طرح طرح کے موباںٔل فون آ جانے سے گھروں میں تار والے ٹیلیفون سیٹوں یعنی لینڈ لاںٔن کا استعمال نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ کبھی کبھی اس پر کوںئ کال موصول ہو جاۓ تو ہو جاۓ ورنہ کال کرنے کے لیۓ اسے کم ہی کام میں لایا جاتا ہے۔ وہ گھر کے ایک کونے میں چپ چاپ پڑا رہتا ہے جس طرح کوںئ بزرگ جو ریٹایںٔر ہونے کے بعد گھر میں اپنی باقی کی زندگی گزارتا ہے۔ اب موباںٔل فونز میں کئ قسم کی میسنجر اپلیکیشن ہیں مگر کبھی یہ واحد پیامبر تھا جو ہمارے ضروری اور غیر ضروری پیغامات پہنچایا کرتا تھا۔ ویسے یہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کا مصرف کم ہو جانے کے باوجود ہم اسے اپنے گھروں میں سجا کر بڑے احترام کے ساتھ رکھتے ہیں ورنہ اسے کیا معلوم ہم پیامبروں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے رہے ہیں۔ ہم نے تو پیغام پہنچانے والوں کو پتھر مارے ہیں یا صلیب پر لٹکایا ہے حالانکہ وہ تو صرف پیامبر تھے ان کا بھلا کیا قصور تھا۔ قصور اگر کچھ ہو سکتا تھا تو انہیں بھیجنے والے کا ہو سکتا تھا۔
خیر یہ بات تو یونہی بیچ میں آگئ۔ میں کہہ رہا تھا کبھی واحد یہ تار والے فون ہوا کرتے تھے جن کا استعمال آج نہ ہونے کے برابر ہے۔ تب ان کے ساتھ مسٔلہ یہ تھا کہ یہ صرف گھروں میں یا دفتروں میں استعمال ہو سکتے تھے سڑکوں پر انہیں ساتھ ساتھ لے کر گھوما نہیں جا سکتا تھا۔ پھر اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مختلف شہروں میں مختلف چوراہوں پر ٹیلیفون بوتھ نصب کر دیۓ گۓ جن میں سکہ ڈال کر کال کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ سڑکوں اور چوراہوں پر جگہ جگہ پی سی او بھی کھل گۓ تھے جہاں سے آپ پوری دنیا میں کہیں بھی بات کر سکتے تھے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے مجھے آج بیٹھے بیٹھے ان ٹیلی فونز کا خیال کیوں آیا اس کے پیچھے ایک کہانی ہے۔ وہ یہ کہ۔۔۔
سردیوں کی ایک یخ بستہ رات تھی۔ باہر طوفانی بارش ہو رہی تھی۔ رات کا کوںئ ڈیڑھ بجا ہو گا میں اپنے کمرے بیٹھا کوںئ رسالہ پڑھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ مونگ پھلی کھا رہا تھا۔ ان دنوں کالج سے چھٹیاں تھیں اس لیۓ میں رات کافی دیر سے سوتا تھا اور صبح دیر سے اٹھتا تھا۔ چھٹیاں کس بات کی تھیں مجھے پوری طرح تو یاد نہیں شاید سردیوں کی چھٹیاں تھیں۔ بہرحال رات کے ڈیڑھ بجے فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے سوچا اس وقت کون ہو سکتا ہے۔ اتنی رات کو بھلا کون فون کرے گا۔ فون باہر حال میں تھا اور مجھے معلوم تھا کہ وہاں کوںئ نہیں ہو گا اس لیۓ مجھے ہی اٹھ کر جانا پڑے گا۔ سردی بہت زیادہ تھی اور گرم لحاف سے نکل کر جانا کتنا مشکل ہوتا ہے یہ اہل ذوق خوب جانتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ میں فوراً اٹھ کر چلا جاتا۔ اس لیۓ میں نے وہ کیا جو مجھ جیسے لوگ اکثر ایسے موقعوں پر کرتے ہیں یعنی انتظار۔۔۔ اس بات کا کہ فون خود ہی کچھ دیر بج کر بند ہو جاۓ گا یا کوئی اور آکر اٹھا لے گا۔ کچھ دیر بجنے کے بعد وہ بند بھی ہو گیا۔ میں نے شکر کیا کہ بلا ٹلی۔ مگر بلاںٔیں شاید وظیفوں کے بغیر نہیں ٹلتیں۔ تھوڑی دیر بعد پھر بجنا شروع ہو گیا۔ اس مرتبہ ظاہر ہے کوںئ چارہ نہیں تھا مجھے اٹھنا ہی پڑنا تھا۔ لہذا مجبوراً اٹھا۔ حال میں پہنچ کر فون اٹھایا اور بولا۔
'ہیلو!'
'السلام علیکم! جی شفیق صاحب بات کر رہے ہیں؟' کوئی نسوانی آواز تھی۔
وعلیکم السلام! نہیں یہاں شفیق صاحب نہیں رہتے۔ آپ کون؟' میں نے پوچھا۔۔
میں۔۔۔جی میں رفیق۔'
مگر آپ تو آواز سے لڑکی معلوم ہوتی ہیں۔' میں نے خیرت سے کہا۔
'ہاں تو میں لڑکیوں کی رفیق ہوں اور مجھے کسی رفیقِ حیات کی تلاش ہے۔ کیا آپ حیات ہیں؟' پیچھے سے کسی کی دبی دبی ہنسی کی آواز آںئ۔
جی نہیں میں حیات نہیں ہوں۔'
تو پھر واہیات ہوں گے۔' اس مرتبہ پیچھے سے زوردار قہقہے کی آواز آئی۔
دیکھیۓ بدتمیزی نہ کریں۔ آپ بتاںٔیں آپ نے کس سے بات کرنی ہے؟'
جی دیکھوں کیسے فون پر دیکھا تھوڑی جا سکتا ہے۔'
میں اب تک سنبھل چکا تھا اور جان گیا تھا کہ کوںئ جان بوجھ کر غلط نمبر ملا کر شرارت کے موڈ میں ہے۔ میں بھی چونکہ اسی قبیل کا آدمی تھا بہت دفعہ ایسی حرکتیں کر چکا تھا اور اس وقت فارغ بھی تھا لہذا میں نے بھی اپنا مورچہ سنبھال لیا۔
فون پر دیکھا نہیں جا سکتا تو آپ مجھے اپنا پتہ دے دیجیٔے میں آپ کو اپنی تصویر بھیج دیتا ہوں۔'
کیوں آپ کی شکل اتنی پیاری ہے ؟ جو ہر کسی کو دکھاتے پھرتے ہیں۔'
نہیں ہر کسی کو تو نہیں دکھاتا بس آپ کو ہی بھیجنا چاہ رہا ہوں۔'
کیوں مجھے کیوں بھیجنا چاہ رہے ہیں آپ؟
اس لیۓ کہ آپ کو رفیقِ حیات کی تلاش جو ہے۔'
تو آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ وہ ہو سکتے ہیں؟'
کیوں میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ مجھ میں کیا خرابی ہے؟'
اب وہ تو دیکھ کر ہی پتہ چلے گا۔'
تو اسی لیۓ تو کہہ رہا ہوں کہ تصویر بھیجتا ہوں آپ تسلی سے دیکھیۓ۔'
نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ اچھا کیا کرتے ہیں آپ اور آپ کا نام کیا ہے؟' اس نے موضوع بدلا۔
فون آپ نے کیا ہے آپ پہلے اپنا نام بتایۓ پھر میں بتاؤں گا۔'
میں اگر غلط بتا دوں تو؟'
تو اس سے مجھے کیا فرق پڑے گا؟'
ہاں یہ بھی ہے۔'
اس رات کچھ دیر تک یہ مذاق چلتا رہا نہ اس نے مجھے اپنے بارے میں کچھ بتایا نہ میں نے اس کو۔ اگلی رات مجھے کچھ کچھ اندازہ تھا کہ اس کی کال پھر آۓ گی۔ اور وہی ہوا ٹھیک اسی وقت ڈیڑھ بجے اس کی کال آ گئ۔ اس نے میرے رسیور اٹھاتے ہی کہا۔ 'کیا خیال ہے آج اپنے بارے میں کچھ بتاںٔیں گے یا آج بھی۔۔۔'
آج بھی شرط تو وہی ہے پہلے آپ بتاںئں آپ کون ہیں کیوں کہ فون آپ نے کیا تھا۔'
میرا نام عالیہ ہے میں انجینئرنگ کی اسٹوڈنٹ ہوں اور آپ کے شہر میں ہی رہتی ہوں۔' اس نے ایک ہی سانس میں سب کہہ دیا۔
آپ کو کیسے پتا کہ میں اسی شہر سے ہوں؟'
نمبر سے اتنا تو اندازہ ہو ہی جاتا۔۔۔ اچھا اب آپ بتاںٔیں۔'
میں نے اسے اپنا نام وغیرہ بتایا۔
میں کیسے یقین کر لوں کہ آپ صحیح بتا رہے ہیں؟' اسے پھر سے شرارت سوجھی۔
جیسے میں نے یقین کر لیا ہے آپ پر۔'
تو وہ تو آپ کی حماقت ہے۔'
پیچھے سے ہنسی کی آوازیں آج بھی آرہی تھیں۔
یہ آپ کے پیچھے کون ہے جو ہنستا رہتا ہے؟'
بس ہے کوںئ۔۔۔ اپنا رفیق۔'
وہی۔۔۔ رفیقِ حیات؟'
نہیں اگر وہ ہوتا تو اسے فون پر ڈھونڈتی۔'
اس رات بھی کچھ دیر تک ہماری باتیں چلتی رہیں۔ پھر اس کے بعد روزانہ یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب میں رات کو فون اپنے کمرے میں لے آتا تھا اور دیرتک باتیں کرتا تھا۔ حال میں کسی کے آجانے کا خاص طور پر ابا جی کے، خطرہ تھا دوسرا سردی بھی تھی۔ اپنے کمرے میں بستر میں لیٹ کر باتیں کرنے میں زیادہ سہولت تھی۔ ہمارا گفتگو کا دورانیہ پہلے سے بڑھ گیا تھا۔ صبح جب گھڑی چار یا پانچ بجاتی تو ہم فون بند کرتے۔ میں اس کے بعد سو جاتا اور تقریباً آدھے دن تک سویا رہتا۔ عام طور پر بھی میں چھٹیوں میں اتنے بجے ہی اٹھتا تھا اس لیٔے گھر میں کسی نے کوںٔی خاص توجہ نہ دی۔ ہاں ایک مسٔلہ اور پیدا ہوگیا۔ وہ یہ کہ میں نے پڑھنا بلکل چھوڑ دیا۔ پہلے بھی میں بہت کم پڑھتا تھا بس رات کو تھوڑی دیر کالج کا کام کیا اور پھر اس کے بعد کبھی کوںٔی رسالہ پکڑ لیا اور کبھی دوست سے فون پر بات کر لی۔ اس زمانے میں وقت گزارنے کے لیۓ اور کچھ خاص تھا ہی نہیں۔ اب تو موباںٔل پر فیس بک، انسٹاگرام اور بہت سی دوسری ایپس کے باعث وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیۓ وقت ضاںٔع ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر تب ایسی سہولتیں نہیں تھیں۔ البتہ جو کتابیں پڑھنے کے شوقین تھے وہ کتاب پڑھ کر وقت گزار لیتے تھے مگر میں بمشکل اپنے نصاب کی کتاب کو ہاتھ لگاتا تھا تو دوسری کتاب کیونکر پڑھتا۔ بس کبھی کبھار کوںٔی رسالہ وغیرہ دیکھ لیا۔ دیکھنے کا لفظ میں نے اس لیٔے استعمال کیا ہے کیوں کہ میں رسالہ بس دیکھتا ہی تھا پڑھتا نہیں تھا۔ ان میں جو خوبصورت ماڈلز کی تصاویر ہوتی تھیں زیادہ تر وہی دیکھتا تھا۔ حقیقت میں مجھے کبھی پڑھنے لکھنے کا شوق نہیں رہا۔ یہ کہانی بھی جو ابھی آپ پڑھ رہے ہیں یہ میں نے نہیں لکھی۔ بلکہ میرے ایک دوست نے لکھی ہے۔ میں نے اس کو اپنی یہ کہانی سناںئ اور اس نے اسے تحریر کر لیا۔ اسی لیۓ یہ زیادہ تر تحریری کی بجاۓ (oral form) تقریری انداز میں ہے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ پہلے بھی میں کم ہی پڑھتا تھا مگر اب ساری رات فون پر بات کرتا رہتا تھا۔ دوپہر کو اٹھ کر ناشتہ کرتا اور پھر دوستوں کے ساتھ باہر گھومنے نکل جاتا۔ ایسے میں پڑھنے کے لیۓ وقت بلکل نہ نکلتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فیل ہو گیا۔ گھر والوں کو یہ تو علم تھا کہ ان کا بیٹا کوںئ افلاطون، سقراط وغیرہ تو نہیں مگر ان کا گمان تھا کہ کم سے کم میں فیل نہیں ہوں گا۔ اسی لیۓ میرا نتیجہ ان کے لیۓ کسی حد تک 'شاکنگ' تھا۔ باقی گھر والوں کا صدمہ تو ایک آدھ دن میں اتر گیا اور وہ اب مجھے بس بےضرر سی ہنسی مزاق سے چھیڑتے اور تنگ کرتے تھے جسے میں ذرا برابر بھی دل پر نہ لیتا اور ایک کان سے سن کر اسی کان سے باہر نکال دیتا اگلے کان تک لے جانے کی زحمت نہ کرتا۔ مگر ابا جی کا صدمہ کچھ طول پکڑ گیا۔ کںئ دنوں تک مجھے دیکھ کر ان کے ماتھے پر تیوری سی چڑھی رہتی اور وہ مجھے خاموشی سے بیٹھے غصے والے تاثرات سے گھورتے رہتے تھے۔ لیکن میں بھی چونکہ تھوڑا سا بے شرم واقعہ ہوا تھا اس لیۓ جتنی دیر ان کے سامنے رہتا بڑا سنجیدہ سا پکا سا منہ بنا کر بیٹھا رہتا تا کہ یہ ظاہر ہو کہ مجھے بھی اپنے فیل ہونے کا کافی دکھ ہے۔ لیکن خدا جانتا ہے کہ صرف پہلے دن کچھ دل بجھا بجھا سا رہا اس کے بعد کبھی خیال بھی نہ آیا۔ جیسے ہی اباجی اٹھ کر جاتے یا میں وہاں سے کھسکتا میری پرانی مسکراہٹ لوٹ آتی۔ البتہ اس کے کچھ عرصہ بعد ذرا سا دکھ ضرور ہوا اور حیرت بھی جب عالیہ نے مجھے بتایا کہ وہ اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوںئ ہے۔ مجھے کسی صورت یقین نہ آیا تو اس نے اپنا رول نمبر مجھے دیا جب میں نے خود جا کر دیکھا تو سچ میں وہ اعزازی نمبروں سے پاس ہوںئ تھی۔ میں نے اپنے دوستوں کو یہ بات بتائی تو اس کے بعد کوںئ دو گھنٹے تک ہم فلسفے کی یہ گتھی سلجھاتے رہے کہ آخر لڑکیاں وہی سب کچھ کر کے اتنے نمبر کیسے لے جاتی ہیں جو ہم کرتے ہیں۔ مثلاً وہ بھی میرے ساتھ ساری رات بات کرتی رہی مگر اس کے باوجود اس کے اتنے اچھے نمبر کیسے آگۓ؟ اور یہ صرف اس لڑکی تک محدود نہ تھا بلکہ سلیمان کے مطابق تو وہ کئ ایسی لڑکیوں کو جانتا تھا جو لڑکوں سے زیادہ تفریح کرتی تھیں مگر پھر بھی امتحانوں میں اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوتی تھیں۔ ثقلین نے اس کے لیۓ دلیل یہ دی کہ لڑکیاں نقل کرتی ہیں۔ تب ہی تو آسانی سے اتنے نمبر لے لیتی ہیں ورنہ تو ممکن نہیں۔ فرحان نے اس کی دلیل یہ کہہ کر رد کر دی کہ نقل کرتے ہوۓ پکڑے جانے کی زیادہ تر باتیں تو لڑکوں کی سامنے آتی ہیں لڑکیوں کا تو کم ہی کبھی سنا ہے کہ کوںئ لڑکی نقل کرتے ہوۓ پکڑی گئی ہو۔ فاروق نے مگر یہ دلیل دی کہ لڑکیوں کی نقل کی باتیں اس لیۓ سامنے نہیں آتی کیوں کہ وہ پکڑی نہیں جاتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ممتحن ان کی نگرانی زیادہ سختی سے نہیں کرتے۔ بس اس نکتے پر سبھی متفق ہو گۓ۔ بالآخر کابینہ برخاست ہوگئ۔
زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ عالیہ نے مجھے کہا کہ وہ اپنے کسی رشتے دار کے ہاں دوسرے شہر جا رہی ہے۔ اگر تم مجھے دیکھنا چاہتے ہو تو صبج دس بجے ریلوے اسٹیشن پہنچ جانا۔ میں نے اسے ابھی تک نہیں دیکھا تھا نہ ہی وہ مجھے پہچانتی تھی۔ ہماری ابھی تک فون پر ہی باتیں ہوتی رہی تھیں۔
صبح میں جلد تیار ہو کر گھر سے نکل گیا۔ اگرچہ موسم گرما کی پیداںٔش کو ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا مگر سورج اپنے پورے جوبن پر تھا۔ شفاف اور تیز دھوپ سے ہر چیز چمک رہی تھی۔ ہر چیز زردی ماںٔل لگ رہی تھی۔ پھر بھی آج اتنی گرمی محسوس نہیں ہو رہی تھی کیونکہ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ شاید ہوا ٹھنڈی نہیں تھی مگر جب پسینے میں شرابور جسم سے ہوا کا کوںئ جھونکا ٹکراتا تو ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا۔
میں ٹھیک وقت پر پہنچ گیا۔ ابھی دس ہونے میں پندرہ بیس منٹ باقی تھے۔ مسٔلہ مگر یہ تھا کہ ہم ایک دوسرے کو پہچانے گے کیسے۔ ہم نے ایک دوسرے کو کچھ نشانیاں بتاںئ تھیں جیسے کہ کس رنگ اور کس قسم کے کپڑے پہن کر آںٔیں گے اور کچھ دوسری شکل و صورت کی شباہت وغیرہ اور چند چھوٹی موٹی نشانیاں۔ مگر پھر بھی اتنی بھیڑ میں کسی نامانوس چہرے کو پہچاننا تو ایک طرف کسی مانوس چہرے کو پہچاننا بھی مشکل تھا۔
کافی وقت گزر گیا مگر مجھے وہ کہیں دکھاںئ نہ دی۔ کیا وہ ابھی تک نہیں آئی تھی؟ کیا پتہ وہ یہیں ہو مگر میں اسے پہچان نہ پا رہا ہوں؟ ایسے بہت سے سوال میرے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ مگر ایک تسلی جو مجھے ابھی تک تھی کہ وہ ٹرین ابھی تک نہیں آںئ تھی جس میں اس نے سوار ہو کر جانا تھا حالانکہ ٹرین کا مقررہ وقت گزر چکا تھا۔ مجھے زندگی میں پہلی دفعہ محکمہ ریلوے پر بہت پیار آیا انہوں نے حسبِ معمول اپنی روایت برقرار رکھی تھی۔
میں ادھر ادھر گھوم پھر کر اسے تلاش کررہا تھا۔ رش آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا تھا۔ مسافروں کے علاوہ ان کے اہل خانہ اور بہت سے ریڑھی بان تھے۔ چھابڑی والے تھے اور قلی تھے جو بھاگ بھاگ کر لوگوں کا سامان ڈھو رہے تھے۔ ایک کینٹین تھی جہاں کچھ لوگ بیٹھے چاۓ پی رہے تھے اور کچھ اخبار پڑھ رہے تھے۔ ایک فقیر تھا جو صدا لگا کر مانگ رہا تھا مگر اس کی آواز لوگوں کے شور کی وجہ سے دب گئ تھی۔ میں بھی کینٹین کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ چاۓ کی میٹھی اور پیاری خوشبو میرے قریب آںئ اور میرے ناک کو چھونے لگی۔ میرا جی گرم گرم چاۓ پینے کو للچایا مگر ابھی وقت نہیں تھا۔ جہاں میں کھڑا تھا وہاں سے میں ہر طرف دیکھ سکتا تھا لیکن میرا زیادہ تر دھیان سامنے تھا کیونکہ اس طرف دروازہ تھا جہاں سے لوگ پلیٹ فارم میں داخل ہوتے تھے۔ میں نے سیگرٹ سلگا لیا۔ چاۓ والے کی دیگچی سے بھاپ اڑ اڑ کر میرے سگرٹ کے دھوںئیں میں جذب ہو رہی تھی۔ دو چار کش لگانے کے بعد میں نے سگرٹ پھینک دیا۔ میں چاروں جانب تیزی سے سر گھما گھما کر دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک جگہ پر میری نظر ٹھہر گئ۔ وہاں ایک لڑکی کھڑی تھی جس نے زرد رنگ کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور سر پر سفید دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔ عالیہ نے جو جو نشانی مجھے بتاںئ تھی تقریبا وہ سبھی اس میں تھی اور سب سے بڑی بات وہ بھی میری ہی طرف دیکھ رہی تھی۔ جس سے مجھے یقین ہو گیا کہ یہ وہی ہے۔ اس کی مسکراہٹ مجھ تک پہنچی تو میں نے بھی اپنا تصدیقی پیغام جوابی مسکراہٹ کے ذریعے اس تک پہنچا دیا۔ ابھی ہم وہیں کھڑے تھے کہ دور سے ریل گاڑی کی سیٹی کی آواز آںئ۔ اس وقت میں من ہی من میں ریلوے والوں کو جتنی گالیاں دے سکتا تھا میں نے دیں کہ ویسے تو دو دو تین تین گھنٹے تاخیر سے گاڑی پہنچاتے ہیں اور آج محض ایک گھنٹے کی تاخیر سے پہنچ گئ۔ اب کیا ہو سکتا تھا۔ لیکن پھر میرے ذہن میں اک خیال آیا کہ کیوں نہ ٹکٹ لے کر میں بھی ساتھ ہی چلا جاؤں۔ وہ گجرانوالہ جا رہے تھے اور یہاں سے گجرانوالہ کا راستہ ٹرین میں زیادہ سے زیادہ پینتالس منٹ کا تھا۔ میرا وہاں ننھیال تھا اس لیۓ میں نے سوچا کہ چلو اسی بہانے ماموں لوگوں کی طرف بھی ہو آؤں گا۔ ٹرین آکر پلیٹ فارم پر لگی ایک بگڈر سی مچ گئ۔ وہ لوگ چونکہ پہلے ہی ٹکٹ لے چکے تھے اس لیۓ وہ ٹرین کی طرف بڑھے۔ میں نے جلدی سے ٹکٹ لیا اور اسی ڈبہ میں سوار ہو گیا جس میں وہ لوگ تھے۔ وہ تین لوگ تھے۔ اس نے مجھے پہلے بتا دیا تھا کہ اس کے ساتھ اس کی امی اور چھوٹا بھاںئ ہو گا۔
ڈبے میں بھیڑ کی وجہ سے خالی جگہ ملنا ممکن نہیں تھا اس لیۓ میں کونے میں ایک جگہ کھڑکی سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا جہاں سے میں اسے اور وہ مجھے آسانی سے دیکھ سکتے تھے۔
وہ زیادہ تر اپنے چھوٹے بھاںئ کے ساتھ باتیں کرنے اور ہنسی مذاق میں مصروف رہی اور میری طرف بہت کم دیکھتی تھی۔ اگر دیکھتی بھی تھی تو ایسی حیرت کے ساتھ جیسے میں اس کے لیۓ اجنبی ہوں۔ مجھے بھی اس کے اس طرح کے رویے سے کچھ حیرت تو ہوںئ مگر میں نے سوچا شاید اپنے گھر والوں کے ساتھ ہونے کی وجہ سے یا اردگرد دوسرے لوگوں کے باعث ایسا ظاہر کر رہی ہو۔ اس لیۓ میں نے اس بات پر زیادہ دھیان نہیں دیا۔
ٹرین روانی سے چھک چھک کی آوازیں کرتی چلی جا رہی تھی۔ میرے داںٔیں جانب دو تین بزرگ مرد بیٹھے تھے جو ملکی سیاست پر گفتگو کر رہے تھے۔ بعد میں دو اور آدمی جو ان کے ساتھ بیٹھے تھے جو ان کی طرح بزرگ تو نہیں تھے مگر جوان بھی نہیں تھے ان کے ساتھ گفتگو میں شامل ہو گۓ۔ ان کے شامل ہونے کے بعد عام سی گفتگو گرما گرم بحث میں بدل گئ۔ انہی میں ایک آدمی جو شکل سے ہی کچھ مسخرہ معلوم ہوتا تھا گفتگو میں کوںئ چٹکلا چھوڑ دیتا جس سے اردگرد کے لوگ جن کو اس گفتگو اور موضوع سے کوںئ زیادہ دلچسپی نہیں تھی محض تفریح اور وقت گزاری کے لیۓ سننے کی حد تک دلچسپی لینے لگے۔ جب بھی وہ آدمی کوںئ چٹکلا چھوڑتا یا جملہ کستا تو وہ لوگ خوب ہنستے اور محذوز ہوتے۔
