Drizzling Of Love

Drizzling Of Love





 سردیوں کی ایک یخ بستہ، تنہا اور خاموش رات تھی۔ نیم تاریکی میں ڈوبا اس کا گرم کمرا تھا جس کے باہر کی فضا میں ہر چیز ٹھٹھرتی، کانپتی اور لرزتی پھرتی تھی۔ پیڑ پودے درودیوار ہر شے دھند میں لپٹی تھی۔ کسی آدمی کے پاؤں کی چاپ تک سنائی نہیں دے رہی تھی یہاں تک کہ گلیوں کے آوارہ کتے بھی کوئی محفوظ کونہ تلاش کرکے خاموشی سے کہیں دبکے بیٹھے تھے۔ سڑک پر بھی کوئی گاڑی نہیں تھی۔ البتہ دور بہت دور ریل کی پٹری پر کوئی ریل گاڑی طویل وقفوں کے بعد سیٹی بجاتی ہوئی تیزی سے گزر جاتی تھی جس سے خاموشی کے دبیز پردے میں ذرا سی ہلچل پیدا ہوتی اور چند لمحوں بعد دوبارہ مکمل طور پر خاموشی چھا جاتی ایسے جیسے پرسکون پانیوں میں کوئی شخص ہاتھ ڈالے تو لہروں کا چھوٹا سا دائرہ بنتا ہے اور جب ہاتھ نکال لیتا ہے تو دائرہ پھر سے پانی کا حصہ بن جاتا ہے۔ 


باہر کی نسبت کمرے کے اندر کا موسم خاصا بہتر تھا۔ وہ اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھا سگریٹ کے دھویں کے چھلے ہوا میں اچھالتا چلا جا رہا تھا۔ یکے بعد دیگرے اس کے چھ سگریٹ پینے کی وجہ سے بند کمرا دھویں اور سگریٹ کی بو سے بھر گیا تھا۔ کرسی کے ساتھ میز پر رکھا ہوا شیشے کا چھوٹا سا خوب صورت راکھ دان سگریٹ کے بجھے ہوۓ ٹوٹوں اور راکھ سے بھرا پڑا تھا۔ اس نے اپنے ساتویں سگریٹ کا آخری کش لگایا جو ابھی تک اس نے آدھا پیا تھا اور اسے راکھ دان میں پھینک کر اٹھ کھڑا ہوا۔ کھڑکی کے پاس جا کر اس نے پردہ ہٹایا  کھڑکی کا شیشہ دھند کے باعث نم آلود تھا اس نے بند شیشے سے باہر جھانک کر کچھ دیکھا پھر پردہ آگے کرکے بستر پر پڑی ہوئی بڑی سی چادر اٹھائی اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ باہر آکر اس نے چادر کو اپنے گرد اچھی طرح لپیٹ لیا اور صحن عبور کرکے باہر کا دروازہ کھول کر گلی میں آگیا۔ گلی ویران اور سنسنان پڑی تھی جس میں صرف دودھیا رنگ کی دھند چہل قدمی کر رہی تھی۔ وہ دھند میں راستہ بناتا ہوا ایک گلی سے دوسری گلی میں اور پھر دوسری سے تیسری گلی عبور کرنے کے بعد ایک بڑے سے گلے میں پہنچ گیا۔ گلے کے درمیان میں جا کر وہ دائیں جانب مڑا اور ایک تنگ اور تاریک گلی میں اتر گیا۔ چند قدم چل کر وہ ایک گھر کے سامنے جا کھڑا ہوا اس نے بیٹھک کے لکڑی کے دروازے پر اپنی دو انگلیوں کی پشت سے آہستہ سے دستک دی اندر سے کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی اور چند لمحوں میں دروازہ کھل گیا۔ وہ اندر چلا گیا۔ 


کہاں رہ گیا تھا صغیرے تو۔۔۔ہمیں لگا تو اب نہیں آۓ گا۔' دروازے کھولنے والے آدمی نے پوچھا۔


