Drizzling Of Love

Drizzling Of Love





اس بار بہار آئی تو وہ یہاں نہیں تھی۔ وہ کہاں تھی یہ خود شہروز حسن بھی نہیں جانتا تھا۔ ہر بہار کی آمد پر وہ اس سے ملاقات کے لیۓ جایا کرتا تھا مگر اس بار بہار ختم ہونے کو آئی تھی اور وہ ابھی تک اس سے ملنے کے لیۓ نہیں گیا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا بہار کے موسم میں وہ سب کام چھوڑ کر کم سے کم ایک بار اس سے ضرور ملنے کے لیۓ جاتا تھا لیکن اس بار معلوم نہیں ایسا کیا ہوا تھا کہ اس نے ایک مرتبہ بھی جانے کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔ میں اس کی اس خلافِ معمول حرکت پر کافی خیران تھا اور اس سے ایک دو بار پوچھنے کی کوشش بھی کر چکا تھا مگر وہ ہر بار بات کو ٹال جاتا تھا۔ پچھلے کئ برسوں سے ہم دونوں اکھٹے رہ رہے تھے اور میں تقریباً اس کے ہر کام سے واقف تھا یا میرا ایسا گمان تھا کہ میں اس کی ہر بات سے شناسا ہوں۔ اسی لیۓ جب اس کے معمول اور مزاج میں ذرا سی تبدیلی آئی تو میں فوراً بھانپ گیا کہ کوئی بات ضرور ہے جو شہروز چھپا رہا ہے۔ سب سے بڑی اور نمایاں تبدیلی تو یہی تھی کہ اس بار موسمِ بہار کے اختتام تک وہ ایک بار بھی 'بہار' سے ملنے نہیں گیا تھا۔ بہار اس لڑکی کا حقیقی نام نہیں تھا میں نے شرارتاً ان دونوں کی ہر سال موسمِ بہار میں ملاقاتوں کے باعث اس کا نام بہار رکھ دیا تھا۔ شہروز کو یہ نام پسند آیا تھا۔ اس نے اس کا ذکر 'بہار' سے بھی کیا تھا جسے سن کر وہ خوب محذوز ہوئی تھی اور اس نے شہروز سے کہا کہ تم آئندہ مجھے اسی نام سے پکارا کرنا۔ 


 شہروز ان لڑکوں میں سے تھا اور ہے جو اچھے تعلق اور رشتے کو جان بوجھ کر ختم کرنے یا توڑنے کو گناہِ عظیم سمجھتے ہیں پھر چاہے وہ تعلق دوستی کا ہو یا محبت کا وہ ہر ممکن حد تک کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح یہ رشتہ قائم رہے۔ اور پھر یہاں تو معاملہ بھی اس کے اپنے دل کا تھا یہاں وہ کیسے پیچھے ہٹ سکتا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اتنے گہرے تعلق کو جو اس نے بڑے خلوص سے قائم کیا تھا منزل پر پہنچاۓ بغیر بیچ راستے میں چھوڑ کر آگے بڑھ جاۓ۔ وہ تو جس کسی کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لے تمام عمر اس کے ساتھ چلتا رہتا ہے چاہے راستے میں کتنی مشکلات کیوں نہ آئیں۔ لیکن پھر اس بار ایسا کیا ہوا تھا کہ شہروز موسمِ بہار میں بہار سے ملنے نہیں گیا تھا۔ 


وہ تو جس دن اس کی زندگی میں آئی تھی اس دن سے اس کی زندگی میں حقیقتاً بہار آگئ تھی۔ اس کے دل کے چمن میں خوشیوں اور شادمانیوں کے سینکڑوں رنگ بھرنگے پھول کھل گۓ تھے جہاں ہر سو ہریالی تھی اور پرندوں کے دلآویز خوشگوار نغمے تھے۔ اگرچہ وہ ابھی اس سے بہت دور تھی مگر اس نے اپنے دل و دماغ میں اسے اپنی زندگی کے ایک حصے ایک جزو کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ وہ اس سے کبھی الگ نہیں ہوئی تھی۔ شب و روز کی ہر گھڑی، ہر ساعت، ہر لمحے وہ اس کے ساتھ تھی۔ میں جانتا تھا اگر کبھی وہ جدا ہو گۓ یا بچھڑ گۓ تب بھی وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گی وہ اپنی زندگی سے اسے کبھی بھی الگ نہیں کر پاۓ گا۔ اب جبکہ وہ نہیں تھی تب بھی اس کا احساس ہر پل ہر گھڑی اس کے ساتھ تھا۔


