیٹھ جاتا ہے) کیا کروں تمہاری دنیا میں آکر۔ تمہاری دنیا میں رکھا کیا ہے۔ نہیں چاہیۓ مجھے تمہاری دنیا۔
طلحہ: کیوں ہماری دنیا سے آپ کو کیا تکلیف ہے؟ اس نے آپ کا کیا بگاڑا ہے؟
ساحر: (شعر پڑھتا ہے)
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
طلحہ: پھر سے ساحر لدھیانوی کو بیچ میں لے آۓ۔ جناب اپنے لدھیانوی صاحب کو معذرت کرکے کچھ دیر خاموش کروائیے اور مجھے بتایۓ میرے موزے کہاں رکھے ہیں۔
ساحر: (لاپرواہی سے) مجھے کیا پتہ یہیں کہیں ہوں گے ڈھونڈ لو۔
طلحہ: یار میں نے اس وقت تمہیں پکڑاۓ تھے کہ انہیں صوفے پر رکھ دینا۔
ساحر: (سگریٹ سلگا کر) تو یہیں رکھے ہوں گے دیکھ لو۔
طلحہ: رکھے ہوں گے کا کیا مطلب۔ یعنی تمہیں یاد بھی نہیں کہ تم نے رکھے تھے کہ نہیں۔
ساحر: (آہ بھر کر) مجھے تو آج کل کچھ بھی یاد نہیں۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں میں کون ہوں، کیا ہوں۔
طلحہ: آپ وہ ایک عدد خیوانِ ناطق ہیں جس نے انتہائی قیمتی موزوں کا جوڑا کہیں رکھ کر چپ سادھ لی ہے۔
ساحر: مجھے لگتا ہے میں کوئی دروازہ ہوں، یا کوئی میز ہوں یا شاید ایک کرسی ہوں۔
طلحہ: یہ تینوں بڑی اعلیٰ چیزیں ہیں میز کرسی بننے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن میرا ذاتی خیال ہے میز بننا زیادہ بہتر ہے کیونکہ کرسی ایک ایسی چیز ہے جس پر انسان اپنا سارا وزن ڈال کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر اٹھنے کا نام نہیں لیتا۔ رہا دروازہ تو دروازے کا جو بار بار کھلنے اور بند ہونے کا فعل ہے اس پر بہت سے اعتراضات اٹھ سکتے ہیں۔ فتویٰ بھی صادر ہو سکتا ہے۔
ساحر: (اپنی دھن میں) مجھے لگتا ہے مجھے اپنی خود کی تلاش میں نکلنا چاہیۓ۔
طلحہ: یہ اچھا ہے پر خود کی تلاش سے پہلے میرے موزے تلاش کرنے زیادہ ضروری ہیں۔
ساحر: لیکن خود کو تلاش میں کروں گا کہاں؟
طلحہ: وہیں جہاں میرے موزے ہیں۔
(شاداب اندر آتا ہے)
شاداب: کون کس کو تلاش کر رہا ہے؟
طلحہ: میں میرے موزوں کو اور یہ جناب اپنے آپ کو۔
(ساحر اٹھ کر دوبارہ کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو حاتا ہے)
ساحر: (کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوۓ) ہم سب کسی نہ کسی کو تلاش کر رہے ہیں۔
شاداب: یہ ٹھیک کہا۔ سب متلاشی ہیں۔ ہر کسی کا کچھ نہ کچھ کھو گیا ہے جسے وہ ڈھونڈ رہا ہے۔
تئیسواں منظر
دن کا وقت۔ سڑک
بس اسٹاپ پر ساحر کھڑا سائرہ کا انتظار کر رہا ہے۔ بس اسٹاپ پر اس وقت اور کوئی نہیں۔ سائرہ سڑک کے دوسری طرف سے اسے آتی ہوئی دکھائی دے جاتی ہے۔ وہ بھی اسے دور ہی سے دیکھ لیتی ہے۔ قریب پہنچتی ہے اور ایک کونے میں جا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ ساحر کھسک کر اس کے پاس جاتا ہے۔
سائرہ: آپ پھر آگۓ۔ آپ کو پتہ ہے سڑک پر اس طرح بات کرنا ٹھیک نہیں۔
ساحر: میں بس آپ کے جواب کا منتظر ہوں۔
سائرہ: آپ پاگل ہیں اتنے بڑے فیصلے کوئی سڑک پر کھڑے ہو کر کرتا ہے۔
ساحر: میں آپ کو سڑک پر کھڑے ہو کر فیصلہ کرنے کے لیۓ تو نہیں بول رہا یہاں تو میں آپ سے صرف بات کر رہا ہوں۔ میرا خیال ہے اپنی شادی کا پیغام پہنچانے کا حق تو مجھے حاصل ہے۔
سائرہ: لیکن میں رضا مند نہیں ہوں۔ انکار کا حق مجھے بھی حاصل ہے۔
ساحر: آپ کیوں رضا مند نہیں ہیں اس کی کوئی وجہ؟
سائرہ: وجہ بتانا میں ضروری نہیں سمجھتی۔
ساحر: یہ کیا بات ہوئی؟ دیکھیۓ آپ کو کہیں نہ کہیں تو شادی کرنی ہے۔ اگر آپ کو انکار ہے تو آپ کو معقول وجہ بتانی ہو گی۔
سائرہ: وجہ یہ کہ آپ مجھے جانتے ہوں گے لیکن میں آپ کو بالکل بھی نہیں جانتی۔
ساحر: اس میں کیا ہے آپ جس وقت جو کچھ بھی میرے بارے میں جاننا چاہتی ہیں جان سکتی ہیں۔ میں حاضر ہوں۔
سائرہ: دیکھیۓ آپ بات کو سمجھ نہیں
رہے۔ میں اب آپ کو کیسے سمجھاؤں۔۔۔
(چند لمحے خاموش ہوتی ہے پھر بولتی ہے)
اچھا ٹھیک ہے میں آپ کو سچ سچ بتاؤں گی لیکن شرط یہ ہے کہ آپ پھر دوبارہ مجھے تنگ نہیں کریں گے۔
ساحر: وہ تو وجہ جان کر ہی پتہ چلے گا۔
سائرہ: نہیں پہلے آپ وعدہ کریں۔
ساحر: کس بات کا وعدہ کروں۔ میں آپ کو تنگ تو نہیں کر رہا بس آپ سے انکار کی وجہ پوچھ رہا ہوں اگر وجہ معقول اور مناسب ہوئی تو اسے قبول کر لوں گا۔
سائرہ: ٹھیک ہے۔ بات یوں ہے ایسا نہیں کہ مجھے آپ سے شادی سے انکار ہے آپ مجھے اچھے انسان لگے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں ابھی کسی سے بھی شادی نہیں کر سکتی۔ اس کی وجہ میرا گھر اور میری فیملی ہے۔ مجھے آپ کا تو نہیں پتہ کہ آپ کا کیا سٹیٹس ہے لیکن میں ایک لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہوں۔ میرے والد کی اتنی زیادہ آمدن نہیں کہ وہ اکیلے پورے کنبے کے اخراجات پورے کر سکیں اسی لیۓ میں پڑھائی کے ساتھ ملازمت کرتی ہوں تاکہ اپنی پڑھائی کے خرچے بھی پورے کروں اور ساتھ فیملی کو بھی سپورٹ کر سکوں۔ آپ یقین کریں میرا گھر میری جاب سے چلتا ہے۔ میں شادی کرکے گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی تو پیچھے سے میرے گھر والوں کا کیا بنے گا۔ (سائرہ دوبارہ خاموش ہو جاتی ہے۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد دوبارہ بولتی ہے) امید کرتی ہوں آپ کو بات سمجھ آگئ ہو گی اور آئندہ میرے پیچھے یہاں نہیں آئیں گے۔