یہیں تھا یار'۔ صغیرا بیزاری سے بولا اور کمرے کے فرش پر رکھی ہوئی کوئلوں کی انگیٹھی کے پاس چوکی پر جا کر بیٹھ گیا۔ انگیٹھی کے پاس ایک اور آدمی بیٹھا تھا وہ مسکرایا اور اپنے کان کے پیچھے پھنساۓ ہوۓ سگریٹ کو نکال کر انگیٹھی کے کوئلے سے جلا کر بولا۔'لگتا ہے آج پھر دل جل رہا ہے۔ یہ لے سوٹا مار قرار ملے گا۔' اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر اسے سگریٹ پیش کرتے ہوۓ کہا۔


نہیں یار بڑے سوٹے مار کر آیا ہوں رہنے دے کوئی فرق نہیں پڑتا۔' صغیرا اسی بیزاری کے انداز سے بولا۔


بیوقوفا کچے سے کیا فرق پڑے گا پکا سوٹا مار تب کوئی بات بنے گی۔'


نہیں رہنے دے ابھی موڈ نہیں ہے۔' صغیرے نے منہ بناتے ہوۓ کہا۔


پہلا آدمی ابھی تک دروازے کے پاس کھڑا تھا وہ آگے بڑھ کر بولا۔ 'لگا لے لگا لے آج دوائی پاس ہے کل جب ختم ہو جاۓ گی تو کہے گا پکا بنا کر دے۔'  


صغیرے نے دوسرے آدمی کے ہاتھ سے سگریٹ لے لیا اور آنکھیں بند کرکے ایک کش لگا کر بڑے آرام سے دھواں فضا میں چھوڑا۔


یہ ہوئی نہ بات۔' پہلا آدمی دیوار کے پاس موڑے پر بیٹھ کر ٹیک لگا کر بولا۔


 دیکھنا دوائی اندر جاتے ہی تجھے کیسے چین ملتا۔ 'دوسرے آدمی نے سگریٹ پیتے ہوۓ کہا۔


پہلے آدمی نے اپنی قمیض کی اوپر والی جیب سے سگریٹ نکالا اور اپنے دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر سگریٹ کے اندر کا سارا تمباکو نکال کر رکھ دیا۔ اس کے بعد جیب سے ایک سیاہ رنگ کی چھوٹی سی موتی کے جیسی گول گولی نکالی اور اسے تمباکو میں ملا کرکے اپنے انگھوٹھے سے اچھی طرح مسل کر دوبارہ سگریٹ میں ڈال لیا۔پھر سگریٹ کے آگے کے کاغذ والے حصے کو مڑوڑ کر اچھی طرح بند کر دیا۔ اس کے بعد اس نے لائیٹر لیا اور سگریٹ سلگایا ایک گہرا کش لگا کر آنکھیں بند کرکے سانس اندر کھینچا اور آنکھیں کھول کر بولا۔ 'آج دوائی بہتر ہے، یار شکورے تو مانے سے دوائی کیوں لیتا ہے وہ دو نمبر مال بیچتا ہے۔'


پتہ ہے! پر اتنے پیسوں میں ہمیں مانے کے سوا اور کون دوائی دے گا اس لیۓ جیسی بھی ہے کم سے کم مل تو رہی ہے۔' شکورا خاموش ہوا ایک کش لگا کر اپنی ٹانگیں سیدھی کیں اور سگریٹ کو چوم کر دوبارہ بولا۔ 'یہ دوائی تو ہماری زندگی ہے اگر یہ نہ ہو تو میں تو دو دن بھی زندہ نہ رہوں۔'


تینوں کے پکے سگریٹ کی وجہ سے چھوٹے سے کمرے میں ایک ناگوار سی بو پھیل گئ تھی۔ صغیرا اپنا سر پیچھے دیوار کے ساتھ ٹکا کر سامنے والی دیوار پر لگے بجلی کے بلب کو گھورنے لگا۔ چند لمحے بلب کو گھورنے کے بعد اس نے آنکھیں بند کیں اور خود کو ایک دوسرے چھوٹے سے کمرے میں پایا۔


صغیرے۔۔۔ صغیرے۔۔۔ تو کیا اس وقت سے بلب کو گھوری جا رہا ہے میری طرف دیکھ۔' ایک لڑکی اسے تقریباً جھنجھوڑتے ہوۓ بولی۔


ہونہہ!۔۔۔ہاں بول کیا بات ہے؟' صغیرا اپنی کہنی سر کے نیچے ٹکاۓ بلب کو گھورتے ہوۓ بولا۔


