Drizzling Of Love

Drizzling Of Love




بس اسٹاپ تقریباً خالی تھا۔ صرف دو آدمی بنچ پر بیٹھے تھے اور ایک جوان لڑکی ان سے ذرا ہٹ کر اکیلی کھڑی تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر ایک ریڑھی بان سر پر پگڑی سجاۓ پھل بیچ رہا تھا۔ میں وہیں پر ایک بنچ میں بیٹھا یہ سب دیکھ رہا ہوں۔ یقیناً آپ اب سوال کریں گے کہ بھئ جب میں اب  بھی وہیں بیٹھا ہوا سب دیکھ رہا ہوں تو یہ سب زمانہ ماضی میں کیوں بیان کر رہا ہوں۔ چلیۓ بتاتا ہوں۔ دراصل یہ سب کچھ جو میں نے ابھی بیان کیا  چند منٹ پہلے کا منظر تھا، جو اب بدل چکا ہے۔ دو آدمی جو بنچوں پر بیٹھے تھے اب اٹھ کر جا چکے ہیں۔ لڑکی جو کھڑی تھی وہ اب کھڑی نہیں بلکہ بیٹھ چکی ہے۔ اسی طرح وہ ریڑھی بان جو پھل بیچ رہا ہے ہے تو وہ ابھی بھی یہیں اور اس کے پھل بھی دھڑا دھڑ بک رہے ہیں مگر اب وہ پگڑی اتار چکا ہے جو اس نے کچھ دیر پہلے پہنی ہوںئ تھی۔ اس کے آدھے سفید آدھے کالے بال جو دھول کے باعث کچھ بھورے بھی ہو گۓ ہیں پگڑی اتارنے کی وجہ سے ادھر ادھر اس طرح بکھر گۓ ہیں جیسے نہانے کے بعد بالوں میں تولیا کرنے سے بکھرتے ہیں۔ چہرا دھوپ، گرمی اور تھکاوٹ کے باعث مزید مرجھا سا گیا ہے، یوں تو شاید اس کی عمر کچھ زیادہ نہیں مگر اس وقت وہ کچھ بوڑھا بوڑھا سا دکھاںئ دے رہا ہے۔ دوسری طرف ایک موچی ہے جو جوتوں کے ڈھیر کے درمیان بیٹھا جوتے گانٹھ رہا ہے۔


میں یہاں بس کے انتظار کے لیۓ نہیں بیٹھا۔ مجھے بس میں سوار ہو کر کہیں بھی نہیں جانا، میں تو یہاں کہانی کی تلاش میں آیا ہوں۔ شاید یہاں بیٹھے ہوۓ کوںئ کہانی مل جاۓ جسے میں لکھ سکوں۔ میں دو تین دنوں سے یہاں آکر بیٹھ رہا ہوں تا کہ میں اپنے افسانے کے لیۓ کچھ حاصل کر سکوں۔ مگر مجھے یہاں ایسا کچھ نہیں ملا، سواۓ چند بیکار کی باتوں کے۔ چلیۓ وہی بیان کر دیتا ہوں شاید آپ کو ان میں کچھ مل جاۓ مجھے تو کچھ نہیں ملا۔


ہاں تو بات یوں ہے کہ میرے سامنے جو لڑکی بیٹھی ہے وہ روز اس وقت یہاں بیٹھ کر بس کا انتظار کرتی ہے۔ اور سڑک کے اس جانب دو لڑکے کھڑے روز اسے گھور تےہیں ۔ جس کے باعث لڑکی کچھ پریشان ہوتی ہے مگر چپ چاپ سر نیچے کیۓ اپنے موباںٔل استعمال کرتی رہتی ہے۔ وہ کسی دفتر میں کام کرتی ہے۔ مجھے اس طرح معلوم ہوا کہ ایک دن اس کی سہیلی بھی اس کے ساتھ تھی اور یہ اپنی دوست سے کہ رہی تھی۔ "یار تمہاری تو موجیں ہیں، نزدیک ہی گھر ہے آرام سے صبح اٹھے، آہستہ سے تیار ہوۓ اور یہ پہنچ گۓ آفس، مجھے دیکھو کتنی دور گاؤں سے آنا پڑتا ہے۔ دیر ہونے پر باس(Boss) سے روز ڈانٹ بھی کھانی پڑتی ہے۔ ویسے ہی سفر اتنا  لمبا ہے اوپر سے یہ بس بہت مصیبت ہے۔ اتنا رش ہوتا ہے کہ پہلے تو بس میں گھسنا ہی مشکل ہوتا ہے اور اگر گھس بھی گۓ تو خالی سیٹ ملنا محال، کیا پتا پورا سفر کھڑے ہو کر کرنا پڑے۔ اور رش کی وجہ سے کھڑا بھی یوں سمجھو ایک پاؤں پر ہونا پڑتا ہے کیوں کہ دوسرے پاؤں کی جگہ ہی نہیں بچتی۔"