میرے باںیٔں جانب دو نوجوان لڑکوں نے جو میرے ہم عمر معلوم ہوتے تھے اپنی ہی محفل جما رکھی تھی۔ ان کاموضوع لڑکیوں سے شروع ہوتا ہوا کرکٹ تک پہنچتا اور اس کے بعد اپنے کالج سے ہوتا ہوا پھر لڑکیوں پہ آکر رک جاتا۔ میرے بلکل سامنے والے کیبن میں عالیہ اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اس کے ساتھ کچھ اور عورتیں بھی تھیں۔ اس کی امی تو خاموش تھیں مگر دوسری عورتیں اپنے خاندان، گھر اور بچوں کے بارے میں گفتگو کر رہی تھیں۔ اوپر برتھ پر ایک بچہ سویا ہوا تھا۔
کچھ دیر بعد ایک پھیری والا دوسرے ڈبے سے داخل ہوا اس نے چھابا اپنے کندے پر اٹھایا ہوا تھا۔ وہ بچوں کے لیۓ ٹافیاں نمکو، سونف اور بسکٹ وغیرہ بیچ رہا تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے ٹکٹ چیکر بھی آگیا۔ سب کی ٹکٹ چیک کرتا ہوا وہ ایک طرف سے آیا اور دوسری طرف سے آگے نکل گیا۔
عالیہ اور اس کا بھاںئ اب خاموش بیٹھے تھے۔ میں اس کے رویے سے ابھی بھی خیران تھا کیونکہ وہ اس وقت بھی اجنبیوں کی طرح برتاؤ کر رہی تھی۔
ٹرین کی رفتار آہستہ ہوںئ اور ہوتے ہوتے پلیٹ فارم پر آکر رک گئ۔ میں ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہوگیا تا کہ وہ لوگ باہر نکلیں تو میں نکلوں۔ کافی لوگ نکل گۓ سب سے آخر میں وہ لوگ نکلے اور ان کے بعد میں بھی نکل آیا۔ جونہی میں ٹرین سے نکلا اس نے میری طرف دیکھا وہ پلیٹ فارم سے باہر نکل رہے تھے۔ میں نے جان بوجھ کر تھوڑی دیر وہیں انتظار کیا اور اس کے بعد میں بھی پلیٹ فارم سے نکل آیا۔ باہر آکر اردگرد دیکھا تو وہ سڑک کے اس پار کھڑے کسی کا انتظار کر رہے تھے۔ میں وہیں رک گیا۔ اس نے ایک دفعہ بھی میری طرف نہیں دیکھا اور اگر دیکھا بھی تو اسی اجنبیوں کی طرح۔ تھوڑی دیر بعد رکشہ ان کے قریب آکر رکا اس کی امی نے اس سے کوںئ بات چیت کی اور وہ رکشے میں سوار ہو کر چل دیۓ۔ اس نے جاتے ہوۓ بھی ایک بار بھی اس طرف نگاہ نہ کی۔ میں وہیں کچھ دیر سوچتا رہا پھر میں بھی اپنی منزل یعنی ماموں کے گھر کی طرف چل دیا۔
وہاں پہنچ کر میں سارا دن اسی کے بارے میں سوچتا رہا۔ رات کو جب سب سو گۓ تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اسے فون کروں مگر پھر خیال آیا کہ وہ تو گھر پر ہے ہی نہیں تو فون کرنے کا کیا فاںٔدہ۔ لیکن میں جانتا تھا کہ اس کی دو چچا زاد بہنیں ہیں جن کو میرے بارے میں علم تھا۔ ان تینوں نے مل کر ہی یہ مذاق شروع کیا تھا۔ عالیہ فون پر بات کرتی تھی اور وہ پیچھے سے ہنسنے اور اپنے جملوں سے عالیہ کو کمک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیتیں تھیں۔ میں نے سوچا کیوں نہ فون ملا کر دیکھا جاۓ شاید ان سے کچھ معلوم ہو جاۓ۔ جس کمرے میں میں سویا تھا فون بھی اتفاق سے اسی کمرے میں پڑا تھا اس فون کو دیکھ کر ہی مجھے اسے کال کرنے کا خیال آیا تھا۔ میں اٹھا اور نمبر ملایا دو تین گھنٹیوں کے بعد کسی نے فون اٹھا لیا۔
ہیلو۔السلام علیکم! جی کون؟'
حیرت اور پریشانی سے میرے منہ سے چند لمحے ایک جملہ تک نہ نکلا کیوں کہ میں نے آواز پہچان لی تھی وہ عالیہ تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم یہاں کیسے تم نے تو آج گجرانوالہ جانا تھا۔ 'مگر میں تو آج گئ ہی نہیں۔' اس نے کہا اور مجھے یقین نہ آیا میں سمجھا یہ بھی کوںئ مذاق ہے۔
مگر تم نے تو کہا تھا۔۔۔'
ہاں کہا تھا پر میں نہیں جا سکی۔' وہ بولی۔ 'اچانک ہمارے ایک جاننے والے کے ہاں فوتیدگی ہو گئ اس لیۓ امی وہاں چلی گئیں اور ہم نہ جاسکے۔ مجھے افسوس ہے تمہیں میں نے آنے کو کہا تھا اور خود نہ آسکی۔ مجھے خدشہ تھا کہ تم کہیں چلے نہ گۓ ہو میں نے تم سے رابطہ کرنے کی کوشس کی مگر تم گھر سے نکل چکے تھے.'
تم مجھے بتا تو سکتی تھی تاکہ میں رک جاتا۔'
بولا تو ہے کہ بس نکلنے سے کچھ دیر پہلے ہمیں ان کی فوتگی کی خبر ملی اس وقت تک تم نکل چکے تھے۔'
تو اگر تم یہیں ہو تو پھر وہ کون تھی؟' میں سوچتے ہوۓ بڑبڑایا۔
کون وہ؟' اس نے حیرت سے پوچھا۔
میں نے اس کو سارا واقعہ سنایا جو مجھے آج پیش آیا تھا۔ سنتے ہی اس نے زور سے قہقہ لگایا۔ 'ہو گی کوںئ بیچاری شاید تمہاری طرح کسی کو ڈونڈھ رہی ہو گی۔'
اور تمہاری طرح اسے بھی کوںئ کہہ کر نہ آیا ہوگا۔' میں نے اسے ٹانٹ مارتے ہوۓ کہا۔
اچھا معافی تو مانگ چکی ہوں بتا تو چکی ہوں کہ کیا مجبوری بن گئ تھی۔ اب ٹانٹ مارنا بند کرو۔'
اس نے معذرت کی تو میں نے بھی اسے معاف کر دیا۔ اس کے بعد میں نے اسے تفصیل سے آج کا قصہ سنایا کہ کیسے مجھے پہلے تو تمہیں ڈونڈھتے ہوۓ مشکل پیش آںئ اور پھر کیسے ایک لڑکی سے تمہاری بتاںئ ہوںئ نشانیاں ملیں تو میں نے خیال کیا کہ یہ تم ہی ہو۔ میں سناتا رہا اور وہ ہنستی رہی۔
اگلا پورا دن وہیں گزار کر شام کو میں گھر کے لیۓ روانہ ہوا۔ اس بار میں نے ٹرین پر جانے کی بجاۓ گاڑی کا انتحاب کیا کیونکہ ٹرین کو نکلنے میں ابھی ایک گھنٹہ تھا اس لیۓ میں نے بس سے جانا بہتر سمجھا۔
میں گھر سے نکلا تو غروب آفتاب کا وقت ہو چکا تھا مگر آسمان پر شام کی سیاہی ابھی پوری طرح نہیں چھاںئ تھی۔ کچھ گھروں اور گاڑیوں کی بتیاں جل چکی تھیں جس سے فضا قدرے روشن ہو گئ تھی۔ سڑکیں گرم دھوپ کی روشنی میں تپ تپ کر تھک چکی تھیں اور ٹھنڈی چاندنی میں چمکنے کو تیار بیٹھی تھیں۔ پرندے اپنے گھروں کو لوٹ چکے تھے بس چند ایک تھے جنہیں شاید میری طرح گھر جانے کی جلدی نہیں تھی وہ آرام سے مزے مزے سے اڑانے بھرتے گھر کو لوٹ رہے تھے۔ میں بھی انہی میں سے ایک تھا گرمیوں میں شام کا یہ وقت مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ گرمی کے اس موسم میں شام کے اس پہر میں اکثر باہر نکل جاتا ہوں اور کھلی سڑک پر گھومتا ہوں جہاں زیادہ بھیڑ نہیں ہوتی اور اردگرد کا علاقہ کم گنجان ہوتا ہے۔ جہاں کھلے کھیت اور گھنے درخت ہوتے ہیں جن میں پرندے آکر بیٹھتے ہیں۔ دن بھر کی گرمی اور گھٹن کے بعد شام کے اس وقت ٹھنڈی ہوا اور یہ کھلا ڈھلا ماحول روح تک کو تازہ کر دیتا ہے۔ ویسے تو ہم سب کو تازگی اور کھلا ڈھلا ماحول بہت کم نصیب ہوتا ہے ہمیں زیادہ تر گھٹن زدہ اور تنگ و تاریک ماحول ہی اچھا لگتا ہے اور اسی میں رہنا ہم پسند کرتے ہیں۔ ہم تازہ ہوا کو ذہن کی دیواروں سے جھانکنے نہیں دیتے۔ ہمیں روشنی اور کشادگی راس نہیں۔ ہم تو گھٹن زدہ ماحول کو آئیڈیلاںٔز کرتے ہیں اور اسی پر فخر کرتے ہیں۔ آزاد، تروتازہ اور کشادہ ماحول میں ہمیں طرح طرح کی براںٔیاں نظر آتی ہیں۔
شام کے اس پہر میں ایسی دلکشی ہے کہ جی چاہتا ہے یہ وقت یہیں ٹھہر جاۓ۔ اس پہر کے بعد کوںئ پہر نہ آۓ۔ یہ پہر اتنا اتنا طویل ہو جاۓ جتنا کہ یہ وقت۔
میں چلتے چلتے مرکزی شاہراہ پر آگیا جہاں سے مجھے لاری اڈے کے لیۓ روانہ ہونا تھا۔ ان دنوں شام کے وقت بہت کم گاڑیاں یا کوئی اور سواری ملتی تھی۔ اب تو سارے شہر میں رات کے جس پہر بھی دیکھیں گاڑیوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ کچھ مسافت طے کرنے کے بعد مجھے ایک رکشہ مل گیا جس نے مجھے ٹھیک وقت پر لاری اڈے پہنچا دیا۔ گاڑی بس چلنے والی تھی آخری سواری میں ہی تھا اگر میں تھوڑی اور دیر سے آتا تو یقیناً میری جگہ کوںئ اور لے لیتا اور یہ گاڑی نکل جاتی۔ اس کے بعد پھر مجھے اگلی گاڑی بھرنے تک انتظار کرنا پڑتا۔
مگر شاید آج جلدی پہنچنا قسمت میں نہیں تھا۔ گاڑی جونہی گجرانوالہ سے نکلی تو ایک جھٹکے سے رک گئ۔ معلوم ہوا کہ خراب ہو گئ ہے اور ڈراںٔیور اور کنڈکڑ اسے ٹھیک کرنے کی کوشس کر رہے ہیں مگر لگتا یہ ہے کہ ان کے بس کی بات نہیں مکینک بلانا پڑے گا۔ اب سواۓ انتظار کے اور کیا ہو سکتا تھا۔ گاڑی میں گرمی تھی اس لیۓ تمام لوگ باہر نکل آۓ اور سڑک کے کنارے انتظار کرنے لگا۔ میں بھی ایک طرف جا کر کونے میں کھڑا ہو گیا۔ اندھیرا تھا مگر اتنا نہیں تھا۔ سڑک پر نصب بتیاں روشن تھیں اور جی ٹی روڈ پر گاڑیوں کی مسلسل آمد سے بھی روشنی آتی رہتی تھی۔ میں نے سگریٹ نکال کر منہ میں رکھا اور جلانے کے لیۓ جیبیں ٹٹولنے لگا۔ میرا لائیٹر کہیں کھو گیا تھا۔ دوسرے مسافر سے ماچس مانگ کر سگریٹ سلگایا۔ اچانک میری نظر ایک طرف کھڑی لڑکی پر پڑی۔ حیرت سے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ یوں جیسے کہ جھپکنا بھول گئ ہوں۔ یہ وہی لڑکی تھی جو مجھے پلیٹ فارم پر ملی تھی اور جسے میں نے عالیہ سمجھ کر ٹرین میں اس کے ساتھ سفر کیا تھا۔ میں خیران تھا کہ ایسا اتفاق کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ بھی اسی خیرت سے میری طرف دیکھ رہی تھی شاید اس نے بھی مجھے پہچان لیا تھا۔
کچھ دیر بعد مکینک آگیا اسے گاڑی ٹھیک کرنے میں تقریباً بیس پچس منٹ لگ گۓ۔ اس کے بعد سفر آرام سے کٹ گیا جب میں اپنے شہر پہنچ کر گاڑی سے اترا تو رات کافی ہو چکی تھی۔ گو کہ ابھی اتنا وقت نہیں ہوا تھا مگر ان دنوں شہر میں رات جلدی اتر آتی تھی۔ دکانیں بازار جلد بند ہو جاتے تھے اور ٹریفک بہت کم رہ جاتی تھی۔ مگر اب تو آدھی آدھی رات تک دکانیں اور ریستوران کھلے رہتے ہیں بلکہ کچھ تو ساری رات بھی کھلے رہتے ہیں۔
میں نے جاتے ہوۓ اسے دیکھا۔ وہ بھی گاڑی سے اتر چکی تھی اور ایک طرف اپنے بھاںئ کے ساتھ کھڑی اپنی امی کا بس سے اترنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا۔ میں نے آخری بار اس پر نگاہ ڈالی اور اپنے راستے کی طرف ہو لیا۔ لاری اڈے سے باہر نکل کر میں نے ارد گرد دیکھا ایک رکشہ کھڑا تھا مگر میرے قریب پہنچنے سے پہلے ہی کوںئ اس پر بیٹھ چکا تھا۔ میں پیدل ہی ایک طرف چل پڑا۔ قریب ایک چاۓ کا کھوکھا تھا جس میں سے ریڈیو پر کسی پرانے گانے کی دھن بج رہی تھی۔ پاس ایک آدمی بنچ پر بیٹھا اونگ رہا تھا۔ چاندنی سے سارا منظر نہلایا ہوا تھا۔ ہر چیز شفاف اور نکھری نکھری لگ رہی تھی۔ آسمان پر کہیں کہیں آوارہ بادلوں کی ٹولیاں رات کے اس پہر یوں گھوم رہی تھیں جیسے چوکیدار آدھی رات کو گلیوں میں گشت کرکے پہرہ دے رہے ہوں۔ چار سو پھیلے سناٹے میں ریڈیو میں بجنے والی دھن کی آواز بڑی بھلی لگ رہی تھی۔ گانے کی آواز آئی۔ 'تو خواب ہے یا خیال ہے، کیا ہے'۔
میں چلتے چلتے کچھ آگے نکل آیا مگر آواز ابھی بھی میرا تعاقب کر رہی تھی اتنے میں وہی رکشہ میرے پاس سے گزرا جس کو ابھی ابھی میں چھوڑ کر آیا تھا۔ ایک دم سے اچانک رکشہ رک گیا اس میں سے ایک چہرہ باہر نکلا۔ وہی چہرہ، وہی لڑکی جسے میں کل اسٹیشن پر ملا تھا اور جو ابھی تھوڑی دیر پہلے میرے ساتھ گاڑی میں تھی۔ جسے میں بس اڈے پر اپنے بھاںئ کے ساتھ کھڑا چھوڑ کر آیا تھا۔ ہاں یہ وہی تھی۔ مجھے ایسے لگا کہ وہ چہرہ بلکل میرے قریب آگیا ہے۔کون ہو تم؟' میں نے گھبرا کر پوچھا۔
وہی جس کا تمہیں انتظار ہے جس کا تم خواب دیکھتے ہو۔'
مجھے ایسے لگا ہر چیز ساکت ہو گئ ہے۔ کائنات کی ہر چیز پر سکوت طاری ہے اتنی خاموشی میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی۔ اس پر صرف اس کی بلند آواز آرہی تھی۔ وہ ٹھہر ٹھہر کے بول رہی تھی۔
'میں وہی ہوں تمہارا خواب، تمہارا وہم، تمہارا گمان اور تمہارا یقین۔'
مگر وہ کون ہے جس سے میں روزانہ۔۔۔' میں نے اسی گھبراہٹ کے عالم میں اس سے پوچھا۔
وہ۔۔۔وہ بھی میں ہی ہوں۔ میں ہی ہوں جس سے تم باتیں کرتے ہو اور جسے تم محسوس کرتے ہو۔'
مگر۔۔۔مگروہ تو۔۔۔' میں نے بولنا چاہا پر اس سے پہلے اردگرد کی ہر چیز غاںٔب ہو گںئ یہاں تک کہ وہ بھی۔ بس اس گانے کی آواز آرہی تھی۔ 'تم خواب ہو یا خیال ہو، کیا ہو'۔
چند لمحوں بعد گانے کی آواز بھی بند ہو گئی۔ اور میں نے دیکھا میں اپنے بستر پر لیٹا تھا میرے ہاتھ میں فون کا رسیور تھا میں بول رہا تھا مگر دوسری طرف کوںٔی بھی نہیں تھا۔
Post a Comment
Thank you for your comment