تو میری طرف دیکھے تو کوئی بات کروں کب سے تو تو بلب کو دیکھی جا رہا ہے۔ پتہ نہیں اس بلب میں ایسا کیا ہے ہر وقت گھورتا رہتا ہے۔'


میں سن رہا ہوں تو بول۔' صغیرا اسی حالت میں بولا۔


نہیں پہلے اس طرف دھیان کر پھر بات کروں گی۔'


اچھا لے کر لیا۔۔۔ اب بول۔' صغیرا لڑکی کی طرف رخ کرکے بولا۔


لڑکی کچھ دیر خاموش رہی تو صغیرا بے چینی سے بولا۔ 'اب بول بھی۔'


صغیرے! میں سوچ رہی ہوں۔۔۔ بلکہ کئ بار سوچتی ہوں ہمارا اس طرح ملنا ٹھیک نہیں۔'


تو کس طرح ملنا ٹھیک ہے؟' صغیرے نے خیران ہو کر پوچھا۔


اس طرح مطلب جیسے ہم ملتے ہیں رات کے اندھیرے میں چھپ کر۔۔۔ تو اس وقت اپنے گھر سے میرے گھر آتا ہے اور ہم دونوں چوری چھپے یہاں ملتے ہیں۔ مجھے تو یہ بہت برا لگتا ہے۔ تجھے برا نہیں لگتا؟


برا ہو گا پر تو یہ کیوں سوچ رہی ہے؟'


 مجھے یہ سب غلط لگتا ہے صغیرے۔' لڑکی نے جواب دیا۔


تو غلط اور صحیح کے چکر میں نہ پڑ۔۔ میرا یار شکورا کہتا ہے بندے نے اچھے کاموں کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا کوئی کام برا بھی کرنا چاہیۓ ورنہ اوپر جا کر خدا کو کیا منہ دکھاۓ گا وہ تو کہے گا میں نے تو اسے انسان بنا کر بھیجا تھا یہ فرشتہ پتہ نہیں کیسے بن گیا جس سے ایک کام بھی غلط نہیں ہوا۔


پھر بھی صغیرے ۔۔۔


چھوڑ بھی دے اب۔۔۔ تو بھی پتہ نہیں آج کیا باتیں لے کر بیٹھ گئ۔' صغیرا اس کی بات کاٹ کر بولا۔


لیکن اگر پکڑے گۓ تو؟' لڑکی کچھ پریشان سی ہو کر بولی۔


نہیں پکڑے جاتے ابھی تک پکڑے گۓ ہیں جو اب پکڑے جائیں گے اور اگر پکڑے بھی گۓ تو ایک طرح سے اچھا ہی ہوگا تیری اماں شادی کے لیۓ ہاں کر دے گی تب تو انکار نہیں کر سکے گی۔' صغیرے نے جیب سے سگریٹ نکالا اور سلگانے والا تھا کہ لڑکی نے اسے روک دیا۔


یہاں سگریٹ نہ پی صبح تک کمرے سے بو نہیں جاتی اور اماں سویرے سویرے آکر کمرے کی صفائی کرنے لگ جاتی ہے اسے شک ہو جاۓ گا یہاں کوئی آیا تھا۔'


ایک تو تیری اماں سے میں بڑا تنگ ہوں ایک دفعہ شادی کے لیۓ ہاں کر دے پھر اسے دیکھوں گا۔' صغیرے نے سگریٹ دوبارہ جیب میں رکھتے ہوۓ کہا۔


اماں ایسی نہیں تھی' لڑکی بولی 'بس ابا کے مرنے کے بعد ایسی ہو گئ ہے اسے ہر وقت میری فکر کھاۓ رکھتی ہے وہ چاہتی ہے میری اس کے جیتے جی کہیں شادی ہو جاۓ تاکہ یہ نہ ہو اس کے جانے کے بعد میں اکیلی ہو جاؤں۔'


تو پھر شادی کے لیۓ ہاں کیوں نہیں کرتی؟' صغیرے نے پوچھا 'یہاں تو لڑکا بھی اس کا دیکھا بھالا ہے اور لڑکے کے گھر والوں کو بھی وہ اچھی طرح جانتی ہے۔'