(ساحر کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن بس آکر اسٹاپ پر رکتی ہے۔ چند مسافر اترتے ہیں۔ سائرہ بس پر سوار ہو جاتی ہے۔ ساحر اسے کھڑا ہو کر دیکھتا رہتا ہے۔ سائرہ بھی اسے بس میں بیٹھ کر بس چلنے تک دیکھتی رہتی ہے۔ پھر بس چل پڑتی ہے۔)
چوبیسواں منظر
دن کا وقت۔ ساحر کا کمرا۔
کمرے میں اس وقت ساحر، شاداب اور طلحہ تنیوں موجود ہیں۔ کمرے میں مکمل خاموشی ہے۔ ساحر کھڑکی کے ساتھ لگ کر کھڑا ہے اور باہر دیکھ رہا ہے۔ وہ دونوں خاموشی سے یوں بیٹھے ہیں جیسے کسی بات پر غور کر رہے ہوں۔
شاداب: تو بات اتنی ہے کہ وہ صرف اپنی گھریلو زندگی اور حالات کی وجہ سے انکار کر رہی ہے۔ لیکن یار بات تو اس کی درست ہے یہ مسئلہ تو واقعی کافی گھمبیر ہے۔ اور تم خود بھی کوئی بادشاہ سلامت نہیں اور نہ ہی کسی بزنس ٹائیکون کی اولاد ہو جو اس کے لیۓ کچھ کر سکو۔
ساحر: وہ بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن اگر میں اس کی مدد کر سکتا بھی تو بھی شاید وہ میری مدد نہ لیتی۔ اور پھر اس کے باوجود وہ شادی کے لیۓ ہاں تو نہیں کرے گی کیونکہ اسے مستقل طور پر اپنی فیملی کو سپورٹ کرنا ہے۔
شاداب: ہاں یہ بات بھی ہے۔ تو پھر سمجھو وہ تمہارے مقدر میں نہیں ہے۔ (طلحہ کی طرف دیکھ کر) تم کیا کہتے ہو؟
طلحہ: میرے پاس اس مسئلے کا ایک حل ہے۔
شاداب: کیا؟
(طلحہ اٹھتا ہے اور میز پر پڑی ہوئی کیتلی میں سے چاۓ کپ میں ڈالتا ہے۔ ایک گھونٹ بھرتا ہے اور بولتا ہے)
طلحہ: حل بڑا سیدھا ہے۔ لیکن پہلے میں یہ کہوں گا (ساحر سے) تم ہر وقت ساحر کی شاعری پڑھتے رہتے ہو اور اس کے گیت سنتے رہتے ہو لیکن اس کا یہ گیت تمہیں یاد نہیں۔
ساحر: کون سا گیت؟
طلحہ: (گنگنا کر) تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے۔۔۔خود پہ بھروسہ ہے تو دھاؤ لگا لے۔۔۔یہ دھاؤ لگا لے۔
ساحر: تو کیا ہے تدبیر!۔۔۔ بتاؤ؟
طلحہ: وہ یہ کہ اگر وہ فیملی کو سپورٹ کرنا چاہتی ہے جیسے کہ ابھی کر رہی ہے تو اسے کرنے دو۔
ساحر: کیا مطلب؟
طلحہ: پہلے آرام سے بیٹھ جاؤ پھر بتاتا ہوں۔
(ساحر بد دلی سے بیٹھ جاتا ہے)
طلحہ: بات یہ ہے کہ تم ایک بار پھر اس سے ملو اور اس سے کہو۔۔۔
پچیسواں منظر
دن کا وقت۔ سڑک
بس اسٹاپ پر ساحر اور سائرہ دونوں کھڑے ہیں۔ وہاں اور کوئی نہیں۔
سائرہ: آپ پھر کیوں آگۓ آپ نے وعدہ بھی کیا تھا کہ آپ نہیں آئیں گے۔
ساحر: میں بس آپ سے آخری دفعہ ایک بات کرنے آیا ہوں۔
