Drizzling Of Love

Drizzling Of Love


  کردار

شیطان= اس کی شکل و صورت عام انسانوں جیسی نہیں۔ سر پر دو سینگ ہیں اور کان اور ناک بڑے بڑے ہیں۔ چہرا اور دانت بھی عجیب و غریب ہیں۔ شکل کچھ خوفناک ہے اور کچھ مضحکہ خیز جسے دیکھ کر ہنسی آۓ۔


جج۔ وکیل۔ ڈاکٹر۔ مذہبی عالم۔ اور چند دیگر افراد۔


منظر


کمرۂ عدالت میں کٹہرے میں شیطان ملزم کی خیثیت سے کھڑا ہے۔ کٹہرے کے باہر وکیل کھڑا ہے جو شیطان سے سوال و جواب کرتا ہے۔ جج اپنی مخصوص نشست پر بیٹھا ہے، کمرۂ عدالت لوگوں سے بڑا پڑا ہے بہت سے لوگ عدالت کی اس خصوصی کاروائی کو دیکھنے آۓ ہیں۔ 


سب سے پہلے وکیل دکھائی دیتا ہے جو جج سے مخاطب ہے۔ اس کے بعد جج اور حاضرین، اور جب وکیل اپنی بات ختم کرکے شیطان سے مخاطب ہوتا ہے تو شیطان کی صورت دکھائی دیتی یے۔




وکیل: (بلند آواز سے) مخترم جج صاحب! آج تک انسانی تاریخ میں ایسی انوکھی اور نرالی عدالتی کاروائی کبھی دیکھنے کو نہیں ملی جہاں ملزم کوئی انسان نہیں بلکہ وہ ہستی ہے جس پر دنیا بھر کے تقریباً سبھی انسانوں کو اعتراض ہے۔ اس ہستی پر انسانوں کی طرف سے بہت سنگین الزامات لگاۓ جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں انسان سے جتنے بھی برے فعل سرزد ہوتے ہیں جیسا کہ جھوٹ ،فریب، چوری، ڈکیتی، بدکاری، دنگہ، فساد، قتل و غارت گری، ذخیرہ اندوزی، غبن اور رشوت سب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے پیچھے اس ہستی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ آج ہم اس ہستی کو پکڑ کر عدالت تک لے آئیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ اپنے اوپر لگاۓ گۓ ان الزامات کا جواب دے۔ یہ مقدمہ اس لیۓ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں تمام لوگوں کی ذاتی دلچسپی ہے ہر انسان اس کو اپنا مجرم سمجھتا ہے، لہذا میری عدالت سے درخواست ہے مجھے دنیا کے اس انوکھے اور خصوصی مقدمے کی کاروائی کو شروع کرنے کی اجازت دی جاۓ۔


جج: اجازت ہے۔


وکیل: شکریہ جج صاحب۔ ایک بات اور۔۔۔ اس ہستی کے یوں تو کئ نام ہیں مختلف جگہوں پر اسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے لیکن ایک نام ایسا ہے جو سب میں عام اور مشترک ہے اور تقریباً ہر جگہ بولا جاتا ہے۔ اس لیۓ پورے مقدے کے دوران ہم اسے اسی نام سے مخاطب کریں گے۔


جج: ٹھیک ہے کاروائی شروع کی جاۓ۔


وکیل: جی تو شیطان صاحب مقدمہ شروع کرنے سے پہلے میں آپ سے پھر کہوں گا اگر آپ اپنا وکیل کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں۔


شیطان: نہیں اس کی ضروت نہیں میں اپنا کیس خود لڑوں گا۔


وکیل: ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی۔ تو بتایۓ کیا حال چال ہیں آپ کے؟ 


شیطان: بالکل ٹھیک ٹھاک بہت خوش باش۔


وکیل: خیرت کی بات ہے آپ پر اتنے سنگین الزامات ہیں اور آپ پھر بھی خوش ہیں؟


شیطان: (عجیب و غریب طریقے سے ہنستا ہے) الزامات کی چھوڑو وکیل صاحب خوش باش میں کیوں نہ رہوں تم لوگ کوئی ایسا کام کرتے ہی نہیں جس سے مجھے مایوسی ہو۔ تم لوگ تو خود ہر وقت مجھے خوش کرنے کے چکر میں رہتے ہو۔


وکیل: لیکن ہمارا الزام تو یہ ہے کہ ہم جو بھی غلط کام کرتے ہیں اس کے پیچھے آپ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ آپ ہم سے ایسے کام کرواتے ہیں۔


شیطان: (ہنس کر) کیا وکیل تم بھی ان الزامات کے چکر میں پڑے ہو۔۔۔ چھوڑو ان کو یار!


وکیل: خبردار جو مجھے یار کہا تو! میں آپ کا یار بالکل نہیں ہوں۔


شیطان: کہتے سب اسی طرح ہیں پر اصل میں تو یاریاں مجھ سے ہی نبھاتے ہیں۔ تم نے بھی تو مجھ سے بہت سی یاریاں نبھائی ہیں کہو تو ایک دو کا ذکر کروں۔ ابھی پچھلے دنوں ایک مقدمے میں۔۔۔


وکیل: (گھبرا کر) میں نے؟۔۔۔ پچھلا مقدمہ؟۔۔۔(کھنگار کر) آپ میری بات چھوڑیں ابھی آپ پر مقدمہ چل رہا ہے تو آپ اپنے اوپر لگاۓ گۓ الزامات کا جواب دیں۔


شیطان: چل یار وکیل تمہارا ذکر نہیں کرتا پوچھو کیا پوچھنا ہے۔


وکیل: پھر یار۔۔۔! پہلے آپ مجھے یار کہنا بند کریں۔


شیطان: اچھا نہیں کہتا ناراض کیوں ہوتے ہو۔ تم سوال پوچھو۔


وکیل: سب سے پہلے آپ یہ بتائیں آپ نے ہم انسانوں کو سجدہ کرنے سے کیوں انکار کیا تھا؟


شیطان: غلطی ہو گئ باس۔


وکیل: اچھا تو آپ تسلیم کرتے ہیں آپ سے غلطی ہوئی؟


شیطان: ہاں تسلیم کرتا ہوں۔


وکیل:  آپ کو اس کا افسوس ہے؟


شیطان: ہاں تھوڑا بہت افسوس تو ہے۔


وکیل: اس پر کوئی ندامت؟


شیطان: نہیں ندامت تو نہیں بس تھوڑا افسوس ہے۔ وہ اس لیۓ کہ اگر مجھے تم لوگوں کی خرکتوں کا پہلے علم ہو جاتا تو کبھی انکار نہ کرتا، خدا مجھے تم لوگوں کا ڈیمو پہلے دکھا دیتا تو معماملہ کچھ اور ہو سکتا تھا۔ اگر مجھے تم لوگوں کی صلاخیتوں کے بارے میں اس وقت پتہ چل جاتا تو انکار کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی، اب جب میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ خدا کے خلاف جاکر کیسے کیسے اقدامات کرتے ہو تو قسم سے میرا دل کرتا ہے تم لوگوں کو سجدہ کر ڈالوں مگر اب کیا فائدہ اب تو وقت گزر چکا ہے۔ 


وکیل: کیا مطلب ہے آپ کا آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟


شیطان: مطلب یہ کہ میں نے کبھی سوچا نہیں تھا تم لوگ اس طرح کے نکلو گے میں تو خواہ مخواہ تم سے حسد میں مبتلا ہو کر انکار کر بیٹھا تھا۔ 


وکیل: حسد میں مبتلا ہو کر، کیا مطلب؟


شیطان: بس یار میں سمجھا تھا تم لوگ پتہ نہیں کیا توپ چیز ہو گے جو مجھے تم لوگوں کو سجدہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ مگر جب بعد میں میں نے تم لوگوں کی خرکتیں دیکھیں تو تم لوگ تو مجھے اپنے ہی بھائی لگے۔


وکیل: آپ کا کہنا ہے ہماری خرکتیں درست نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے آپ ہم سے ایسے کام کرواتے ہیں۔


شیطان: (احمقانہ طریقے سے ہنستا ہے) چھوڑو وکیل یہ بات تو رہنے ہی دو۔ قسم خدا کی جیسے کام تم لوگ کرتے ہو میرے تو ذہن میں بھی نہیں ہوتے۔ میں تو خود خیران رہ جاتا ہوں تم لوگ ایسے 'آئیڈیاز' لاتے کہاں سے ہو، چالاکی اور ہشیاری و فریب کاری میں تو تم لوگ مجھے بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہو۔  


وکیل:  تو کیا آپ ہمیں برائی کی ترغیب نہیں دیتے؟


شیطان: دیتا تو ہوں لیکن تم میں سے بہت سے لوگ ایسے اعلیٰ پاۓ کے کاریگر اور ایسے باہنر ہیں کہ بعض اوقات میں ان سے ٹرِکس سیکھتا ہوں۔ خاص کر تم لوگوں کے حکومتی عہدے داران اور صاحبانِ اقتدار سے تو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ وہ اپنی چکنی چوپڑی باتوں اور مکارانہ چالبازیوں سے جس طرح عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔


وکیل: آپ ہمیں بتائیں گے آپ کس طرح برائی کی ترغیب دیتے ہیں۔ آپ لوگوں کو بہکاتے اور بھٹکاتے کس طرح ہیں؟


شیطان: بہت سے طریقے ہیں مختلف لوگوں کے لیۓ مختلف طریقے استعمال کرتا ہوں۔


وکیل: کوئی ایک دو یہاں بتائیں گے؟


شیطان: چھوڑو اس کو جان کر کیا کرو گے۔ 


وکیل: یہ بہت ضروری ہے عدالت جاننا چاہے گی آپ یہ کام کرتے کس طرح ہیں اس سے عدالت کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی۔


شیطان: اچھا! تم کہتے ہو تو کچھ دکھا دیتا ہوں۔


(فوراً اپنا دایاں ہاتھ بلند کرتا ہے اور چٹکی بجاتا ہے جس کے ساتھ ہی وہ اڑ کر جج کے سامنے میز پر جا کھڑا ہوتا ہے۔ ہاتھ ہلاتا ہے تو میز پر ڈھیر سارے پیسوں کے بنڈل اور زیورات وغیرہ آجاتے ہیں۔ جج سحرزدہ سا انہیں دیکھنے لگتا ہے)


شیطان: کیا دیکھ رہے ہو؟ سوچ رہے ہو کاش یہ سب میرے ہوتے؟۔۔۔ مگر یہ تمہارے ہرگز نہیں ہو سکتے کیونکہ تم ایک انتہائی نکمے اور احمق قسم کے آدمی ہو، خدا کی یہ نعمتیں ذہین و فطین لوگوں کو ملتی ہیں بیوقوفوں سے دھن دولت روٹھ جاتی ہے۔ تم اپنے آپ کو بہت بڑا منصف سمجھتے ہو، اتنی بڑی عدالت کے اتنے بڑے عہدے پر فائز ہو مگر تم میں عقل نام کو نہیں۔ اپنے دیگر ساتھیوں کو دیکھو وہ بھی تمہارے ساتھ اسی عدالت میں بیٹھتے ہیں لیکن دیکھو انہیں وہ کہاں سے کہاں پہنچ گۓ، آج کیا نہیں ہے ان کے پاس اور ایک تم ہو تم ابھی تک وہیں کے وہیں ہو۔ (میز کے اوپر چلنے لگتا ہے)  میں تمہاری ساری زندگی سے واقف ہوں تم شروع سے ایسے ہو۔ جوانی میں بھی ایسے تھے اور اب بڑھاپے میں بھی بالکل ویسے کے ویسے ہو۔ تم ایک تھکے ہوۓ شکست خوردہ آدمی ہو جو زندگی کی بازی میں مکمل طور پر مات کھا چکا ہے۔ تمہارے جیسے لوگ زندگی کے کھیل میں کبھی جیت نہیں سکتے کیونکہ تم خود کو نہیں بدلتے اس لیۓ شکست ہمیشہ تمہارا مقدر بنی رہتی ہے۔ لیکن ابھی وقت ہے ابھی تم جیت سکتے ہو بس یہ انصاف کا گھنٹہ بجانا چھوڑ دو، یہ محبت و انسانیت کا ڈھنڈھورا پیٹنا بند کردو، یہ خلوص و مروت کے گیت گنگنانا ترک کر دو۔ پھر دیکھنا تمہاری ہار کیسے جیت میں تبدیل ہوتی ہے، کیسے دنیا جہان کی رعنائیاں اور رنگینیاں، کامیابیاں اور کامرانیاں تمہارا نصیب بنتی ہیں۔ لیکن۔۔۔(اس کے چہرے کے بالکل قریب آکر انگلی کے اشارے سے اسے خبردار کرتا ہے) یاد رکھنا اگر تم نے اس بار بھی یہ موقع گنوا دیا تو یہ آخری بار ہو گا اس کے بعد زندگی تمہیں کوئی موقع نہیں دے گی۔


(جج ہاتھ آگے بڑھا کر نوٹوں کو پکڑنے لگتا ہے۔ شیطان فوراً چٹکی بجاتا ہے اور دوبارہ کٹہرے میں واپس آجاتا ہے۔ جج کو ایک دم جھٹکا سا لگتا ہے جیسے وہ کسی سحر کے اثر سے باہر آیا ہو)


شیطان: (وکیل سے) اسی قسم کی ترکیبوں سے میں لوگوں کو اپنی جانب راغب کرتا ہوں۔


وکیل: تو آپ کو لگتا ہے اس قسم کی ترکیبوں سے لوگ راہِ راست سے بھٹک جاتے ہیں؟


شیطان: ابے یار تمہیں وکیل کس نے لگایا ہے۔ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟


وکیل: پھر یار! (جج سے) جج صاحب آپ انہیں کہیۓ کہ مجھے بار بار یار نہ کہیں۔


جج: (شیطان سے) عدالت آپ کو حکم دیتی ہے مقدمے کی کاروائی کے دوران زیادہ بے تکلفانہ پن کا اظہار مت کیجیۓ تاکہ مقدمے کی سنجیدگی متاثر نہ ہو۔


شیطان: کیا یار جج تو بھی۔۔۔میرا تو ہر ایک کے ساتھ بے تکلف دوستانہ ہے۔ تمہارے ساتھ بھی تو ہے بھول گۓ کیا؟


جج: (ذرا سخت لہجے میں) اگر اب آپ نے اس انداز سے بات کی تو عدالت آپ سے سختی سے پیش آۓ گی۔


شیطان: (منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنستا ہے) سختی اور مجھ سے۔۔۔؟ تمہاری میری دوستی کے بھی  بہت قصے ہیں کہو تو چند ایک سناؤں۔۔۔لیکن چھوڑو میں نہیں چاہتا تمہاری اس عدالت کا ماحول خراب ہو۔ (وکیل سے) ہاں وکیل تم پوچھو کیا پوچھنا ہے تمہیں؟


وکیل: میں اصل میں پوچھنا چاہ رہا ہوں چند لوگ ایسے بھی تو ہوں گے جو آپ کے دام میں نہیں آتے ہوں گے؟


شیطان: ہاں کچھ لوگ بہت ڈھیٹ ہوتے ہیں انہیں جتنا مرضی بہلاؤ پھسلاؤ وہ نہیں بہکتے لیکن ایسا بھی نہیں کہ میری ان کے آگے بالکل نہیں چلتی کسی بڑی بات کے لیۓ نہ سہی مگر چھوٹے موٹے کام تو وہ بھی کر جاتے ہیں۔ ایسا تو دنیا میں کوئی انسان نہیں جس نے کبھی کوئی چھوٹا سا گناہ بھی نہ کیا ہو۔ 


وکیل: (جج سے) مخترم جج صاحب! اب میں چند گواہوں کو کٹہرے میں بلانا چاہتا ہوں اور ان سے چند سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ میری عدالت سے درخواست ہے مجھے اس کی اجازت دی جاۓ۔


جج: اجازت ہے۔


وکیل: (حاضرین سے) میں چاہوں گا سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب تشریف لائیں۔ 


(حاضرین میں سے اٹھ کر ایک آدمی کٹہرے میں آتا ہے)


وکیل: (ڈاکٹر سے) کیا حال ہیں آپ کے ڈاکٹر صاحب؟


ڈاکٹر: بالکل ٹھیک ٹھاک۔


وکیل: کیسا چل رہا ہے آپ کا کام؟


ڈاکٹر: اللہ کی مہربانی سے بہت اچھا چل رہا ہے۔


شیطان: اللہ کی مہربانی سے یا میری؟


ڈاکٹر: (درشتی سے) کیا مطلب ہے تمہارا؟


وکیل: (شیطان سے) آپ بیچ میں مت بولیں۔


جج: (شیطان سے) ابھی آپ خاموش رہیں آپ کو اپنی بات کہنے کا پورا موقع دیا جاۓ گا۔ وکیل صاحب آپ اپنی بات جاری رکھیں۔


وکیل: شکریہ جج صاحب۔ (ڈاکٹر سے) جی تو ڈاکٹر صاحب آپ یہ بتائیں آپ کو میڈیکل کے شعبے میں پریکٹس کرتے ہوۓ کتنا عرصہ ہوا ہے؟


ڈاکٹر: یہ ہی کوئی پینتیس چالیس برس۔


وکیل: خوب پینتیس چالیس برس۔ یعنی اس فیلڈ میں کام کرتے ہوۓ آپ کی آدھی عمر گزر گئ ہے۔


ڈاکٹر: جی ہاں۔


وکیل: تو ڈاکٹر صاحب آپ یہ بتائیں کیا آپ کو یا آپ کے پیشے سے تعلق رکھنے والے دوسرے لوگوں کو بھی شیطان صاحب سے شکایات ہیں؟ کیا آپ بھی ان پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ آپ لوگوں کو بھی برے کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟


ڈاکٹر: ہاں اس سے شکایتیں تو ہیں یہ ہم ڈاکٹروں کو بھی بہکانے اور ورغلانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اللہ کا بڑا کرم ہے کہ ہمارا طبقہ کافی حد تک اس کی چالوں سے محفوظ ہے۔


شیطان: (قہقہہ لگا کر ہنستا ہے) کیا کہا! تم لوگ نہیں بہکتے۔ یار یہ بات تمہاری کمال ہوتی اگر سچ ہوتی، حقیقت یہ ہے میں جتنا  تم لوگوں کی 'پرفارمنس' سے خوش ہوں اور کسی سے نہیں ہوں۔ تم لوگ تو یار قسم سے کمال کر دیتے ہو۔ (ہاتھ کے اشارے سے اسے کِس کرتا ہے) تم لوگ تو میری جان ہو۔


جج: (شیطان سے) آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں یہ لوگ تو سماج میں سب سے باعزت اور پڑھے لکھے سمجھے جاتے ہیں۔ 


شیطان: یہی تو بات ہے جج صاحب ان کے پاس علم کی طاقت ہے یہ کرنے پہ آئیں تو بہت کچھ کر جاتے ہیں۔ (رکتا ہے پھر جج کو غور سے دیکھتا ہے) نہیں سمجھے؟۔۔۔تم بھی لگتا ہے جج پیسے دے کر بنے ہو کمال کرتے ہو۔ چلو میں سمجھاتا ہوں۔۔۔ تم ہی بتاؤ ایک عام ان پڑھ سیدھا سادہ آدمی کسی کا زیادہ سے زیادہ کیا بگاڑ سکتا ہے وہ اگر کسی کا نقصان کرے گا بھی تو زیادہ سے زیادہ کتنا کر لے گا۔ وہ اگر کسی کو فریب دینا چاہے بھی تو کتنا دے لے گا۔ لیکن یہ لوگ۔۔۔ان لوگوں کے پاس تو ایسا ہتھیار ہے جو کسی اور کے پاس نہیں،

 ان لوگوں کے آگے تو بڑے سے بڑے عہدے والا اور سمجھدار آدمی بھی بے بس ہے۔ کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ علاج کے نام پر یہ اس کے ساتھ کیا کررہے ہیں۔ وہ لٹ رہا ہوتا ہے اور یہ اسے جی کھول کر لوٹتے ہیں۔ ان سے اچھا تو وہ ڈاکو ہے جو ہر راہ چلتے کو لوٹ لیتا ہے لیکن اپنی پہچان نہیں چھپاتا۔ یہ تو باعزت بن کر لوگوں کو لوٹتے ہیں۔ یہاں ڈاکو اور ڈاکٹر میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ یہی ہے۔  


ڈاکٹر: (غصے سے) تم اپنا منہ بند رکھو اور تمیز سے بات کرو۔  


وکیل: دیکھیۓ ڈاکٹر صاحب اس بات میں سچائی تو ہے ایسا دیکھنے اور سننے کو تو بہت ملتا ہے کہ آپ ڈاکٹر بھی ایسے کاموں میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ کبھی آپ جعلی آپریشن کر دیتے ہیں، اگر مریض کو سرجری کی ضرورت نہیں بھی تو بھی آپ پیسے زیادہ بنانے کے چکر میں اس کی سرجری کردیتے ہیں اور کبھی اسے مہنگے مہنگے ٹیسٹ لکھ کر دے دیتے ہیں جو ہوتے بھی صرف متعلقہ ڈاکٹر کے اپنے ہسپتال میں ہیں۔ اس طرح کے بے شمار حربے ہیں جو آپ لوگ مریض سے پیسے اینٹھنے کے لیۓ استعمال کرتے ہیں۔ آپ کے لیۓ تو وہ مریض نہیں بلکہ ایک گاہک ہے جو اپنا مطلوبہ سامان آپ سے خریدنے آیا ہے۔ آپ کا وہ معالج اور مریض والا تعلق تو رہا نہیں بلکہ وہ اب دکاندار اور گاہک کا تعلق بن گیا ہے۔


ڈاکٹر: ٹھیک ہے۔ ایسا ہوتا ہے میں مانتا ہوں۔ لیکن اس کے پیچھے بھی تو (شیطان کی طرف انگلی کرکے) اس کا ہاتھ ہے۔ یہی تو اصل فساد کی جڑ ہے۔ 


شیطان: (طنزیہ انداز میں ہنستا ہے) لیکن ابھی تو تم کہہ رہے تھے تم لوگ بہت شریف ہو، تم لوگوں نے تو کبھی کچھ نہیں کیا۔ تھوڑی دیر پہلے تم اپنے آپ کو معصوم ثابت کر رہے تھے۔


ڈاکٹر: اگر ہم ایسا کچھ کرتے بھی ہیں تو تم ہم سے یہ سب کرواتے ہو۔ ہمارے ایسے کاموں کے ذمے دار تم ہو۔


(شیطان بلند قہقہہ لگاتا ہے) 


وکیل: ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب آپ جا سکتے ہیں مجھے آپ سے اور کچھ نہیں پوچھنا۔ 


(ڈاکٹر چلا جاتا ہے)


وکیل: (جج سے) میرے اگلے گواہ ایک مذہبی عالم ہیں میں عدالت سے درخواست کرتا ہوں کہ انہیں کٹہرے میں بلانے کی اجازت دے۔


جج: اجازت ہے۔


(حاضرین میں سے ایک آدمی اٹھ کر کٹہرے میں آتا ہے۔ اس آدمی کے چہرے پر لمبی سی داڑھی ہے اور سفید لباس پہنے ہوۓ ہے۔ سر پر امامہ یا پگڑی ہے۔)


وکیل: کیا حال چال ہیں مولانا صاحب؟


مولانا: اللہ کا شکر ہے بہت اچھے ہیں۔


وکیل: مولانا بتائیے آپ شیطان صاحب پر کیا الزام لگاتے ہیں؟ آپ ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟


مولانا: لاحول ولاقوۃ! آپ اس کو شیطان صاحب کہہ رہے ہیں آپ اسے عزت دے رہیں یہ عزت کے قابل ہے؟ میں تو اس کا ناپاک نام بھی اپنی زبان پر لینا گوارا نہ کروں اور آپ اسے صاحب کہہ رہے ہیں۔


(شیطان بات سن کر مسکراتا ہے)


وکیل: آپ کی بات ٹھیک ہے مولانا لیکن یہ عدالت ہے اس کے کچھ اپنے پروٹوکول ہیں یہاں شیطان صاحب ملزم کی خیثیت سے لاۓ گۓ ہیں ابھی عدالت نے اپنا فیصلہ نہیں سنایا۔ 


مولانا: تو پھر ٹھیک ہے آپ اسے صاحب کہہ کر پکارئیے میں تو اسے اتنی عزت نہیں دوں گا۔


وکیل: جیسے آپ کی مرضی آپ بس اپنی سٹیٹمنٹ دیجیۓ۔ آپ کو ان سے کیا شکایات ہیں؟


مولانا: اس سے کس کو شکایت نہیں۔ اس نے لاکھوں کڑوڑوں انسانوں کو گمراہ کرکے تباہ و برباد کیا ہے اسے تو کڑی سے کڑی اور سخت سے سخت سزا ملنی چاہیۓ۔ 


شیطان: میں نے تو جو بھی کیا ہے مولانا وہ تو میری ڈیوٹی تھی میرا تو کام ہی یہی ہے لوگوں کو گمراہ کرنا اور بھٹکانا۔ لیکن تم اور تمہاری طرح کے اور بہت سوں نے تو پارسائی کا چولا پہن کر جس طرح خلقِ خدا کو گمراہ کیا ہے اس کی سزا کون بھگتے گا؟


مولانا: تم بکتے ہو۔ اگر ہم نہ ہوتے تو تم لوگوں کو لے ڈوبتے، تم انہیں صراطِ مستقیم سے بھٹکا کر یوں فساد پھیلاتے کہ تمام نسلِ انسانی اب تک فنا ہو گئ ہوتی۔