 ایک رات میں اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا تبھی میری نظر   باہر شہروز کے کمرے پر پڑی وہ دروازہ کھول کر باہر جارہا تھا۔ میں نے وقت دیکھا تو ایک بجا تھا۔ یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں تھی ایسا اکثر ہوتا تھا۔ ہم دونوں میں سے کسی کو اگر رات کو نیند نہیں آرہی ہوتی تھی تو وہ سڑک پر سیر کو نکل جاتا تھا اور تھوڑی سی مٹرگشت کے بعد لوٹ آتا تھا۔ ابھی بھی ایسا ہی تھا لیکن اس بار میرے تجسس نے مجھے ابھارا اور میں اٹھ کر اس کے پیچھے چل دیا۔ عام طور پر میں کسی کا پیچھا کرنے اور کسی کی ٹوہ میں رہنے سے پرہیز کرتا ہوں اگر کوئی اپنی مرضی سے اپنی ذاتی نوعیت کی بات بتا دے تو اچھی بات اور اگر نہ بتانا چاہے تو میں اسے جاننے کے لیۓ زیادہ بے چین نہیں ہوتا۔ مگر اس بار میں اصل بات کو جاننے کے لیۓ اس کے پیچھے چل پڑا۔ شاید کبھی کبھی ایسا ہی ہوتا ہے آدمی جس کام کو درست نہیں سمجھتا وقت کے کسی لمحے وہی کام کر گزرتا ہے۔ میرے خیال میں انسان کے اندر آرزؤں،امنگوں، خواہشات، میلانات، رجحانات کا پیدا ہونا اور تجسس کا ابھرنا فطری ہے اگر ان کی سمت درست رکھی جاۓ تو ٹھیک لیکن اگر ان کا رخ غلط سمت کی طرف ہو تو گناہ ہے۔ انسان کی ساری تگ و دو انہی امنگوں اور آرزوؤں کو درست سمت پر رکھنا ہے۔ اگر ان کا رخ غلط ہو تو تباہی اور بربادی ہے۔ عقل کے ساتھ عشق نہ ہو تو عقل محض فساد اور بربریت کے سوا کچھ نہیں، دماغ کے ساتھ دل کی دنیا آباد نہ ہو تو نرا فریب اور دھوکا ہے، علم کے ساتھ اگر اخلاق نتھی نہ ہو تو ظلم و جبر ہے۔


اس رات میں اپنے فطری تجسس کا رخ درست سمت پر رکھنے میں ناکام رہا اور اک معمولی سی بات کو جاننے کے لیۓ اس کے تعاقب میں چل پڑا۔ حالانکہ مجھے اندازہ تھا کہ شہروز کا اس طرح تعاقب کرنے پر بھی مجھے وہ بات معلوم نہیں ہو سکے گی جو میں جاننا چاہتا تھا۔ اس وقت تو وہ بس چھوٹی سی چہل قدمی کرنے نکلا تھا اس سے مجھے اس کے دل کی بات کیسے معلوم ہو سکتی تھی لیکن پھر بھی میں ایک موہوم سی امید لیۓ اس کے پیچھے چلنے لگا۔ میں اس سے کافی فاصلے پر چل رہا تھا تاکہ اسے شک نہ ہو کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ نصف شب گزر چکی تھی مگر موسمِ گرما کے باعث سڑک پر اس وقت بھی گہما گہمی تھی۔ دونوں جانب ٹھیلے والے متعدد کھانے پینے کی اشیاء سجاۓ بیٹھے تھے۔ چاۓ خانے پر خوب رونق تھی۔ لوگ فٹ پاتھ پر کرسیاں میز لگاۓ مختلف ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے چاۓ پی رہے تھے۔ سگریٹ پان کی دکان پر بھی اس وقت کافی رش تھا۔ شہروز ان کے پاس سے گزرتا ہوا سگریٹوں کی دکان پر رکا اور دکان والے سے ایک سگریٹ خرید کر سلگایا اور آگے چل پڑا۔ میں اس سے اتنے فاصلے پر تھا کہ اگر وہ پیچھے مڑ کر دیکھتا بھی تو اتنے لوگوں میں مجھے پہچان نہ پاتا۔ اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ 


کچھ دیر چلنے کے بعد وہ ایک جانب مڑا اور آگے جاکر ایک چھوٹے سے باغیچے میں گھس گیا۔ میں خیران تھا رات کے اس پہر وہ اس باغیچے میں کیوں گیا ہے۔ یہ باغیچہ کالونی کے بالکل وسط میں تھا جہاں صبح اور شام کے وقت لوگ سیر کرنے کے لیۓ آیا کرتے تھے جبکہ دن بھر کالونی کے چھوٹے بچے یہاں آکر کھیلا کرتے تھے۔ میں دروازے سے اندر جانے کی بجاۓ چھوٹی سی دیوار پھلانگ کر اندر گیا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا شہروز سے کچھ فاصلے پر ایک جانب جاکر کھڑا ہو گیا۔ باغیچے میں یوں تو اندھیرا تھا مگر چاند کی روشنی سے اس کا کچھ حصہ منور تھا۔ جہاں شہروز بیٹھا تھا وہ حصہ مکمل طور پر روشن تھا اور جہاں میں کھڑا تھا وہاں مکمل اندھیرا تھا۔ کچھ پل وہاں کھڑے رہنے کے بعد مجھے یاد آگیا کہ شہروز یہاں کیوں آیا ہوگا۔ اس نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ اس نے پہلی بار یہاں اس باغیچے میں بہار کو دیکھا تھا۔ اس کے بہت عرصے بعد وہ لڑکی دوبارہ اسے اس کی یونیورسٹی میں ملی وہ اس وقت یونیورسٹی میں داخلے کے لیۓ آئی تھی اور اتفاق کی بات تھی کہ شہروز خود بھی اس یونیورسٹی میں داخلے کے لیۓ گیا ہوا تھا۔ اس سے بڑا حسنِ اتفاق یہ تھا کہ دونوں نے ایک ہی مضمون میں داخلہ لیا تھا اور دونوں ایک ہی جماعت میں اکٹھے تھے۔دونوں کی جب بات چیت ہوئی تو شہروز نے اسے بتایا کہ اس نے سب سے پہلے اسے باغ میں دیکھا تھا اور تب سے اب تک وہ اسے یاد تھی۔ اس لڑکی نے بھی شہروز کو بتایا کہ اس نے بھی اسے پہلی بار وہیں دیکھا تھا اور وہ بھی اسے تب سے یاد تھا۔


 یہ سب یوں تو اتفاق تھا مگر شہروز اسے کسی اور زاویے سے دیکھتا تھا۔ وہ کہتا تھا یہ سب قدرت کے اشارے ہیں اور انہیں قدرت نے آپس میں ملایا ہے۔ اس کے لیۓ وہ دلیل یہ دیتا تھا کہ کتنے لوگوں کو وہ باغ میں روزانہ دیکھتا تھا مگر وہ ایک لڑکی صرف ایک بار دیکھنے پر اسے کیونکر یاد رہ گئ اور صرف اسے ہی نہیں بلکہ اس لڑکی کو بھی وہ یاد رہ گیا تھا اور پھر اتنا ہی نہیں دونوں کا اتنے عرصے بعد ایک ہی یونیورسٹی اور ایک ہی جماعت میں اکٹھے ہونا اتفاق نہیں ہو سکتا۔ وہ کہتا تھا 'میرا اعتقاد ہے کہ یہ فیصلہ کہیں اور ہوا تھا۔ ہمارا ملنا پہلے سے طے تھا اور یہ کہ یہ سب کچھ پہلے سے لکھا جا چکا تھا۔' 


اپنے ان خیالات کا اظہار اس نے بہار سے بھی کیا تھا اس کا بھی یہی ماننا تھا کہ یہ سب محض اتفاق نہیں تھا اور نہ ہی کسی انسانی کاوش کا نتیجہ، بلکہ یہ قدرت کا پہلے سے تیار کیا گیا منصوبہ تھا۔ 


اگر یہ قدرت کا منصوبہ تھا تو بعض اوقات میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ قدرت کن کاموں میں لگی ہے۔ اتنی بڑی کائنات اور دنیا کے بڑے بڑے اہم کاموں کو چھوڑ کر وہ دو لوگوں کے لئے اتنے معمولی سے منصوبے کیوں بناتی پھرتی ہے۔ وہ دنیا میں بھوک و افلاس سے بلکتے اور سسکتے لاکھوں کروڑوں انسانوں کے لیۓ کوئی منصوبہ کیوں نہیں بناتی؟ پتھر میں رزق دینے کا وعدہ کرکے مکرجانا کہاں کی خدائی ہے؟ وعدہ خلافی اور دروغ گوئی کی ایسی مثال تو ہمارے لیڈروں میں بھی نہیں ملتی۔ قدرت کیوں جان لیوا اور مہلک بیماریوں میں مبتلا انسانوں کے لیۓ کوئی پروگرام، کوئی پلان، کوئی منصوبہ تیار نہیں کرتی؟ کیوں انسانوں کو اتنی تگ و دو اور جدوجہد کرکے علاج دریافت کرنا یا دوا ایجاد کرنی پڑتی ہے؟ قدرت نے صدیوں تک انسانیت کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے اور تکالیف اور مصائب برداشت کرتے لاچار انسانوں کے لیۓ کیوں کوئی فیصلہ نہیں کیا؟ اگر قدرت کا منصوبہ انسان کی ایسی تذلیل تھا جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی، اگر قدرت نے ان کے مقدر میں یہی لکھا تھا تو کیوں قدرت کا ہر فیصلہ، ہر منصوبہ، اور ہر پروگرام لاچار، مجبور، بے کس و بے بس انسانوں کے خلاف ہوتا ہے؟ کیوں اس کی ساری دلچسپیاں بس دو لوگوں کو ملانے میں ہیں؟ اگر اس نے محبت اور شادی کے ان معمولی سے کاموں کے فیصلے بھی خود کرنے تھے تو ہمیں اس دنیا میں بھیجا ہی کیوں؟


میں ابھی وہیں کھڑا تھا کہ اچانک میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ اتنی خاموشی میں آواز دور تک گئ جسے شہروز نے بھی سن لیا اس نے مڑ کر آواز کی سمت دیکھا۔ میں نے فوراً کال کاٹ دی مگر اب چھپنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا شاید اس نے مجھے پہچان لیا تھا۔ میں نکل کر اس کے سامنے آگیا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خیران ہوا اور مجھ سے پوچھنے لگا 'تم یہاں کیا کر رہے ہو؟'


میں نے اسے بتایا کہ میں اس کا پیچھا کر رہا تھا اور کہا کہ میں بہت شرمندہ ہوں مجھے اس طرح تمہارا پیچھا نہیں کرنا چاہیۓ تھا لیکن مجھے تم پچھلے کافی دنوں سے پریشان سے لگ رہے تھے اس لیۓ ایسا کیا۔ میں نے تم سے دو تین بار پوچھا بھی تھا لیکن تم نے بتایا نہیں۔ اور تم اس بار بہار سے ملنے بھی نہیں گۓ؟


شہروز میری بات سن کر بولا۔ 'تمہیں کیا بتاؤں مجھے خود کچھ سمجھ نہیں آرہی مجھے کچھ سمجھ آۓ تو تمہیں بتاؤں۔'


میں نے اس سے کہا تم مجھے بتاؤ آخر ہوا کیا ہے کوئی بات تو ضرور ہوئی ہے جس سے تم اور بہار اک دوسرے سے دور ہو گۓ ہو۔


وہ کچھ دیر خاموش رہا اور پھر اپنی بات بتانی شروع کی۔ وہ بولا 'میرا اور بہار کا تعلق ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا لیکن پھر ہمارا رابطہ منقطع ہو گیا۔ میں سمجھ رہا تھا یہ وقتی اور عارضی ہے کچھ دنوں تک ٹھیک ہو جاۓ گا۔ تم تو جانتے ہو میرے ذاتی اور گھریلو معمالات ان دنوں کچھ پیچیدہ اور گھمبیر سے ہو گۓ تھے اس لیۓ میں وہاں مصروف ہو گیا۔ پھر تھوڑے عرصے بعد میں نے اس سے دوبارہ رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی مگر اس سے رابطہ ہو نہیں پا رہا تھا۔ بڑی مشکل سے میں نے اس سے کسی نہ کسی طرح رابطہ قائم کیا مگر وہ ٹھیک طرح سے بات ہی نہیں کر رہی تھی۔ میں بہت خیران ہوا کہ آخر ایسا کیا ہوا اور اس سے بات نہ کرنے کی وجہ پوچھی۔ پہلے تو وہ ٹال مٹول کرتی رہی لیکن پھر اس نے جو بات کی وہ میرے لیۓ کسی شاک سے کم نہیں تھی۔ اس نے کہا وہ مجھ سے اب کوئی رابطہ نہیں رکھنا چاہتی۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا ہمارے بیچ ایسا کیا ہے جو ہم مسلسل اک دوسرے سے رابطے میں رہیں، ہمارے درمیان نہ پہلے کچھ ایسا تھا نہ اب کچھ ایسا ہے۔ مجھے اس کی باتیں سن کر خیرت پہ خیرت ہو رہی تھی۔ میں نے اس سے کہا تو وہ سب کیا تھا، ہمارا اتنے عرصے کا تعلق، وہ باتیں، وہ سب کچھ کیا تھا؟ وہ بولی۔ وہ تو بس وقت گزاری تھی۔ دل بہلانے کے لیۓ اچھا وقت گزارنا تھا گزار لیا۔ ہمارے بیچ ایسا کچھ نہیں جسے مزید آگے بڑھایا جاۓ۔ جسے کسی منزل تک پہنچایا جاۓ۔ ہم تو راستے کے دو اجنبی مسافر تھے جو چلتے چلتے تھک کر چند لمحے سستانے کے لیۓ کسی ٹیلے پر بیٹھ گۓ۔ ہمارا ساتھ بس ان چند گھڑیوں تک تھا۔ ہم اتنی دیر کے لیۓ ہی ملے تھے۔ ان ساعتوں میں، ان چند لمحوں میں ہمارے دل و دماغ میں ایسا کوئی تعلق پیدا نہیں ہوا کہ ہم اگلا پورا سفر دونوں ایک ساتھ جاری رکھیں۔ ہم تو راستے کے مسافر تھے تھوڑی دیر کے لیۓ راستے میں ملے تھے اور پھر الگ ہو گۓ۔ 


لیکن میں ایسا نہیں مانتا۔' میں نے اس سے کہا۔ 'مجھے اس بات پر یقین نہیں کہ ہمارے درمیان ایسا کچھ نہیں تھا ہم دونوں کا تعلق بس وقت گزاری تھا۔ تم جھوٹ بول رہی ہو مجھے تمہاری بات پر بالکل بھی یقین نہیں۔'


اس نے کہا تمہیں جو سمجھنا ہے سمجھو لیکن اب میں تم سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھ سکتی۔ تمہارے لیۓ بھی یہی بہتر ہے تم وہ سب بھول جاؤ۔'


میں خیران ہوں یہ سب تم کہہ رہی ہو۔' میں نے اپنی خیرت کا اظہار کیا تو وہ بولی۔ 'اس میں خیران ہونے والی کیا بات ہے یہ کوئی ایسی انوکھی بات تو نہیں ہزاروں لڑکے لڑکیاں وقت گزاری اور دل بہلاوے کے لیۓ ایسے سینکڑوں تعلق بناتے اور توڑتے ہیں ہم ایسا کر لیں گے تو کون سی قیامت آجاۓ گی۔'


لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا نہ کرنا چاہتا ہوں۔'


وہ بولی۔ 'وہ اس لیۓ کہ تم آرتھوڈاکس قسم کے ایک دقیانوس لڑکے ہو جو آج کے دور میں بھی ایسے گھسے پٹے نظریات رکھتا ہے۔ اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا تو تم سے کبھی کوئی تعلق نہ رکھتی۔'


وہ یہ کہہ کر چلی گئ اور میں وہاں گھنٹوں کھڑا رہا، مہینوں رہا یا برسوں مجھے معلوم نہیں۔ میں تو شاید اب بھی وہاں کھڑا ہوں۔'


شہروز نے بات ختم کی تو کتنی دیر تک ہم دونوں چپ بیٹھے رہے۔ پورے باغیچے میں اتنا سکوت تھا کہ ہم دونوں کو اپنی سانسوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھا اور ایک جانب کو چل دیا۔ میں نے اوپر دیکھا چاند درخت کی اوٹ میں چھپ گیا تھا اس لیۓ اس کونے پر بھی اب اندھیرا چھا گیا تھا جہاں میں بیٹھا تھا۔ رات کافی گہری ہو گئ تھی۔ میں نے شہروز کو آخری بار باغیچے سے نکلتے دیکھا وہ واپس جانے کی بجاۓ دوسری طرف جا رہا تھا۔ شاید اس کا رات یونہی بسر کرنے کا ارادہ تھا۔ میں اٹھا اور شعر گنگناتا ہوا گھر کو چل دیا۔


ہم پہ جو گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں 

ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے




   


Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post