وہ تو ہے پر وہ چاہتی ہے میری شادی کسی سوکھے اور کھاتے پیتے گھر میں ہو۔'


تو میرا گھر کیا ماڑا ہے؟۔۔۔ بھوکا تو نہیں رکھوں گا تجھے؟'


تو بات سمجھ نہیں رہا اس کا دل ہے میری شادی کسی اونچے گھر میں ہو۔ وہ سوچتی ہے لڑکا چاہے جیسا بھی ہو بس پیسے والا ہو۔'


تو کیا تمہارے لیۓ وہ کوئی راجہ مہاراجہ یا کسی محل کا شہزادہ ڈھونڈ رہی ہے؟'


پتہ نہیں کیا ڈھونڈ رہی ہے پر مجھے لگتا ہے وہ یہی چاہتی ہے۔' لڑکی خاموش ہوئی پھر پریشان ہو کر مغموم انداز سے بولی۔ 'لیکن صغیرے۔۔۔! اگر اسے کوئی مل گیا تو؟'


صغیرے نے آنکھیں کھولیں تو اس کے ہاتھ میں سگریٹ بجھ چکا تھا اس نے بچا ہوا سگریٹ انگیٹھی میں پھینک دیا۔ اس کے دونوں ساتھی خاموش بیٹھے تھے  شکورے نے آنکھیں کھول رکھی تھیں مگر وہ کمرے میں موجود کسی چیز کو نہیں دیکھ رہا تھا اس کی آنکھیں کہیں اور لگی تھیں بلکہ وہ خود بھی یہاں موجود نہ تھا ایک چھوٹے سے حستہ حال کمرے میں تھا جس میں تین چار پائیاں بچھیں تھیں ایک چارپائی پر شکورا تکیے سے ٹیک لگاۓ سر کے پیچھے دونوں ہاتھ باندھ کر بیٹھا تھا اور خیالوں میں گم تھا۔ اس کے پیچھے دوسری چارپائی پر ایک تین چار سال کی چھوٹی سی بیمار بچی لیٹی تھی اس کے ساتھ اس کی ماں بیٹھی اسے دوا کھلا رہی تھی۔ اس کے بالکل سامنے والی چارپائی پر ایک عورت بیٹھی تھی اس نے ہاتھ آگے بڑھایا اور بچی کی دونوں آنکھوں کا معائنہ کر کے بولی۔ 'سکینہ بچی کا تو کوئی حال نہیں تو اسے کسی چنگے ڈاکٹر کے پاس کیوں لے کر نہیں جاتی؟'


لے کر گئ تھی باجی!' سکینہ اپنے دوپٹے کے پلو سے بچی کا منہ صاف کرتے ہوۓ بولی۔ 'چنگا ڈاکٹر پیسے بھی چنگے مانگتا ہے اس کا باپ دن بھر کی مزدوری کے بعد جو کما کر لاتا ہے وہ تو ہانڈی روٹی اور گھر کے دوسرے خرچوں پر لگ جاتے ہیں اس کے بعد تو کچھ نہیں بچتا۔ اگر ہم پورے مہینے کی مزدوری بھی جوڑیں تب بھی اتنے پیسے اکٹھے نہیں کرسکتے کہ اس کا علاج کسی چنگے ڈاکٹر سے کروا سکیں۔'


تو یہ والا ڈاکٹر کیا بتاتا ہے؟' 


اس نے دوائی تو دی ہے پر وہ بھی یہی کہتا ہے کہ اسے وڈے ہسپتال لے جاؤ وہیں اس کا بہتر علاج ہو گا۔' 


چل کوئی بات نہیں تو پریشان نہ ہو دل چھوٹا نہ کر اللہ ماڑوں کی سننے والا ہے وہ کوئی سبیل نکالے گا۔ وہ بچی کو شفاء دے گا۔ اور پا شکورے تو بھی پریشان نہ ہو اللہ پہ چھوڑ دے اس کے ہر کام میں کوئی بہتری ہوتی ہے وہ سب ٹھیک کر دے گا۔'


شکورا خاموش رہا اور صرف سر ہلا کر اس کی بات کا جواب دیا۔ عورت اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے دوپٹے کے پلو سے بندھا ہوا پانچ سو کا نوٹ نکال کر بچی کے سرہانے رکھ کر بولی۔ 'یہ رکھ لو میں بس اتنا کر سکتی تھی اس سے زیادہ کر سکتی تو ضرور کرتی۔' 