شیطان: جانے دو مولانا میرا منہ نہ کھلواؤ۔ تم نے لوگوں کو ان بحثوں میں الجھا رکھا ہے جس کا نہ انہیں اس دنیا میں کوئی فائدہ ہے اور نہ اگلی زندگی میں۔ تم نے اپنے گرد تقدیس کا ایسا ہالہ بنا رکھا ہے، عقیدت کا ایسا جال بٌن رکھا ہے جس کو پار کرنا کسی  عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ تم نے ان کے دلوں، دماغوں، آنکھوں اور کانوں پر ایسے دبیز پردے ڈال رکھے ہیں جہاں سے روشنی کی کوئی کرن اندر داخل نہیں ہو سکتی، تم نے ان کے دل و دماغ کی کھڑکیوں کو یوں بند کر رکھا ہے جہاں سے کسی تازہ ہوا کے جھونکے کا گزر ممکن نہیں۔ تم لوگوں نے انہیں جنت و ثواب کی ایسی میٹھی گولیاں دے رکھی ہیں کہ وہ اس لالچ میں تمہارے ہاتھ چومتے ہیں، پاؤں چھوتے ہیں اور کچھ تو سجدہ ریز بھی ہو جاتے ہیں۔ تم لوگوں نے انہیں ورغلا کرکے آپس میں لڑوایا ہے، تم لوگ جو ان عام لوگوں کے دیۓ ہوۓ پیسوں پر پلتے ہو، ان کے چندوں سے اپنے بڑے بڑے مدارس اور مساجد تعمیر کرتے ہو جہاں سواۓ جہالت، تعصب اور تنگ نظری کے اور کچھ پروان نہیں چڑھتا، تم لوگ جو بغیر کوئی کام کیۓ انہی کے دیۓ ہوۓ نذرانوں اور عقیدتوں سے اپنی پوری زندگی آرام سے بسر کر لیتے ہو، اور پھر انہیں نفرت اور دشمنی کی تعلیم دیتے ہو۔ ان سب کا ذمے دار کون ہے؟ اس کی سزا کس کو ملنی چاہیۓ؟



مولانا: دیکھو تم حد میں رہو بدتمیزی نہ کرو۔


شیطان: کیا مولانا! ایک تو مجھے شیطان کہتے ہو اور پھر مجھ سے تمیز و تہذیب کی توقع بھی کرتے ہو۔


وکیل: اچھا مولانا صاحب شیطان صاحب پر ایک اور الزام ہے کہ انہوں نے ہمارے ہاں ڈیرے ڈال لیۓ ہیں یہ یہاں سے جانے کا نام نہیں لے رہے۔ کیا آپ بھی ان پر یہی الزام لگاتے ہیں؟


مولانا: نہیں میرا نہیں خیال کہ ایسا ہے یہ ہر جگہ رہتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور مہذب سماجوں میں بھی اس کا داخلہ بغیر کسی پاسپورٹ اور ویزے کے بالکل مفت ہے، نہیں تو عراق افغانستان اور فلسطین جیسے واقعات پیش نہ آتے۔ یہ سب اسی کی تو کارستانیاں ہیں۔ ہاں البتہ آپ ایسا کہہ سکتے ہیں ہمارے سماج میں اس نے مستقل سکونت اختیار کر رکھی ہے۔ شاید اس نے یہاں کی نیشنیلٹی لے رکھی ہو۔


وکیل: ٹھیک ہے مولانا صاحب آپ جا سکتے ہیں۔


(مولانا کٹہرے سے نکل کر دوبارہ اپنی سیٹ پر چلا جاتا ہے)


وکیل: (شیطان سے) جی تو شیطان صاحب آپ مولانا صاحب کا یہ الزام قبول کرتے ہیں کہ آپ نے یہاں مستقل سکونت اختیار کر رکھی ہے؟



شیطان: بالکل نہیں! میرا دماغ خراب ہے جو میں یہاں رہوں۔ میرا بھلا یہاں کیا کام۔


وکیل: اس سے آپ کا کیا مطلب ہے؟


شیطان: تم بھی بھولے بادشاہ ہو یا بھولے بننے کا ناٹک کرتے ہو۔ چلو ایک سوال کا جواب دو۔ اگر ایک جگہ جوا خانہ ہو اور ایک جگہ مسجد تو تمہارا کیا خیال ہے میں کہاں ہوں گا؟


وکیل: ظاہر ہے مسجد تو آپ نہیں جا سکتے جوے کے اڈے پر ہی ہوں گے۔


شیطان: بس یہاں سے تم دھوکا کھا جاتے ہو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ او بھائی میرے! میں جوے کے اڈے پر کیا کروں گا میرا کام تو لوگوں کو بھٹکانا ہے۔ سیدھی سی بات ہے میں مسجد میں یا مسجد کے باہر کھڑا رہوں گا تاکہ لوگوں کو بہکا پھسلا سکوں، انہیں گمراہ کر سکوں۔ جوا خانے پر جاکر میں کیا کروں گا جہاں لوگ پہلے ہی میری راہ پر چل رہے ہیں۔ جو پہلے ہی بھٹکے ہوں انہیں میں اور کیا بھٹکاؤں؟۔۔۔ اب آئی بات سمجھ میں؟


وکیل: یعنی آپ کہہ رہے ہیں آپ یہاں نہیں رہتے۔


شیطان: ہاں یہی کہہ رہا ہوں۔ میں وہیں رہوں گا جہاں لوگوں کو بھٹکانے پھسلانے کی ضرورت ہے تم لوگوں کے پاس رہ کر میں کیا کروں گا، یہاں تو میں بالکل بیروزگار ہو جاؤں گا۔ میرا کام تو تم لوگ سنبھالے ہوۓ ہو۔ میں نے تو تم لوگوں کو اپنا مرشد مان رکھا ہے، جب کبھی میری 'شیطانیاں' ختم ہو جاتی ہیں اور مجھے مزید 'شیطانیاں' سیکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو میں یہاں رہنے آجاتا ہوں۔


 (ہلکا سا ہنستا ہے اور داد طلب نظروں سے حاضرین کی طرف دیکھتا ہے)


وکیل: ٹھیک ہے شیطان صاحب آپ یہ بتائیے آپ کے بچے ہیں؟


شیطان: اس بات کا اس کیس سے کیا تعلق؟


وکیل: تعلق ہے آپ بتائیں آپ کے اگر بچے ہیں تو کتنے ہیں اور کہاں ہیں؟ 


شیطان: بچے بے شمار ہیں۔


وکیل: کہاں ہیں؟


شیطان: پوری دنیا میں ہیں۔ کچھ میرے چیلے ہیں کچھ میری اولادیں ہیں۔ وہ اپنے اپنے دھندوں پر لگے ہوۓ ہیں۔ 


وکیل: یہاں بھی ہیں؟


شیطان: ہاں یہاں بھی ہیں لیکن تم میں سے اکثر تو میرے بھی گرو ہیں۔


وکیل: ابھی آپ کہہ رہے تھے آپ یہاں نہیں رہتے پر آپ کے  چیلے اور بچے تو یہاں ہیں؟


شیطان: ہاں تو میں انہیں ٹریننگ کے لیۓ آپ لوگوں کے پاس بھیجتا ہوں۔ یہاں ان کی اتنی اچھی تربیت ہوتی ہے کہ وہ بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے میں نے اپنے ایک بچے کو جھوٹ بولنے اور وعدہ خلافی کرنے کے طریقے سیکھنے کے لیۓ یہاں بھیجا تھا۔ صرف چند روز آپ لوگوں کی صحبت میں رہنے کے بعد اس نے اس کام میں کمال مہارت حاصل کر لی ہے۔ یہاں تک کہ اس نے ایک کتاب بھی لکھ ڈالی ہے۔ جس کا نام ہے

 'دروغ گوئی اور عہد شکنی کے ایک سو ایک سنہری اصول'۔ 


یہ کتاب ہمارے شیطانی حلقوں میں اتنی مقبول ہوئی ہے لوگ کہہ رہے ہیں اس سال کی بیسٹ سیلر بک شاید یہ ہی کتاب ہو گی۔ آپ کو جان کر خیرت ہو گی اس کا پہلا اڈیشن تو مارکیٹ میں آتے ہی ختم ہو گیا تھا۔ اب تو اس کا دوسرا اڈیشن شائع ہونے والا ہے۔ یہ سب کس کی بدولت ہوا؟ بتاؤ۔۔۔(جج کی طرف دیکھ کر) کیوں جج صاحب! یہ سب کس کی بدولت ہوا ہے؟ میرے بچے کو یہ کامیابیاں آپ لوگوں کی وجہ ہی سے تو ملی ہیں۔ (حاضرین کی طرف دیکھ کر) میں آپ لوگوں کا جو یہاں موجود ہیں اور جو یہاں نہیں ہیں سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ لوگوں کی انتھک محنت اور لگن کی وجہ سے میرے بچے کو آج یہ مقام حاصل ہوا ہے۔ 


وکیل: اچھا شیطان صاحب کیا آپ کا کوئی بچہ آپ کی راہ سے ہٹ کر نیک راہ پر بھی چل نکلا ہے۔ میرا مطلب ہے جیسے اکثر ہوتا ہے کہ بچے والدین کی نہیں سنتے اور وہ کوئی دوسری راہ پکڑ لیتے ہیں کیا آپ کے کسی بچے نے بھی ایسا کیا ہے؟


شیطان: یہ آپ نے اچھی بات پوچھی۔ کیا بتاؤں بچے تو سنتے ہی نہیں انہیں لاکھ سمجھاؤں پر وہ کہاں مانتے بڑی مشکل سے انہیں ٹھیک راستے پر لانا پڑتا ہے۔ لیکن میرا ایک بچہ ایسا تھا جس نے مجھے بہت تنگ کیا ہے۔ آپ کو کیا بتاؤں وہ بالکل الٹی کھوپڑی تھا پتہ نہیں اس پر اچھائی اور نیکی کا بھوت کیسے سوار ہو گیا تھا نہ صرف یہ کہ وہ خود دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے لگ گیا تھا بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتا تھا۔ اس سے دوسرے بچے بھی خراب ہورہے تھے۔ اکثر کہتا تھا دوسروں کے ساتھ ایسے رہو جیسے ایک سچا اور نیک منصف عدالت میں رہتا ہے۔ سب کے ساتھ انصاف سے کام لیا کرو۔ اب آپ ہی بتائیے یہ باتیں شیطان کے بچے کو زیب دیتی ہیں؟ (جج کی طرف دیکھ کر) کیوں جج صاحب آپ تو پڑھے لکھے سمجھدار آدمی ہیں ایسی باتیں اگر شیطان کرنے لگیں تو پھر کیسے چلے گا؟


جج: تو پھر کیا کیا آپ نے اس بچے کا؟


شیطان: کرنا کیا تھا جج صاحب! بڑا سمجھایا مگر وہ کسی صورت مانتا ہی نہیں تھا۔ آپ تو خود بال بچے دار آدمی ہیں آپ کو معلوم ہے جب بچے بگڑنے پہ آئیں تو ماں باپ کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ میں بہت پریشان تھا اسے کئ ڈاکٹروں کو دکھایا بہت سے سائیکاٹرسٹ سے اس کی کاؤنسلنگ کروائی مگر وہ ویسے کا ویسا ہی رہا۔ اس کا دماغ بالکل سیدھی لائن پر چلتا تھا نہ وہ کوئی سازش کرتا تھا اور نہ کسی قسم کی شیطانی اور چالاکی کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پھر ایک دن مجھے کسی نے کہا کہ اسے آپ لوگوں کے پاس لے کر جاؤ اور یہاں اس کا علاج کرواؤ۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ قسم خدا کی کچھ ہی عرصے میں وہ جوان ایسا بدلا ایسا بدلا کہ پوچھو مت۔ اب وہ بچہ میرا سب سے لائق اور ہونہار بچہ ہے۔


وکیل: (جج سے) مخترم جج صاحب! میرا خیال ہے اس مقدمے کی بہت سی باتیں واضح ہو گئ ہیں آپ اپنا فیصلہ سنا سکتے ہیں۔ لیکن ایک اور چھوٹی سی بات میں شیطان صاحب سے پوچھنا چاہوں گا اس کا براہ راست تعلق اس کیس سے تو نہیں لیکن اس کا تعلق شیطان صاحب سے اور ہم سے کافی گہرا ہے اس لیۓ میں چاہتا ہوں کہ میں وہ بات بھی پوچھ ہی لوں۔


جج: جی پوچھیۓ۔


وکیل: (شیطان سے) جی تو شیطان صاحب آپ نے ہمارا اور ہمارے ملک کا ذکر بہت دفعہ کیا ہے۔ آپ نے کہا ہے جتنا ہم آپ کی راہ پر چلتے ہیں اتنا کوئی نہیں چلتا۔ تو آپ بتانا پسند کریں گے ہم میں سے وہ کون ہیں جو زیادہ تر آپ کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ کوئی طبقات ہیں، ادارے ہیں یا وہ کون سی طاقتیں ہیں جو ایسا کرتی ہیں یا کر رہی ہیں؟


شیطان: کسی بھی ملک میں بنیادی طور پر تین طرح کی طاقتیں ہوتی ہیں خاندان، معاشرہ اور ریاست۔ اگر وہ درست نہ ہوں تو مسائل جنم لیتے ہیں۔ ہر ملک میں اس کا ہولڈ یا تسلط کم یا زیادہ ہوتا ہے لیکن آپ کے اور آپ جیسے دوسرے پسماندہ ممالک میں تو تینوں پوری طرح سرگرم ہیں۔ وہ چاہتی ہیں وہ فرد پر اپنا استبداد، تسلط اور جبر قائم رکھیں اس لیۓ یہ سب مسائل ہیں۔ فرد کی آزادی کو آپ لوگ کوئی اہمیت نہیں دیتے جبکہ فرد کی آزادی اور انصاف یہ دو ہی تو صورتیں ہیں ترقی، خوشحالی اور کامیابی کی۔


وکیل: تو آپ کو لگتا ہے یہ سب بدلنے کے کوئی چانسز ہیں؟


شیطان: نہیں مستقبل قریب میں تو بالکل نہیں۔ یہ شیطانی طاقتیں ہیں انہیں میں نے بڑی محنت سے بنایا ہے اتنی آسانی سے اور اتنی جلدی تو میں اسے ختم نہیں ہونے دوں گا۔ اور نہ ہی تم لوگوں میں وہ گٹس ہیں کہ تم انہیں درست کر سکو۔


وکیل: (پیچھے ہٹتا ہے اور جج سے مخاطب ہوتا ہے) جی جج صاحب آپ اپنا فیصلہ سنائیے۔

 عدالت گواہوں کے بیانات اور ملزم کی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوۓ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ملزم بے شک قصور وار ہے وہ لوگوں کو بہکاتا اور گمراہ کرتا ہے لیکن انسان اپنے کرتوتوں کا خود ذمےدار ہے۔ اس کا ذمہ نہ تو شیطان پر ڈالا جا سکتا ہے نہ قدرت پر اور نہ تقدیر پر۔ اس کا اگر کوئی قصوروار ہے تو وہ خود انسان ہے۔ جہاں تک شیطان کو سزا دینے کی بات ہے یہ عدالت ابھی اس قابل نہیں ہوئی کہ یہ شیطان کے مقدمے کا فیصلہ کر سکے انسان کی عدالت تو ابھی خود انسان کو انصاف دلا سکنے کے قابل بھی نہیں وہ شیطان کا فیصلہ کیا کرے گی۔ اس لیۓ یہ عدالت شیطان کے مقدمے کا فیصلہ خدا کی عدالت کے سپرد کرتی ہے اور انسان سے درخواست کرتی ہے کہ وہ اپنی فکر کرے، شیطان کا مقدمہ خدا پہ چھوڑ دے۔ لہذا عدالت شیطان صاحب کو یہاں سے باعزت بری کرتی ہے۔


(شیطان خوش ہوتا ہے اور بلند آواز سے نعرے لگانے لگتا ہے۔ ہاتھ کھڑے کرکے حاضرین اور جج کا شکریہ ادا کرتا ہے)



































Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post