سائرہ: مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔
ساحر: دیکھیں میں نے آپ کی بات تحمل سے سنی تھی اور کہا تھا کہ اگر آپ کا عذر مناسب ہوا تو اسے اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لوں گا۔ اب میں بھی ایک بات کرنے آیا ہوں تو اصولاً آپ کو سننی چاہیۓ۔
سائرہ: اچھا ٹھیک ہے جلدی سے بتائیں؟
ساحر: پہلے آپ بھی وعدہ کریں آپ میری بات کا دیانتداری سے جائزہ لیں گی اور اگر میرا جواب مناسب نہ لگا تو اس کی کوئی معقول وجہ بتائیں گی۔
سائرہ: آپ پہلے بتائیں تو۔
ساحر: آپ نے کہا تھا آپ ایک لوئر مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہیں۔ تو میں آپ کو بتا دوں میرا تعلق بھی متوسط طبقے سے ہی ہے۔ اور یہ کہ آپ نے کہا تھا آپ شادی اس لیۓ نہیں کر سکتیں کیونکہ آپ کو اپنی فیملی کو سپورٹ کرنا ہے۔
سائرہ: جی۔
ساحر: اس کا میرے پاس ایک حل ہے اور بڑا سیدھا حل ہے۔
سائرہ: وہ کیا؟
ساحر: ابھی آپ اپنی فیملی کو سپورٹ کس طرح کر رہیں ہیں۔۔۔ ملازمت کرکے؟
سائرہ: ظاہر ہے۔
ساحر: تو یہ کام تو آپ شادی کے بعد بھی جاری رکھ سکتی ہیں۔ بلکہ اس سے زیادہ اچھی طرح کر سکتی ہیں۔ کیونکہ ابھی تو آپ اپنے خرچے خود اٹھاتی ہیں جو کہ شادی کے بعد ظاہر ہے میرے ذمے ہو جائیں گے۔ آپ جیسے ابھی گھر والوں کو سپورٹ کر رہی ہیں بالکل اسی طرح کرتے رہنا میں کوئی آپ سے آپ کی سیلری میں سے حصہ تو نہیں مانگ لوں گا۔ آپ کی اپنی کمائی ہے آپ کو حق ہے جہاں مرضی لگائیں۔ اور پھر شادی کے بعد آپ میری مدد بھی تو لے سکیں گی۔
سائرہ: ایسا نہیں ہوتا یہ کہنا آسان ہے کرنا بڑا مشکل ہے۔ جب میں دوسرے گھر چلی جاؤں گی تو اپنے گھر والوں کی دیکھ بھال کس طرح کر پاؤں گی۔
ساحر: ابھی بھی آپ اپنے گھر میں تو نہیں رہ رہیں۔ آپ تو یہاں اپنی دوست کے ساتھ رہتی ہیں۔ آپ کی فیملی تو دوسرے شہر میں ہے یہاں سے آپ ان کو سپورٹ کرتی ہیں۔
سائرہ: آپ بات کو کیوں نہیں سمجھتے ایسے نہیں ہوتا۔
ساحر: دیکھیۓ آپ نے کہا تھا بات معقول ہوئی تو قبول کر لوں گی۔
سائرہ: نہیں ایسے۔۔۔(سختی سے) آپ بس جائیں یہاں سے آپ کو بات سمجھ ہی نہیں آتی۔
ساحر: لیکن۔۔۔
(دو تین مسافر اسٹاپ پر آکر کھڑے ہوتے ہیں۔ سائرہ اور ساحر دونوں خاموش ہو جاتے ہیں۔ پھر بس آکر رکتی ہے سائرہ بیٹھ کر چلی جاتی ہے)
چھبیسواں منظر
دن کا وقت۔ طلحہ کی یونیورسٹی۔
طلحہ اور ثانیہ یونیورسٹی کیفٹیریا میں بیٹھے ہیں۔ کیفٹیریا میں اردگرد طلبہ کا کافی رش ہے۔ طلحہ موبائل کی سکرین پر نظریں جماۓ بیٹھا ہے۔
ثانیہ: طلحہ!
طلحہ: ہونہہ۔
ثانیہ: میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔
طلحہ: (موبائل سے نظریں ہٹاۓ بغیر) کیا؟
ثانیہ: میں یونیورسٹی کے بعد ملک سے باہر جا رہی ہوں۔
طلحہ: (موبائل چھوڑ کر) کیا کیا کہا؟
ثانیہ: ہاں۔ میں نے سوچ لیا ہے۔ ڈگری مکمل کرکے میں چلی جاؤں گی۔
طلحہ: لیکن کیوں پہلے تو تم جانا نہیں چاہتی تھی۔
ثانیہ: اس لیۓ کہ مجھے لگتا ہے ابا ٹھیک کہتے ہیں۔ مجھے آگے پڑھنا ہے یا جاب کرنی ہے جو بھی کرنا ہے وہاں جا کر کرنا چاہیۓ۔
طلحہ: تو جو یہاں ہیں ان کا کیا؟
ثانیہ: تم تو خود جانا چاہتے ہو۔ تمہارا بھی تو ڈگری کے بعد یہی پلان ہے۔
طلحہ: ہاں ہے لیکن اتنی جلدی بھی نہیں ابھی تو آخری سمیسٹر کے دو ماہ رہتے ہیں۔
ثانیہ: تو میں کون سا ابھی جارہی ہوں میں بھی آخری سمیسٹر مکمل کرکے جاؤں گی۔
طلحہ: لیکن مجھے وقت لگے گا ثانیہ! مجھے ابھی بہت سی تیاری کرنی ہے۔ میں کچھ عرصہ اپنے گھر میں جا کر رہنا چاہتا ہوں چار سال ہو گۓ ہیں مجھے اپنے گھر سے دور اس شہر میں رہتے ہوۓ۔
ثانیہ: تو میں کون سا یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد فوراً چلی جاؤں گی مجھے بھی اس کے بعد کافی وقت لگے گا۔
طلحہ: اچھا چلو پھر دیکھیں گے جب وقت آۓ گا۔ اتنی دیر تک ہماری منگنی بھی ہو جاۓ گی پھر کچھ پلان کر لیں گے۔ میری امی تو کہہ رہی تھیں ابھی منگنی کر لیتے ہیں میں نے کہا آپ لوگوں سے بات ہو گئ ہے اتنا کافی ہے منگنی ہم امتحان کے بعد کر لیں گے۔
ثانیہ: ٹھیک کہا تم نے ابھی اگر منگنی کریں تو منگنی کے فنکشن کی تیاری میں تقریباً دس پندرہ دن تو پکے گۓ۔ ایسے میں امتحان میں دن کتنے رہ جائیں گے۔ پہلے ہی ہماری تیاری بالکل نہیں۔
طلحہ: تمہاری تو پھر بھی ہو گی مجھے تو کچھ بھی نہیں آتا۔ میں تو دعا کر رہا ہوں یہ آخری سمیسٹر کسی طرح پار ہو جاۓ۔
(چند لڑکے لڑکیاں جو ان دونوں کے کلاس فیلوز اور دوست ہیں کیفٹیریا میں آتے ہیں۔)
ستائیسواں منظر
دن کا وقت۔ ساحر کا کمرا۔
ساحر چھت پر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہے۔ اس کا دھیان مکمل طور پر کھڑکی کی طرف ہے۔ وہ کھڑکی کھلنے کا انتظار کر رہا ہے۔ کافی دیر تک کھڑا رہتا ہے لیکن کھڑکی نہیں کھلتی۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہو جاتا ہے۔ پھر افسردہ سا نیچے چل پڑتا ہے۔
دن کا وقت۔ سڑک۔
ساحر بس اسٹاپ پر کھڑا ہے۔ یہاں بھی کافی دیر تک سائرہ کا انتظار کرتا ہے۔ بار بار گھڑی دیکھتا ہے۔ ادھر ادھر چکر لگاتا ہے۔ دو تین مسافر اسٹاپ پر آتے ہیں کچھ دیر ٹھہرتے ہیں پھر بس میں سوار ہو کر چلے جاتے ہیں۔ اگلی بس آتی ہے کچھ مسافر اترتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ جب بہت وقت گزر جاتا ہے تو مایوس ہو کر چل پڑتا ہے۔
اٹھائیسواں منظر
رات کا وقت۔ ساحر کا کمرا۔
ساحر کمرے میں اکیلا سر جھکاۓ بیٹھا ہے۔ طلحہ اندر آتا ہے۔ اندر آکر بستر پر بیٹھ کر جوتے کے تسمے کھولنے لگتا ہے تو اس کی نظر ساحر پر پڑتی ہے)
طلحہ: کیوں جناب کیوں منہ لٹکاۓ بیٹھے ہو؟
ساحر: کچھ نہیں۔
طلحہ: کچھ تو ہے۔
ساحر: (بیزاری سے) کہا نا کچھ نہیں۔
طلحہ: یہ تو ہو نہیں سکتا کچھ نہ کچھ تو ہے۔ اچھا اس کا کوئی جواب آیا؟
ساحر: (بیزاری سے) مجھے نہیں پتہ۔
طلحہ: اس کا مطلب ہے نہیں آیا اور کہیں اس کا کوئی پتہ چلا؟
(ساحر خاموش رہتا ہے)
طلحہ: اس کا مطلب ہے نہیں چلا۔۔۔یار پریشان نہ ہو یہیں ہو گی جانا اس نے کہاں ہے۔
ساحر: دو تین دن ہو گۓ ہیں اسے غائب ہوۓ ہوۓ۔ اس آخری ملاقات کے بعد نہ تو وہ چھت پر نظر آئی ہے اور نہ ہی بس سٹاپ پر آرہی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہیں چلی گئ ہے۔
طلحہ: کہاں جا سکتی ہے۔ جب جاب وہ یہاں کرتی ہے پڑھتی یہاں ہے تو جاۓ گی کہاں۔ ہو سکتا ہے اپنے گھر گئ ہو کچھ دن صبر کرو آجاۓ گی۔
(ساحر سر ہلا کر خاموش ہو جاتا ہے)
طلحہ: اور ایک بات اگر پھر بھی نظر نہ آئی تو کسی دن اس جگہ جا کر دیکھنا جہاں وہ رہتی ہے۔
ساحر: اس سے کیا ہوگا؟
طلحہ: شاید اس کے بارے میں کچھ پتہ چل جاۓ۔
(ساحر سر ہلا کر اشارے سے جواب دیتا ہے)
انتیسواں منظر
دن کا وقت۔ سڑک۔
ساحر ایک خالی سڑک پر چلتا ہوا جارہا ہے۔ چند قدم چل کر ایک جانب مڑ کر ایک گلی میں اتر جاتا ہے۔ گلی میں دونوں جانب کوٹھیاں ہیں وہ ایک ایک کو بڑے دھیان سے دیکھتا ہوا جاتا ہے۔ ایک مکان کے قریب آکر رکتا ہے اور اسے غور سے دیکھتا ہے۔ ایک طرف سے گلی میں چل کر دو لڑکیاں باتیں کرتی ہوئیں آتی ہیں اور مکان کے قریب آکر رک جاتی ہیں ساحر تھوڑا ہٹ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ ایک لڑکی اس گھر کی گھنٹی بجاتی ہے۔
پہلی لڑکی: تمہیں پکا یقین ہے یہاں جگہ مل جاۓ گی۔
دوسری لڑکی: ہاں یارا مجھے ہتہ ہے یہ مکان خالی ہے۔ وہ اپنی انگلش ڈیپارٹمنٹ کی سائیرہ نہیں؟ وہ اپنی کسی کلاس فیلو کے ساتھ پہلے یہاں رہتی تھی۔ ابھی چند دن ہوۓ ہیں وہ یہ گھر چھوڑ کر گئی ہیں۔ اس نے ہی مجھے بتایا ہے کہ اگر تم لوگ رہنا چاہتے ہو تو پتہ کر لو کافی اچھا مکان ہے اور ابھی خالی بھی ہو گا۔
پہلی لڑکی: اگر مکان اچھا تھا تو ان لوگوں نے کیوں چھوڑا؟
دوسری لڑکی: میں نے بھی پوچھا تھا لیکن اس نے کچھ ٹھیک طرح سے بتایا نہیں کہہ رہی تھی اس کا اپنا کوئی مسئلہ ہے لیکن جگہ بہت اچھی اور محفوظ ہے تم لوگوں کو پسند آۓ گی۔
پہلی لڑکی: چلو دیکھ لیتے ہیں۔ دوبارہ گھنٹی بجاؤ کوئی باہر نکل ہی نہیں رہا۔
(لڑکی دوبارہ گھنٹی بجاتی ہے۔ ساحر چند لمحے وہاں رک کر ان کی باتیں سنتا ہے پھر واپس چل پڑتا ہے۔ گلی سے نکل کر سڑک پر آتا ہے اور سر جھکاۓ ایک طرف کو چل پڑتا ہے)
بیسواں منظر
وہی وقت۔ بس اسٹاپ۔
ساحر چلتا ہوا آرہا ہے اور بس اسٹاپ کے قریب پہنچ کر رک جاتا ہے۔ بس اسٹاپ اس وقت خالی ہے اردگرد کوئی نہیں۔ ساحر کو سائیرہ کا خیال آتا ہے اور اسے وہ اسٹاپ پر کھڑی نظر آتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح وہ پہلے اسے وہاں کھڑے دیکھتا تھا۔ چند لمحے بعد وہاں ایک آدمی آتا ہے ساحر کا خیال ٹوٹ جاتا ہے اور سائیرہ غائب ہو جاتی ہے۔ وہ آگے چل پڑتا ہے)
اکیسواں منظر
دن کا وقت۔ ساحر کا کمرا یا اپارٹمنٹ
ساحر چھت پر منڈیر پر کہنیاں ٹکاۓ کھڑا ہے۔ کسی کسی وقت کھڑکی کی طرف بھی دیکھ لیتا ہے۔ کھڑکی مکمل طور پر بند ہے وہاں کوئی نہیں۔ اس پر ایک آواز اوورلیپ کرتی ہے اور یہ نظم کہی جاتی ہے۔
مری تری نگاہ میں
جو لاکھ انتظار ہیں
جو میرے تیرے تن بدن میں
لاکھ دل فگار ہیں
جو میرے تیرے شہر کی
ہر اک گلی میں
میرے تیرے نقش پا کے بے نشاں مزار ہیں
جو میری تیری رات کے
ستارے زخم زخم ہیں
جو میری تیری صبح کے
گلاب چاک چاک ہیں
یہ زخم سارے بے دوا
یہ چاک سارے بے رفو
کسی پہ راکھ چاند کی
کسی پہ اوس کا لہو
یہ ہے بھی یا نہیں، بتا
یہ ہے، کہ محض جال ہے
مرے تمہارے عنکبوت وہم کا بنا ہوا
جو ہے تو اس کا کیا کریں
نہیں ہے تو بھی کیا کریں
بتا، بتا،
بتا، بتا
Post a Comment
Thank you for your comment