نہیں باجی میں یہ نہیں لے سکتی اس کی ضرورت نہیں۔' سکینہ نے نوٹ اٹھایا اور اسے واپس لوٹانے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا۔


عورت سکینہ کی مٹھی کو بند کرکے اس کا ہاتھ دبا کر بولی۔ 'رکھ لو اس سے تم لوگوں کا زیادہ تو کچھ نہیں بنے گا لیکن شاید ایک آدھ دن کی بچی کی دوائی آجاۓ یا کسی اور ضروری کام آجائیں۔' عورت پیچھے ہٹی اور بولی 'میں چلتی ہوں پھر کسی دن آؤں گی۔' اس نے جاتے ہوۓ آخری بار شکورے اور سکینہ دونوں کو سلام کیا اور باہر نکل گئ۔ شکورا اس بار بھی بالکل اسی طرح بیٹھا رہا اور بس سر کی ہلکی سی جنبش سے اسے سلام کا جواب دیا۔  


رات کافی گہری ہو گئ تھی اور سردی بھی پہلے سے بڑھ گئ تھی۔ لیکن کمرے کا اندر کا درجہ حرارت جلتے ہوۓ کوئلوں کے باعث بہتر تھا۔ شکورا چوکی گھسیٹ کر انگیٹھی کے پاس آگیا اور جیب سے سگریٹ نکال کر انگلیوں میں پھنسا کر دروازے کے پاس بیٹھے ہوۓ آدمی سے کہا۔ 'غفورے دوائی دے یار آج ایک دو سے کام نہیں بنے گا۔'


غفورے نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک سیاہ رنگ کی گولی شکورے کو دے کر بولا۔ 'ہتھ ہولا رکھ یار دوائی تھوڑی رہ گئ ہے ختم ہو جاۓ گی تو کل کیا کریں گے۔'


شکورا پکا سگریٹ بنانے میں مصروف ہو گیا اور غفورا چھوٹی سی چھڑی اٹھا کر کوئلوں کو درست کرنے میں لگ گیا۔ انگیٹھی میں چھڑی گھماتے ہوۓ اسے اک خیال آیا جو اسے اٹھا کر کہیں اور لے گیا۔ 


ایک قدرے بڑا سا کمرا تھا جہاں وہ بالکل اسی طرح انگیٹھی میں چھڑی گھما رہا تھا۔ کمرے میں تین چار چارپائیاں بچھی تھیں۔ اس کے دو بچے ادھر ادھر بھاگ کر کھیل رہے تھے جبکہ اس کی بڑی بیٹی ایک طرف بیٹھ کر سکول کا کام کر رہی تھی۔ سب سے آخر والی چارپائی پر دیوار کے پاس اس کی بوڑھی ماں لیٹی تھی۔ اس کی بیوی اندر آئی اور بولی۔ 'ابھی تک کوئلوں کو چھیڑ رہے ہو اٹھ کر بستر میں چلے جاؤ بہت رات ہو گئ ہے۔' 


اٹھنے لگا ہوں۔' غفورا کوئلوں میں چھڑی گھماتے ہوۓ بولا۔


اچھا میری ایک بات سن۔' اس کی بیوی اس کے پاس والی چارپائی پر بیٹھ کر بولی۔ ' اپنا انور پورے آٹھ برس کا ہو گیا ہے اسے سکول سے اٹھا کر کسی کام پر لگا چار پیسے لے کر آۓ گا تو گھر کے حالات کچھ بہتر ہوں گے۔' 


ابھی اسے پڑھنے دے اس کی بجاۓ نفیسہ کو سکول سے چھڑوا لیتے ہیں تو اسے گھر کے کام کاج سیکھا بعد میں بھی تو اس نے یہی کرنا ہے۔' غفورے نے کوئلوں میں ہلکی سی پھونک مار کر کہا۔


نفیسہ کو چھڑوا کر کیا فائدہ ہو گا۔' اس کی بیوی بولی 'وہ کما کر تو نہیں لاۓ گی۔ میں تو کہتی ہوں تو اسے کام پر لگا تاکہ یہ کچھ سیکھ جاۓ اور چار پیسے گھر میں آئیں۔ دو دن اسے اپنے ساتھ پھیری پر لے کر جا اور پھر اسے مال لے کر دے تاکہ یہ خود پھیری لگاۓ۔'


تو بھی کمال کرتی ہے ابھی اس کی عمر ہوئی ہے پھیری لگانے والی۔ پچھلے دنوں میں نے اس کے ماسٹر سے بھی بات کی تھی وہ کہتا ہے اس کا ذہن اچھا ہے اسے پڑھنے دو۔'


ذہن اچھا ہے تو کیا ہوا تو کتنی دیر تک اسے پڑھا لے گا زیادہ سے زیادہ ایک دو سال اور۔۔۔ اس کے بعد کیا کرے گا اس کی پڑھائی کے خرچے کیسے اٹھاۓ گا۔


جو بھی ہے کم سے کم اسے دسویں تو کرنے دے۔ میں چاہتا ہوں یہ پڑھ لکھ کر کچھ بن جاۓ میری طرح ساری زندگی پھیریاں نہ لگاتے پھرے۔' غفورا مغموم انداز سے بولا۔


دسویں کرکے کون سا تیر مار لے گا۔ یہ اپنے ساتھ والی باجی رخسانہ کا لڑکا پوری سولہ جماعتیں پاس ہے دو سال ہو گۓ بیچارے کو دھکے کھاتے ہوۓ کہیں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ملا۔'


وہ تو ہے پر۔۔۔'


میں کچھ نہیں جانتی تو اسے جلدی سے کسی کام پر لگا۔ کھانے کو روٹی ٹھیک طرح سے مل نہیں رہی اور تو اسے پڑھانے کی ضد کر رہا ہے۔'


غفورا سر ہلا کر خاموش ہو گیا اور چھڑی سے کوئلوں کو بکھیرنے میں لگ گیا۔  



کمرے میں ابھی بھی مکمل خاموشی تھی۔ غفورا انگیٹھی میں چھڑی گھما رہا تھا اور شکورا پکا سگریٹ پینے میں مصروف تھا۔ صغیرے نے شکورے کے ہاتھ سے سگریٹ لیا ایک دو کش لگایا اور سر پیچھے گرا کر دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔ اس بار وہ اس لڑکی کے ساتھ ایک تنگ گلی میں کھڑا تھا۔ شام ہو چکی تھی لیکن اندھیرا ہونا ابھی باقی تھا۔ لڑکی آہستہ آواز میں سرگوشی کے انداز میں بولی 'میں بس تجھے یہ بتانے آئی تھی اماں کو کوئی مل گیا ہے۔'


صغیرے کو چند لمحے اس کی بات پر بالکل بھی یقین نہ آیا۔ 'کون ہے وہ؟' اس نے خیرت سے پوچھا۔


پتہ نہیں سنا ہے بہت پیسے والا ہے۔'


صغیرا طنزیہ انداز میں ہلکا سا ہنسا۔ لڑکی چند لمحے خاموش کھڑی رہی پھر بولی 'میں چلتی ہوں اندھیرا ہو گیا۔'


ہاں اندھیرا تو ہو گیا ہے۔' صغیرا اس کے چہرے پر نظریں گاڑھ کر بولا۔


لڑکی پیچھے ہٹی اور واپس چل پڑی۔ گلی کے موڑ پر جا کر رک کر اس نے پیچھے دیکھا صغیرا وہیں کھڑا اسے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا لڑکی کچھ دیر تک اسے دیکھتی رہی پھر گلی سے باہر نکل کر موڑ مڑ گئ۔


صغیرے نے آنکھیں کھولیں اور بلب کی طرف دیکھا ایک چھپکلی رینگتی ہوئی بلب کے پاس سے گزری اور پھسل کر زمین پر آگری۔ دور کہیں سے ریل گاڑی کی سیٹی کی آواز گونجی اس نے دیوار پر ٹنگی گھڑی سے وقت دیکھا تین بج رہے تھے وہ اٹھا اور دروازہ کھول کر گلی میں آگیا۔ گلی پہلے سے زیادہ ویران، سنسان اور تاریک تھی۔ وہ گلی سے نکلا اور دھند میں چلتا ہوا واپس گھر کی طرف چل پڑا۔






 




















Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات