Drizzling Of Love

Drizzling Of Love





 کردار

نسیم احمد بیگ: پینتالیس، پچاس برس کا ایک پڑھا لکھا آدمی۔


فہد نسیم: بیس بچیس پرس کا جوان لڑکا۔ نسیم احمد بیگ کا بیٹا۔


سکینہ: نسیم بیگ کی بیوی، فہد کی امی۔


اماں بلقیس: ایک بوڑھی ان پڑھ مخلص سیدھی سادی عورت۔ سکینہ کی رشتے دار۔


رشیدی+ فاروق: نسیم احمد کے دوست۔


پہلا منظر


دن۔ نسیم احمد کا گھر۔


ایک وسیع کمرا جس میں نسیم احمد تنہا کرسی پر بیٹھا ہے۔ اس کے سامنے ایک بڑا سا میز ہے جس پر دو تین کتابیں پڑی ہیں۔ ایک کتاب بالکل اس کے سامنے کھلی پڑی ہے لیکن وہ اسے پڑھ نہیں رہا بلکہ وہ دوسری طرف دیکھ رہا ہے اور کسی خیال میں کھویا ہے۔ کتاب کے ساتھ میز پر ایک چاۓ کا کپ پڑا ہے۔ سکینہ اندر آتی ہے۔


سکینہ: (اندر آکر) آپ ابھی تک یہاں بیٹھیں ہیں باہر شام ہونے والی ہے۔ اور یہ چاۓ آپ نے ابھی تک پی کیوں نہیں اب تو ٹھنڈی ہو کر شربت بن گئی ہو گی۔ (اردگرد الماری اور میز وغیرہ کو کپڑے سے جھاڑنے لگتی ہے) دیکھیں کتنی دھول اڑ رہی ہے۔ نفیسہ آج پھر نہیں آئی۔ کل آۓ گی تو اسے ٹھیک کروں گی۔ کتنی دفعہ کہا ہے اتنی چھٹیاں نہ کیا کر پھر بھی بعض نہیں آتی سارا گھر گندا ہوا ہوا ہے۔ اور آپ! آپ کو بتایا بھی تھا کہ کل فہد آرہا ہے اس کے کمرے کے باتھ روم کا فلش خراب ہے اسے ٹھیک کروانا ہے۔ پر آپ۔۔۔! (اس کی طرف دیکھ کر) سن بھی رہے ہیں کہ نہیں؟ (نسیم اس کی بات سن لیتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا) 


سکینہ: نسیم!...


(ابھی بھی نہیں بولتا۔ دوبارہ آواز دیتی ہے)


سکینہ: نسیم! نسیم!


نسیم: ہونہہ!


سکینہ: کیا ہوا؟


نسیم: کچھ نہیں ہوا۔


(چاۓ پر نظر پڑتی ہے) میری چاۓ! یہ تو ٹھنڈی ہو گئی۔


سکینہ: ٹھنڈی تو ہونی تھی میں اتنی دیر پہلے رکھ کر گئی تھی۔ اب بھی ٹھنڈی نہ ہوتی۔


نسیم: اچھا چھوڑو اسے! تم بتاؤ تم فہد کے بارے میں کیا کہہ رہی تھی۔


سکینہ: میں کہہ رہی تھی کل اس نے آنا ہے تو اس کے باتھ روم کا فلش ٹھیک کروا دیں۔


نسیم: او ہو! تم فلش کو چھوڑو یہ بتاؤ آ کب رہا ہے۔


سکینہ: کل شام تک پہنچے گا۔


نسیم: (اٹھتے ہوۓ) اچھا ٹھیک ہے پھر کل دیکھیں گے۔


سکینہ: اب جا کہاں رہے ہیں؟


نسیم: کمرے سے باہر جا رہا ہوں۔ خود ہی کہہ رہی تھی سارا دن باہر نہیں نکلے اب جب نکل رہا ہوں تو اعتراض کر رہی ہو۔ وہ رشیدی اور فاروق کا فون آیا تھا وہ آنے والے ہوں گے۔


سکینہ: تو ایسے کہیں نا آپ کے دوست آنے والے ہیں۔ اچھا مجھے یاد آیا وہ اماں بلقیس کہہ رہی تھی اسے آپ سے کوئی ضروری بات کرنی ہے۔ 


سکینہ: مجھ سے کیا بات کرنی ہے اسے؟


سکینہ: مجھے کیا پتہ! میں نے پوچھا تھا لیکن اس نے کہا کہ آپ کو ہی بتاؤں گی تو میں خاموش ہو گئی۔


نسیم: اچھا چلو ٹھیک ہے۔ آ کر کر لے جو بات بھی کرنی ہے۔


(کمرے سے نکل جاتا ہے)


دوسرا منظر


رات۔ نسیم بیگ کا گھر۔


ایک ڈرائینگ روم میں نسیم بیگ اور اس کے دونوں دوست بیٹھے ہیں۔ ایک طرف اماں بلقیس بھی بیٹھی ہے۔


نسیم بیگ: ہاں اماں بول مجھ سے کیا بات کرنی تھی؟


اماں بلقیس: میں نے یہ کہنا تھا پتر تو مجھے صبح ایک جگہ لے جاۓ گا؟


نسیم بیگ: کہاں اماں؟ کہاں جانا ہے تمہیں؟


اماں بلقیس: پتر مجھے پتہ چلا ہے یہاں ایک بزرگ بیٹھتے ہیں بیری والے کھوہ کے پاس تو مجھے وہاں لے چل۔


نسیم بیگ: پر اماں تو کیوں جانا چاہتی ہے اس بزرگ کے پاس؟


اماں بلقیس: پتر میں نے سنا ہے بڑے کرنی والے بزرگ ہیں جو بھی ان کے پاس جاتا ہے اس کی مراد ضرور پوری ہوتی ہے۔ میں بھی ان سے دعا کے لیۓ جاؤں گی شاید میری بھی مراد پوری ہو جاۓ۔


نسیم بیگ: وہ تو ٹھیک ہے اماں پر تیری کیا مراد ہے کیا چاہیۓ تجھے سب کچھ تو ہے تیرے پاس۔


اماں بلقیس: مجھے اپنے لیۓ تو کچھ نہیں چاہیۓ پتر بس اس شودی، نماڑیں کے لیۓ دعا کروانی ہے۔ بے چاری بڑی تکلیفیں سہہ رہی ہے۔ 


نسیم بیگ: کون اماں؟ کس کی بات کر رہی ہو۔


اماں بلقیس: وہ اپنی کلثوم نہیں گھکھڑ والی اس کے لیۓ۔ بے چاری بڑی مصیبت میں ہے۔


نسیم بیگ: کیوں کیا ہوا اسے؟


اماں بلقیس: ہونا کیا ہے شودی کو چوتھی بار بھی لڑکی ہوئی ہے۔ اس کا خاوند بڑا کھروی طبعیت کا بندہ ہے وہ اسے مارتا ہے اور دھمکیاں بھی دیتا ہے کہتا ہے اگر اب کی بار بھی لڑکی ہوئی تو اسے چھوڑ کر دوسرا بیاہ کر لے گا۔ بے چاری بڑی پریشان ہے۔ میں اس کے لیۓ دعا کرواؤں گی ہو سکتا اس بار اس کی سنی جاۓ اور اس کو لڑکا ہو جاۓ۔ تو مجھے لے چل ان کے پاس۔


رشیدی: اماں تو خود دعا کیوں نہیں کرتی کیا تیری دعا خدا نہیں سنے گا؟


اماں بلقیس: نہ پتر ہم جیسوں کے ایسے نصیب کہاں۔ اس کے لیۓ تو کچھ خاص لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کے بڑے قریب ہوتے ہیں۔ جو اسے بڑے پیارے ہوتے ہیں۔ اللہ ان کی دعا کبھی رد نہیں کرتا۔ 


فاروق: اماں یہ سب جہالت کی باتیں ہیں ایسے لوگ دھوکے باز ہوتے ہیں صرف پیسوں کے لیۓ یہ سب کرتے ہیں۔ 


اماں بلقیس: نہیں پتر میں نے سنا ہے وہ بزرگ تو کسی سے ایک روپیہ نہیں لیتے بس اللہ واسطے یہ کام کرتے ہیں۔ ایسے کرنی والے لوگوں کو ہم سے لینے کی بھلا کیا ضرورت ہے ان کو تو اپنے رب کے ہاں سے مل جاتا ہے۔ وہ کوئی ہمارے مختاج ہیں۔ ایسے لوگ تو پہنچے ہوۓ لوگ ہوتے ہیں۔ ان کو بھلا ہماری کیا ضرورت۔۔۔ (نسیم سے) تو مجھے لے چلے گا نا ان کے پاس؟


نسیم بیگ: ہاں اماں صبح لے چلوں گا تو اب جا کر آرام کر۔ صبح جہاں بولے گی وہاں لے چلوں گا۔ 


اماں بلقیس: ٹھیک ہے پتر میں چلتی ہوں رب تمہیں خوش رکھے۔ (اٹھ کر جاتے ہوۓ) بس اللہ سن لے نماڑیں کی، بے چاری کی مراد بھر آۓ بڑی تکلیف میں ہے شودی۔ اللہ بھلا کرے، اللہ اسکی مصیبتیں دور کرے۔ اللہ اس کی خیر کرے۔ بڑی مصیبت میں ہے شودی۔۔۔

 (بڑبڑاتے ہوۓ باہر نکل جاتی ہے)  


رشیدی: تم عجیب آدمی ہو نسیم! تم پڑھے لکھے ہو کر ایسی باتوں کو مانتے ہو۔ تم اماں کو روکنے کی بجاۓ خود اسے وہاں لے کر جا رہے ہو۔


نسیم: میں نے کب کہا میں ایسی باتوں کو مانتا ہوں۔ وہ تو بس اماں بلقیس کے لیۓ۔۔۔


فاروق: جو بھی ہے یار کیسے کیسے ڈھونگی پاۓ جاتے ہیں جو بیچاری سیدھی سادی ان پڑھ عورتوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔ 


رشیدی: وہ تو ٹھیک ہے پر لوگوں کو خود  بھی تو عقل سے کام لینا چاہیۓ انہیں صرف خدا سے مانگنا چاہیۓ کسی اور سے نہیں۔


نسیم: میں اس سارے معاملے کو کسی اور نظر سے دیکھتا ہوں۔


فاروق: وہ کیا؟


نسیم: یہ ساری باتیں کہ خدا سے براہ راست مانگنا چاہیۓ یا کسی نیک اور پرہیزگار بزرگ کے وسیلے سے مانگنا چاہیے۔ یہ ساری باتیں، یہ خیال اس لیۓ پنپتے ہیں کیوں کہ اس کے پیچھے یہ فکر، یہ سوچ  ہے کہ لڑکے یا لڑکی کی جینڈر کا فیصلہ یا اس قسم کا کوئی اور فیصلہ خدا کرتا ہے۔


رشیدی: کیا مطلب؟ تو پھر کون کرتا ہے اگر خدا نہیں کرتا تو۔


نسیم: یہ بات آج سے دو تین سو سال  پہلے تو پھر بھی مانی جا سکتی تھی مگر آج حیاتیات کے علم نے ہمیں بتا دیا ہے کہ یہ سارا چکر ایکس اور واۓ کروموسومز کا ہے۔ دو ایکس مل جائیں تو لڑکی اور اگر ایکس اور واۓ مل جائیں تو لڑکا۔ اس قانون کو دریافت کرنے کے بعد ہم نے ایسی ٹیکنالوجی بنا لی کہ اب ہم اپنی مرضی سے لڑکا بھی پیدا کر سکتے ہیں اور لڑکی بھی۔ یعنی کہ یوں کہہ لو! جو فیصلے پہلے خدا کرتا تھا اب ہم خود کرنے لگے ہیں۔ (شرارت سے) خدا سے ہم نے فیصلے کا اختیار چھین لیا ہے ویسے۔۔۔


فاروق: تو تم کہنا چاہتے ہو خدا اپنے بناۓ ہوۓ قوانین کا اسیر ہے وہ قانون سے بالا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا ختیٰ کہ لوگوں کی مصیبت میں مدد بھی نہیں کر سکتا۔


نسیم: کر سکتا ہے اس کے پاس قوت و اختیار تو ہے مگر اس کا طریقہ کار یہ نہیں لگتا۔ وہ ایسا کرتا ہوا نظر تو نہیں آتا۔ 


رشیدی: نہیں ایسا نہیں ہے خدا نیک پرہیزگار اور سچے لوگوں کی ضرور مدد کرتا ہے۔


نسیم: تو پھر اس نے امام حسین کی کیوں مدد نہیں کی؟


فاروق: کیا؟ کیا کہا؟


نسیم: ہاں! امام حسین۔۔۔ وہ تو نیک اور پرہیزگار بھی تھے اور حق پر بھی تھے۔  مصیبت بھی جو ان پر آئی وہ کوئی معمولی مصیبت نہیں تھی۔ تپتے صحرا میں بھوکا پیاسا رکھ کر مارا گیا انہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی تھے۔ ایسا ہیبت ناک اور اندوہناک واقعہ جسے آج محض سن کر یا پڑھ کر  ہماری چیخیں نکل جاتی ہیں لیکن خدا کا تو دیکھ کر بھی دل نہیں پسیجا۔ 


فاروق: تم خدا کے بارے میں اس طرح کے الفاظ استعمال مت کرو۔


 (نسیم اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور ایک طرف جا کر بات کرتا ہے) 


نسیم:  تو پھر بتاؤ عمر کی مدد کیوں نہیں کی خدا نے؟ عثمان کی۔۔۔ علی کی مدد کیوں نہیں کی؟ یہ تینوں تو اسلامی حکومت کے سربراہ بھی تھے اور پیغمبر کے قریبی ساتھیوں اور عزیزوں میں سے تھے۔ نیک اور متقی بھی تھے۔ لیکن خدا تینوں کو قتل ہونے سے نہیں بچا سکا۔ چلو یہاں تک تو پھر بھی بات قبول ہوتی۔ اس نے نوح کی مدد کیوں نہیں کی؟ وہ تو اس کے اپنے منتخب کیۓ ہوۓ پیغمبر تھے۔ انہیں کشتی بنانے پہ کیوں لگا دیا۔ بیچارے تن تنہا اتنے جوکھم اٹھا کر اتنی بڑی کشتی بناتے رہے۔ خدا کے لیۓ کیا یہ مشکل تھا کہ وہ کوئی پھونک مارتا یا کُن کہتا تو وہ اور ان کے ساتھی اڑ کر کسی پہاڑ کی چوٹی پر جا پہنچتے۔ ایسا خدا نے کیوں نہیں کیا؟۔۔۔ میرے بھائی جب یہ سب اعلیٰ و ارفع لوگ بھی دنیاوی اسباب کے مختاج تھے تو میں آپ ہم سب کس کھیت کی مولی ہیں۔ ہم کیا اُن سے زیادہ متقی، زیادہ پرہیزگار ہیں؟ یا ہم خدا کو ان سے زیادہ پیارے ہیں؟


تیسرا منظر 


دن۔ نسیم کا گھر۔


نسیم اپنے گھر میں بڑے سے لان میں کرسی پر بیٹھا تقریباً اونگھ رہا ہے۔ اردگرد درختوں اور پودوں پر چڑیوں اور دوسرے پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں آرہی ہیں۔ چند لمحوں بعد سکینہ آتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک پلیٹ ہے جس میں سے وہ چمچ سے کچھ کھاتے ہوۓ چلی آرہی ہے۔


سکینہ: (کرسی پر سامنے بیٹھتے ہوۓ) آپ کو پھر سے نیند آنے لگی۔


نسیم: (ہلکا سا چونک کر) ہاں! نیند۔۔۔!ہاں آج صبح سے کچھ غنودگی سی طاری ہے۔ اوپر سے دھوپ میں بیٹھ کر اور زیادہ نیند آنے لگی ہے۔


سکینہ: خیرت ہے آپ تو رات بھر سوۓ رہے ہیں پھر بھی آپ کو نیند آرہی ہے۔ جبکہ میں ساری رات ٹھیک طرح سے سوئی نہیں اور اب بھی نیند مجھ سے کوسوں دور ہے۔


نسیم: میں جانتا تھا رات کو تمہیں بالکل نیند نہیں آۓ گی۔ کیونکہ آج تمہارا لاڈلا جو آرہا ہے۔ اور اسی خوشی میں تم آج برسوں بعد اپنی پسندیدہ فیرنی کھا رہی ہو۔


سکینہ: ہاں نسیم! برسوں پہلے جب اپنا راشد فوت ہوا تھا اس دن کے بعد سے میں نے کبھی فیرنی کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ خالانکہ اس سے پہلے میں تقریباً روز کھایا کرتی تھی۔ اس کے جانے کے بعد پتہ نہیں ایسا کیا ہوا مجھے فیرنی کی خوشبو سے ابکائی سی آنے لگتی تھی۔ لیکن آج برسوں بعد پتہ نہیں کیوں نسیم میرا دل کیا کہ میں پھر سے فیرنی بنا کر کھاؤں۔ 


نسیم: تم ٹھیک کہتی ہو سکینہ! جب انسان کی زندگی میں کوئی حادثہ پیش آتا ہے یا کوئی بہت اہم واقع رونما ہوتا ہے خاص کر کسی بہت قریبی عزیز جس سے اس کو بہت محبت ہو کے بچھڑ جانے کا یا برسوں بعد اس کے ملنے کا، تو انسان کی زندگی میں کئ تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ تم نے دیکھا نہیں بہت سے لوگ جو اپنے شعبے میں بہت نام بنا چکے ہوتے ہیں کیسے ایک واقعہ یا حادثہ ان کی کایا کلپ کر دیتا ہے۔ وہ جس راستے پر برسوں سے چل رہے ہوتے ہیں ایک دم اس کو چھوڑ کر کوئی بالکل متبادل راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔ مذہب کو غیر سنجیدگی سے لینے والے کسی حادثے کے بعد مذہبی رسومات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگتے ہیں۔ یا مذہب کو بہت پسند کرنے والے ردعمل میں اس کے بالکل برعکس راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔۔۔۔ لیکن تم جانتی ہو سکینہ؟ ایک تیسری قسم کے بھی لوگ ہوتے ہیں۔  


سکینہ: کون سے؟


نسیم: وہ لوگ سکینہ! جن پر حوادثِ دنیا کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جن میں واقعات اور سانحات کوئی تغیر پیدا نہیں کر سکتے۔


سکینہ: توبہ ہے ایسے پتھر لوگ بھی ہوتے ہیں۔


نسیم: نہیں سکینہ تم بات سمجھی نہیں۔ ایسا نہیں کہ زندگی کے خوادث و سانحات سے ان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی یا ان کو دکھ نہیں ہوتا۔ یا کسی  خوشگوار واقعہ سے ان کو مسرت کا احساس نہیں ہوتا۔ کسی بھی نارمل انسان کی طرح انہیں بھی یہ سب کچھ جھیلنا پڑتا ہے جیسے باقی سب جھیلتے ہیں۔ میرے کہنے سے مراد یہ ہے سکینہ! کوئی واقعہ یا کوئی حادثہ ان کی زندگی کے نصب العین اور طور طریقوں کو نہیں بدل سکتا۔ ان کے افکار و نظریات کے قلعے کی مضبوط فصیلوں کو مسمار نہیں کر سکتا۔۔۔۔ جانتی ہو ایسا کیوں ہوتا ہے؟


سکینہ: کیوں؟


نسیم: کیونکہ وہ جانتے ہیں زندگی کیسی ہے اور اسے کیسا ہونا چاہیۓ یا اسے کیسے گزارنا چاہیۓ۔ وہ جانتے ہیں کہ جس انسانی سماج میں وہ سانس لے رہے ہیں وہ کیسا ہے اور اسے کیسا ہونا چاہیۓ۔ وہ اور ان جیسے بہت سے لوگ زندگی اور سماج کے بارے میں اپنی پختہ اور ٹھوس راۓ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کوئی حادثہ و سانحہ اور کوئی واقعہ یا تجربہ ان کو دکھ اور تکلیف تو پہنچا سکتا ہے، انہیں مسرت اور راخت تو بخشتا ہے مگر ان کی زندگی کے نصب العین اور طور طریقوں میں کوئی بڑا تغیر پیدا نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں نے اپنا نصب العین اور اپنی راہ چونکہ سوچ سمجھ کر پختہ اور ٹھوس دلائل سے متعین کی ہوتی ہے اس لیۓ ان میں تبدیلی بھی وہ کسی واقعے یا حادثے کی بجاۓ پختہ دلائل سے کرتے ہیں۔


سکینہ: آپ ٹھیک کہتے ہیں نسیم۔ میرے کالج میں میری ایک کلاس فیلو تھی۔ بہت چنچل لڑکی تھی۔ بڑی ماڈرن اور براڈ مائنڈڈ۔۔۔جینز پہنتی تھی، گانے سنتی تھی، فلمز دیکھتی تھی۔ ہر وقت یہاں وہاں گھومتی رہتی تھی۔ بڑی زندہ دل لڑکی تھی۔ وہ ایک لڑکے سے محبت کرتی تھی اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ اس نے بہت کوشش کی کہ وہ اسے مل جاۓ مگر شاید اس کی قسمت میں نہیں تھا۔ اس واقعے کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ اس کے بعد وہ مکمل طور پر بدل گئی۔ پہلے اس نے جینز پہننا چھوڑی پھر نقاب کرنے لگی۔ اس کے بعد تو وہ برقعے میں کالج آنے لگی۔ اور تو اور اس نے ہاتھ میں تسبیح بھی پکڑ لی۔ اس لڑکی کی ایسی کایا پلٹی کے اب کوئی دیکھے تو پہچان نہ پاۓ کہ یہ وہی لڑکی ہے۔ 


نسیم: میرا خیال ہے لوگوں میں ایسی تبدیلی محض اپنی جذباتی و نفسیاتی الجھن کی سیٹسفیکشن کے لیۓ ہوتی ہے۔


سکینہ: کسی اور کی کیا بات کریں جب راشد فوت ہوا تھا تو میرا اپنا دل کرتا تھا کہ میں ہر وقت مصلے پر بیٹھی رہوں۔۔۔ اچھا ویسے آپ بتائیں راشد کے فوت ہونے کے بعد آپ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی؟


نسیم: میں تمہارے سامنے ہی ہوں اگر کوئی ہوتی تو تمہیں اس کا احساس ہو جاتا۔


سکینہ: ایک تبدیلی بہرحال آپ میں آئی تھی۔


نسیم: کیا؟


سکینہ: راشد کے فوت ہونے کے بعد آپ فہد کے معمالے میں بڑے مختاط ہو گۓ تھے۔ ذرا سا وہ ادھر ادھر کہیں ہو جاۓ تو آپ کو فکر ہونے لگتی تھی۔


نسیم: ہاں بھئی! یہ تو ظاہر سی بات ہے۔ یہ کوئی تبدیلی تو نہیں۔ ایک بیٹے کو کھونے کے بعد دوسرے بیٹے کی فکر تو ہر باپ کو پہلے سے زیادہ ہی ہو گی۔ لیکن پھر بھی دیکھو میں نے اسے اتنی دور جرمنی جا کر پڑھنے کے لیۓ نہیں روکا۔ کیونکہ حادثے تو کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔ وہ تو گھر بیٹھے بھی ہو جاتے ہیں۔


سکینہ: چلیں چھوڑیں ایسی باتیں نہ کریں۔ آج وہ پورے چارے سال بعد آرہا ہے اللہ خیر کرے وہ ٹھیک ٹھاک گھر پہنچ جاۓ۔



چوتھا منظر


دن۔ نسیم کا گھر۔


ایک بڑے سے حال یا لیونگ روم میں سکینہ اور اماں بلقیس بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی ہیں۔ سکینہ ساتھ گھر کا کوئی کام کر رہی ہے۔ موبائل کی گھنٹی بجتی ہے سکینہ اپنے پاس رکھا موبائل اٹھا کر بات کرتی ہے۔


سکینہ: (اماں بلقیس سے) اماں ذرا ٹی وی کی آواز آہستہ کرنا۔


(اماں ریموٹ سے ٹی وی کا والیم کم کرتی ہے)


سکینہ: (فون پر) ہیلو!۔۔۔جی۔۔۔وعلیکم السلام ابا جی۔۔۔ پتہ نہیں شاید واش روم میں ہوں گے۔۔۔ہاں جی آج ہی آرہا ہے۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔جی میں بتا دوں گی۔۔۔جی۔۔۔ٹھیک ہے۔


 (فون بند کر دیتی ہے)


اماں بلقیس: کتنے بجے تک پہنچے گا اپنا فہد؟


سکینہ: اماں کہہ تو رہا تھا شام تک پہنچ جاۓ گا۔ پر مجھے لگتا ہے ائیرپورٹ سے گھر تک پہنچتے پہنچتے رات کے آٹھ نو بج جائیں گے۔ 


اماں بلقیس: چل اک دو گھنٹہ پہلے کی تے بعد میں کی۔ بس منڈا خیر خیریت نل پہنچ جاۓ۔۔۔ ویسے کتنے سال بعد آرہا ہے میرا خیال ہے جب اپنی رضیہ کی شادی تھی تب گیا تھا۔ 


سکینہ: نہیں اماں رضیہ کی شادی کو تو ابھی دو اڑھائی سال ہوۓ ہیں۔ وہ تو اس سے بہت پہلے گیا تھا۔ پورے چار سال اور دو مہینے اوپر ہو گۓ ہیں اسے گۓ ہوۓ۔


اماں بلقیس: (سر ہلا کر) اچھا اچھا۔ اللہ اس کے نصیب چنگے کرے۔ خیر سے جب جانے والا تھا تو ایک دن پہلے میرے پاس آیا تھا کہتا تھا اماں میں جا رہا ہوں تو دعا کریں میرا ادھر دل لگ جاۓ۔  اس وقت تو مجھے لگتا تھا اتنا سا لڑکا جس کی ابھی داڑھی مونچھ بھی ٹھیک طرح سے نہیں آئی اتنے برس پردیس میں اکیلا کیسے گزارے گا۔ پر اب دیکھو چار سال گزر گۓ پتہ ہی نہیں چلا۔


سکینہ: ہاں اماں مجھے بھی ایسے ہی لگتا تھا۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی۔ جب گیا تھا تو صرف انیس سال کا تھا۔ مجھے تو یہ فکر تھی کہ یہ تو ماں باپ کے بغیر ایک رات کہیں نہیں رہا پتہ نہیں وہاں کیسے رہے گا۔ شروع شروع میں تو میں اسے روزانہ دو دو تین تین بار فون کرتی تھی۔ کہتا تھا امی میں بالکل ٹھیک ہوں مجھے کوئی مسئلہ نہیں آپ بار بار فون نہ کیا کریں میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا جو میں بار بار بات کر سکوں۔


اماں بلقیس: ٹھیک ہی کہتا تھا شودا۔ پردیس جا کر بھلا اتنا فارغ وقت کہاں ملتا ہے جو کوئی اپنوں سے اتنی دیر بات کر سکے۔ 


پانچواں منظر


دن۔ نسیم کا گھر۔


گھر کا ایک کمرا جس میں نسیم بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا ہے۔ سکینہ اندر آتی ہے۔


سکینہ: آپ کو چھٹی ہے تو آپ نے قسم کھائی ہے کہ آج گھر سے باہر نہیں نکلنا۔


نسیم: تم نے مجھ سے کیا کروانا ہے؟


سکینہ: میں کہہ رہی تھی مارکیٹ سے کچھ سامان لا دیں۔ اور وہ فلش بھی ٹھیک کروانے والا رہتا ہے۔


نسیم: کر دیا ہے میں نے پلمبر کو فون تھوڑی دیر تک آکر ٹھیک کر جاۓ گا۔


سکینہ: اچھا ٹھیک ہے آپ اٹھ جائیں جلدی سے مجھے سامان لا دیں۔ (واپس جانے کے لیۓ پلٹتی ہے)


نسیم: اٹھتا ہوں پر بات سنو! تمہیں میں نے چاۓ کا کہا تھا آئی نہیں ابھی تک۔


سکینہ: (دوبارہ اس کی طرف مڑتی ہے) اوہ! وہ میں بھول گئی۔ ابھی بنا کر لاتی ہوں۔


نسیم: رہنے دو اب میں مارکیٹ جارہا ہوں باہر سے پی لوں گا۔


سکینہ: نہیں خدا کے لیۓ آپ چاۓ پینے نہ بیٹھ جانا۔ اگر آپ کسی کے پاس چاۓ پینے بیٹھ گۓ تو پھر دو تین گھنٹوں سے پہلے نہیں آتے۔


نسیم: خدا کی بندی کسی ایک بات پہ ٹکا کرو۔ گھر سے نہ نکلوں تو کہتی ہو باہر کیوں نہیں جا رہے اور باہر اگر تھوڑی دیر ہو جاۓ تو۔۔۔


سکینہ: آپ نے زیادہ دیر لگا دینی ہے اور مجھے چیزیں جلدی چاہیئیں میں نے فہد کے لیۓ ڈھیر ساری ڈشز بنانی ہے۔


نسیم: مجھے تو تمہاری سمجھ نہیں آرہی تم آج اس کے لیۓ اتنا کچھ کیوں بنا رہی ہو۔ رات کو وہ دیر سے پہنچے گا کھانا بھی شاید کھا کر آۓ گا۔ پھر آج یہ سب بنانے کا کیا مقصد؟ 


سکینہ: اس لیۓ کہ کچھ آج بنا لوں گی اور کچھ کل بن جائیں گی۔ ورنہ کل سارا دن مجھے کچن میں رہنا پڑے گا۔


نسیم: (اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے) اچھا ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی ہے کرو۔ مجھے بتاؤ کیا کیا لانا ہے میں جا رہا ہوں۔


سکینہ: (باہر نکلتے ہوۓ) چلیں آجائیں باہر میں آپ کو لسٹ دیتی ہوں۔


چھٹا منظر


دن۔ رشیدی کا دفتر۔


کسی دفتر کا ایک کمرا جس میں رشیدی ایک بڑی سی میز کے پیچھے بیٹھا ہے۔ اس کے سامنے میز کی دوسری طرف نسیم اور ایک آدمی بیٹھا ہے۔ جبکہ میز کے دائیں جانب دو اور آدمی  ہیں۔ چاۓ کا دور چل رہا ہے۔ بائیں جانب ایک ملازم کھڑا ہے۔ رشیدی دراز میں سے دو بڑے سے پیپر نکالتا ہے ان پر مہر لگاتا ہے اور ملازم کو دے دیتا ہے۔


رشیدی: (ملازم سے) یہ دونوں ڈاکومنٹس لے جاؤ اور ان پر آصف صاحب کے سائن کروا کر لاؤ۔


(ملازم ڈاکومنٹس لے کر چلا جاتا ہے)


رشیدی: (دائیں جانب بیٹھے ہوۓ پہلے آدمی سے) جی تو کیا کہہ رہے تھے آپ صادق صاحب!


پہلا آدمی: میں تو نسیم صاحب سے یہ کہہ رہا تھا کہ آدمی کو ہر حال میں اللہ کی رضا پہ راضی رہنا چاہیۓ۔ 


نسیم: آپ کی بات بجا لیکن خدا کی رضا پہ تو تب راضی رہیں جب دنیا خدا کی رضا اور منشا کے مطابق چل رہی ہو۔   نا انصافی، استحصال، ظلم، جبر یہ خدا کی رضائیں ہیں؟ کیا اس پر راضی ہو جائیں؟ اس کو تسلیم کر لیں؟ آپ ہی بتایۓ کیا یہ خدا کی رضا و منشا ہو سکتی ہے؟ بات شاید آپ کو بری لگے لیکن سچ یہ ہے یہ افیون ہمیں مذہب اور تصوف نے دے رکھی ہے۔ یہ مذہب اور تصوف دونوں ایک جیسے ہیں صادق صاحب۔ ایک ہمیں خانقاہ اور درگاہ میں پڑے رہنے کا درس دیتا ہے اور دوسرا مسجد کے گوشے یا حجرے میں۔ ایک کی راتیں آلتی پالتی مار کر خدا سے لو لگانے میں گزرتی ہیں اور دوسرے کی مصلے پر کھڑے ہو کر خدا کو راضی کرنے میں۔۔۔ کچھ لوگ چاند پر پہنچ چکے ہیں اور آگے مریخ پر بستیاں آباد کرنے کی تگ و دو میں ہیں جبکہ ان میں سے ایک چٹائی پر بیٹھے بیٹھے پوری کائنات کا نظارہ کر لینے کی جستجو میں ہے اور دوسرا مصلے پر محض اک سجدے سے دونوں جہان پا لینے کے لیۓ کوشاں ہے۔۔۔


(چاۓ کا کپ اٹھاتا ہے ایک گھونٹ بھرتا ہے اور کچھ توقف کے بعد دوبارہ بولتا ہے) ایسے میں آپ ہی بتایۓ صادق صاحب ہم کیا کریں۔ اگر خدا کی رضا ہوتی تو ہم فوراً اس پر سر تسلیم خم کر لیتے مگر یہاں تو معاملہ ہی دوسرا ہے۔


دوسرا آدمی: آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں نسیم صاحب۔ ہر دور میں مظلوم و محکوم و محروم لوگوں کو یہی گولی دی جاتی ہے کہ وہ اپنی محرومی و مختاجی کو منجانب اللہ سمجھیں اور راضی بہ رضا رہیں۔


(ملازم اندر آتا ہے اس کے ہاتھ میں ڈاکومنٹس ہیں)


ملازم: یہ لیں رشیدی صاحب آصف صاحب نے سائن کر دیۓ ہیں۔


رشیدی: (ڈاکومنٹس لے کر) ٹھیک ہے تم جاؤ۔۔۔ اور ہاں آصف صاحب سے پوچھنا میں نے جو کل انہیں ایک کام دیا تھا انہوں نے کیا ہے کہ نہیں۔


ملازم: جی اچھا۔ 


(ملازم چلا جاتا ہے)


رشیدی: (سامنے بیٹھے ہوۓ آدمی سے) یہ لیں جی آپ کے ڈاکومنٹس بالکل تیار ہیں۔


تیسرا آدمی: (دونوں پیپرز کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہے) یہ ٹھیک ہے ان پر بے فارم وغیرہ لگانے کی ضرورت تو نہیں؟


رشیدی: نہیں کافی ہے بے فارم کی ضرورت نہیں۔


تیسرا آدمی: ٹھیک ہے پھر مجھے آپ اجازت دیجیۓ۔


نسیم: تھوڑی دیر ٹھہر جائیں چاۓ پی کر اکٹھے ہی چلتے ہیں۔


رشیدی: (نسیم سے) کیوں تم تو بیٹھو۔ تم کہاں جا رہے ہو؟


نسیم: نہیں یار میں تو مارکیٹ سے کچھ سامان لینے کے لیۓ نکلا تھا تو تھوڑی دیر کے لیۓ تمہارے پاس آگیا۔ بس سمجھو چاۓ پینے آیا تھا۔


رشیدی: (دھیرے سے ہنس کر) اچھا! چلو ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔



ساتواں منظر


دن۔ نسیم کا گھر۔


نسیم ہاتھ میں چند شاپر وغیرہ پکڑے ہوۓ حال میں داخل ہوتا ہے۔ حال میں اماں بلقیس اکیلی بیٹھی ہے۔


نسیم: ( بلند آواز سے) سکینہ یہ لو سامان میں لے آیا ہوں۔


(شاپر میز پر رکھتا ہے اور اماں بلقیس کے پاس بیٹھ جاتا ہے)


نسیم: اماں کیا حال ہے تیرا؟


اماں بلقیس: ٹھیک ہوں بس ذرا گوڈوں میں درد نہیں جا رہا۔


نسیم: اماں اس عمر میں تو گوڈوں میں درد رہتا ہی ہے میں نے جو دوائی لا کر دی تھی گوڈوں پر لگانے کے لیۓ لگا رہی ہو؟


اماں بلقیس: ہاں وہ تو روز لگاتی ہوں۔ 


نسیم: تو بس پھر کیا ہے لگاتی جاؤ ٹھیک ہو جاۓ گا۔ تو پریشان نہ ہوا کر اماں۔ 


اماں بلقیس: پریشان نہیں ہو رہی پتر بس ذرا ٹرنے پھرنے میں تکلیف ہوتی ہے۔


نسیم: اماں تو کیوں ٹرتی پھرتی ہو اتنا آرام کیا کرو تم نے ٹر پھر کر اس عمر میں کون سا کام کرنا ہوتا ہے۔ 


اماں بلقیس: زیادہ تو نہیں ٹرتی پر ہر وقت بیٹھا بھی تو نہیں جاتا۔


(سکینہ فون پر بات کرتی ہوئی آتی ہے)


سکینہ: ہاں۔۔۔پہنچ گۓ ہو۔۔۔ کب تک۔۔۔نہیں۔۔۔ہاں


( میز پر سے شاپر اٹھا کر واپس جانے لگتی ہے)


نسیم: کس کا فون ہے؟


(سکینہ واپس جاتے جاتے اسے جواب دیتی ہے)


سکینہ: فہد کا۔


(کمرے سے نکل جاتی ہے)


آٹھواں منظر


وہی وقت۔ نسیم کا گھر۔


سکینہ باورچی خانے میں کھڑی کام کر رہی ہے اور فون پر فہد سے بات بھی کر رہی ہے۔


سکینہ: کب تک آؤ گے بیٹا تمہیں دیکھے ہوۓ کتنے دن ہو گۓ۔


فہد: بس امی ائیرپورٹ پر پہنچ چکا ہوں اب کچھ ہی گھنٹوں کی تو بات ہے۔ اور آپ یہ کیوں کہہ رہی ہیں مجھے دیکھا نہیں روز تو آپ وڈیو کال پر مجھ سے بات کرتی ہیں۔


سکینہ: ہاں لیکن وہ بات تو اور ہے۔ 


فہد: اچھا امی آپ سے پاکستان پہنچ کر بات کرتا ہوں۔ پاپا کو کہنا ائیرپورٹ آنے کی ضرورت نہیں میں خود آجاؤں گا۔ 


سکینہ: چل ٹھیک ہے اللہ خافظ۔


فہد: اللہ خافظ۔ 


نواں منظر 


رات۔ نسیم کا گھر۔


نسیم کمرے میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا ہے جبکہ سکینہ کوئی کام کر رہی ہے۔ نسیم کتاب سے نظر اٹھا کر دیوار پر لٹکی گھڑی کی طرف دیکھتا ہے۔ گھڑی پر آٹھ بجے ہیں۔ فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ نسیم اٹھ کر چند قدم دور میز پر سے اپنا موبائل اٹھاتا ہے اور کال رسیو کرتا ہے۔ دوسری طرف سے کوئی آدمی بات کرتا ہے۔


نسیم: ہیلو۔


آدمی: السلام علیکم! آپ نسیم بیگ بات کر رہے ہیں؟


نسیم: جی۔ میں نسیم بیگ بول رہا ہوں۔


آدمی: آپ کا بیٹا فہد نسیم آج شام کی فلائیٹ سے جرمنی سے پاکستان آنے والا تھا؟


نسیم: جی بالکل ہم سب گھر والے اس کا انتظار کر رہے ہیں۔


آدمی: جی نسیم صاحب میں جو خبر آپ کو سنانے والا ہوں وہ بہت افسوس ناک ہے آپ کو حوصلے سے سننی ہو گی۔


نسیم: کون سی خبر فہد کو تو نہیں کچھ ہوا؟


(سکینہ بات سن کر اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہے اور کچھ خوفزدہ سی نسیم کی طرف دیکھتی ہے)


آدمی: دیکھئیے بات یوں ہے۔ جس جہاز میں آپ کا بیٹا سفر کر رہا تھا اس کو ایک حادثہ پیش آگیا ہے۔ مجھے بے حد افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمیں جو اطلاع ملی ہے اس کے مطابق شاید ہی کسی مسافر کے بچنے کی کوئی امید ہے۔ 


(چند لمحے خاموشی رہتی ہے)


آدمی: نسیم صاحب آپ سن رہے ہیں۔ 


(نسیم خاموش رہتا ہے)


آدمی: آپ میری بات سن رہے ہیں۔ نسیم صاحب۔۔۔نسیم صاحب۔


نسیم: ( دھیرے سے بولتا ہے) جی۔۔۔میں سن رہا ہوں۔


آدمی: نسیم صاحب میں سمجھ سکتا ہوں یہ بڑا تکلیف دہ لمحہ ہے مگر آپ کو ہمت سے کام لینا پڑے گا۔ باقی جس وقت بھی مجھے کوئی اطلاع ملی سامان یا ڈیڈ باڈی کے حوالے سے تو میں آپ سے رابطہ کروں گا۔ خدا خافظ۔


(فون بند ہو جاتا ہے)



دسواں منظر


رات۔ نسیم کا گھر۔


ایک کمرے میں سکینہ جاۓ نماز پر سجدے میں گری پڑی ہے۔ اماں بلقیس اسے اٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔


اماں بلقیس: سکینہ پتر اٹھ جا کب تک مصلے پر پڑی رہے گی۔ پندرہ دن سے تو دن رات مصلے پر پڑی ہے۔ ایسے بیمار ہو جاۓ گی۔ 


سکینہ: (اسی انداز سے سجدے کی حالت میں) نہیں اماں تو جا مجھے پڑا رہنے دے ایسے ہی۔ 


اماں بلقیس: پتر میری بات مان اٹھ جا اٹھ کر اپنی حالت ٹھیک کر اور کار سنبھال۔۔۔ یہ کار تو تم نے ہی سنبھالنا ہے۔ حوصلہ کر، ہمت کر۔ یہ تو ربی کام ہیں اس کے آگے کس کی چلی ہے۔ 


سکینہ: نہیں اماں میں ٹھیک ہوں تو جا بس میں یہیں ٹھیک ہوں۔


اماں بلقیس: نہ ایسے نہ کر۔ چل رات کے وقت تو بستر پر آکر سو جا۔ صبح پھر یہاں بیٹھ جانا۔


سکینہ: اچھا اماں سو جاؤں گی تو جا ابھی۔


(اماں خاموش ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ باہر نکل جاتی ہے)


گیارواں منظر


وہی وقت۔ نسیم کا گھر۔


نسیم کمرے میں اکیلا کھڑا ہے۔ اور کسی خیال میں گم ہے۔ اماں بلقیس آتی ہے۔


اماں بلقیس: (کمرے میں داخل ہو کر) نسیم پتر۔


نسیم: جی اماں۔


اماں بلقیس: تو جا اور سکینہ کو کجھ سمجھا کہ اب اٹھ کر کام کاج کرے گھر کو سنبھالے دن رات مصلے پر پڑی رہتی ہے۔


نسیم: اماں میں کیا کروں میں نے تو اسے بڑا سمجھایا ہے پر نہیں مانتی۔


نسیم: مانتی تو نہیں پر تو ہی اسے سمجھا سکتا ہے۔ اور کتنے دن اسی طرح پڑی رہے گی۔


نسیم: ہاں اماں پتہ نہیں اور کتنے دن۔۔۔ پر اماں اس کے پاس ایک سہارا تو ہے، ایک آسرا تو ہے۔ وہ اپنے دکھوں اور غموں کا مداوا مصلے پر گر کر کر سکتی ہے۔ لیکن اماں میں کیا کروں۔ میں کہاں جاؤں۔ میں کون سا آسرا تلاش کروں۔۔۔ اماں؟


اماں: ہاں پتر؟


نسیم: (جاری رکھتے ہوۓ) میں جانتا ہوں یہ راستہ جو سکینہ نے اختیار کیا ہے فرار کا راستہ ہے۔ ایسے لوگ زندگی کا سامنا کرنے کی بجاۓ خجروں اور گوشوں میں پناہ تلاش کرتے ہیں۔ مقبروں، درباروں مسجدوں اور مندروں میں جا چھپتے ہیں۔ اس شرابی کی طرح جو زندگی کے دکھوں اور مصائب کو، ظلم و ستم کو جھیلنے کے لیۓ اور غم غلط کرنے کے لیۓ میخانے میں پناہ تلاش کرتا ہے۔ شراب میں غرق ہو کر اپنے دکھوں کی دوا کرتا ہے۔۔۔ لیکن جانتی ہو اماں ان دونوں میں کیا فرق ہے؟


اماں بلقیس: کیا؟


 نسیم: شرابی کو اپنے گناہ کا احساس ہوتا ہے وہ چاہے زبان سے اس کا اقرار نہ بھی کرے مگر دل میں وہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی اور دوسروں کی زندگی برباد کر رہا ہے۔ لیکن یہ لوگ جو دوسرا راستہ اختیار کرتے ہیں رفتہ رفتہ انہیں اس راستے پر سکون ملنے لگتا ہے۔ ان پر بھی شرابی کی طرح ایک نشہ سا طاری ہو جاتا ہے۔ لیکن اماں یہ شرابی سے بڑے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ خود کو صراطِ مستقیم پر سمجھنے لگتے ہیں اور دوسروں کو ٹھیک کرنے کے لیۓ اس راستے کی تبلیغ پر لگ جاتے ہیں۔۔۔ 

مگر اماں ہم لوگ کیا کریں۔ میں اور مجھ جیسے بہت سے لوگ کہاں جائیں؟ کون سی پناہ تلاش کریں؟ کہاں آسرا ڈھونڈیں۔ اپنے غموں اور دکھوں کا مداوا کیسے کریں؟   ہمارے لیۓ تو نہ یہ راستہ ہے اور نہ وہ۔    













 








  














 
















Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post