بس یہیں سے میں نے جانا کہ وہ کسی دفتر میں کام کرتی ہے۔ اور دور گاؤں سے آتی ہے۔ 


میرے پیچھے جو موچی بیٹھا ہے وہ اب کھانا کھا رہا ہے۔ سڑک سے دھول اڑ اڑ کر اس کے کھانے میں شامل ہو رہی ہے مگر اسے اس کو ذرہ پروا نہیں وہ بس مگن ہو کر کھانا کھا رہا ہے۔ 


کچھ دیر بعد ایک بھیک مانگنے والی آتی ہے۔ جس کے ساتھ دو بچے ہیں۔ ایک کو اس نے گھود میں اٹھا رکھا ہے۔ وہ ایک آدمی کے پاس جاتی ہے جو کچھ فاصلے پر کھڑا ہے اور سفید اکڑی ہوںئ قمیص شلوار پہنے ہوۓ ہے۔ وہ جیسے ہی اس سے مانگنے کے لیۓ ہاتھ بڑھاتی ہے وہ غصے سے اسے ڈانٹتا ہے۔ اور یہاں سے دفعہ ہو جانے کے لیۓ کہتا ہے۔ بھیک مانگنے والی کے چہرے پر کسی قسم کے تاثرات نہیں ابھرتے وہ شاید اس کی عادی ہے وہ چپ چاپ آگے بڑھ جاتی ہے۔ اس کے جانے کے کچھ دیر بعد دو موٹرسائکل سوار آپس میں ٹکرا جاتے ہیں۔ ٹکرا اس لیۓ جاتے ہیں کیوں کہ ایک غلط سمت سے آرہا ہوتا ہے۔ دونوں اٹھتے ہیں اور ایک دوسرے کو مارنا اور گالیاں دینا  شروع کر دیتے ہیں۔ 


ان کے چند منٹ بعد ایک جلوس نعرے لگاتا ہوا آتا ہے۔ "ہمیں انصاف دو، قاتل کو پھانسی پر چڑھاؤ۔ ہم انصاف لے کر رہیں گے، یہ ڈاکڑ نہیں قاتل ہے۔"  ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ کسی ڈاکڑ کے غلط انجیکشن لگانے سے کوںئ آدمی مر گیا ہے اب اس کے لواحقین نعش کو سڑک پر رکھے احتجاج کر رہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی بھیڑ لگ گئ ہے۔ ایک ایمبیولینس مسلسل ہوٹر بجا رہی ہے مگر اس کو گزرنے کا راستہ نہیں مل رہا۔ لوگ نعرے لگا رہے ہیں ایمبیولینس مسلسل ہارن بجا رہی ہے، اتنے میں کوںئ پتھر دے مرتا ہے جس سے ایمبیولینس کا شیشہ ٹوٹ جاتا ہے۔ 


وہ لڑکی جو بس کے انتظار میں بیٹھی ہے اب پریشان دکھاںئ دیتی ہے کیوں کہ جس بس میں اس نے جانا ہے وہ جلوس میں پھنس گئ ہے۔ 


ایک بڑی گاڑی والے نے رکشہ والے کو ٹکڑ مار دی ہے۔ گاڑی والا غصے سے باہر نکلتا ہے اور رکشے والے کو زور زور سے تھپڑ مارتا ہے۔ رکشےوالا  اس سے معافی کی بھیک مانگتا ہے تو گاڑی والا اسے چھوڑ دیتا ہے اور گاڑی میں بیٹھ کر چلا جاتا ہے۔ 


وہ دو لڑکے جو سڑک کے اس پار لڑکی کو گھور رہے تھے بھیڑ سے فاںٔدہ اٹھا کر سڑک عبور کرکے اس طرف آجاتے ہیں۔ لڑکی اب زیادہ گھبرا جاتی ہے مگر خوش قسمتی سے بس آجاتی ہے۔ بس میں رش اتنا زیادہ ہے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں۔ مسافر بس کے دروازے اور کھڑکیوں سے لٹکے ہوۓ ہیں۔ بعض چھت پر بھی سوار ہیں۔ بلکہ چھت بھی مسافروں سے بھری ہے۔ کچھ لوگ سیڑھیوں پر لٹکے ہیں۔ لڑکی بڑی مشکل سے دھکے کھاتی عورتوں اور مردوں کے ساتھ ٹکراتی، ان کے بیچ میں سے رستہ بناتی آخر کار بس پر سوار ہو ہی جاتی ہے۔ 


لاوڈ اسپیکر پر اذان کی آواز گونجتی ہے۔ جلوس میں سے بہت سے لوگ جنہوں نے کچھ دیر پہلے ایمبولینس پر حملہ کیا تھا نکلتے ہیں اور مسجد کی طرف چل پڑتے ہیں۔


بس یہی کچھ ہے جو میں نے ان دنوں بس اسٹاپ پر بیٹھ کر حاصل کیا۔ میرے لیۓ تو یہ بلکل بیکار اور فضول سی باتیں تھیں اگر آپ کو اس میں کچھ خاص نظر آتا ہے تو آپ کی مرضی میں کیا کر سکتا ہوں۔



Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات