Drizzling Of Love

Drizzling Of Love






"میں جیسے ہی تنگ گلی کی نکڑ سے مڑا تو وہ بلکل میرے سامنے تھا، اسے دیکھ کر مجھے ہنسی تو بہت آںئ مگر میں نے اپنے آپ پر قابو رکھا۔ لیکن یار مجھے لگتا ہے کہ اسے شک ہو گیاہے۔" ناصر نے چاۓ کا گھونٹ بھرتے ہوۓ کہا۔

 ارشد نے جو میز کی دوسری طرف بیٹھا انہماک سے اس کی باتیں سن رہا تھا حیرانی سے پوچھا، " یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟

"اس لیۓ کہ اس کے انداز سے مجھے ایسے ہی لگا اور بعد میں کالج میں بھی پورا دن جب بھی وہ میرے سامنے آتا مجھے ایسے ہی شک بھری نظروں سے دیکھتا رہا۔"

"چھوڑو یار شک اسے ہو بھی گیا تو کیا کر لے گا۔ ویسے ہوںئ اس کے ساتھ بہت بری ہے.

"ہاں یہ تو ہے۔" ناصر نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ 

کالج ہاسٹل کی کینٹین میں اس وقت چند لڑکے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بیٹھے تھے۔ سامنے باسکٹ بال کا میدان تھا جس میں کچھ لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ باسکٹ بال کوںئ بھی نہیں کھیلتا تھا اس لیۓ یا تو یہ میدان خالی پڑا رہتا یا کچھ لڑکے جنہیں کرکٹ کے میدان میں رش زیادہ ہونے کے باعث جگہ نہ ملتی یہاں آکر وکٹ لگا لیتے۔ موسم بہت اچھا تھا سردیوں کی خوشگوار دھوپ میں اونچے اونچے سفیدے کے درختوں میں سے چڑیوں، کوںٔیلوں، اور دوسرے کئ پرندوں کے گنگنانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ 

"اچھا تو ناصر بتاؤ کیا سوچا ہے آخری سال ہے کالج میں اس کے بعد کیا کرنے کا ارادہ ہے؟" 

"ابھی تک تو کچھ نہیں سوچا، میرا تو کالج چھوڑنے کا دل بالکل بھی نہیں۔ "

"تو کیا فیل ہونے کا ارادہ ہے؟"

"نہیں یار بس سوچ رہا ہوں انگریزی میں ایم اے کرنے کے بعد کسی اور سبجیکٹ میں داخلہ لے لوں۔"

"بھئ ساری زندگی کیا کالج میں رہو گے؟"

دل تو یہی ہے کہ کالج میں ہی رہوں۔"

"اچھا تو یہاں ملازمت کرنے کا ارادہ ہے؟"

"ملازمت کا تو دیکھا جاۓ گا لیکن میں اصل میں کالج میں طالبِ علم کی خیثیت سے رہنا چاہتا ہوں۔"

"یعنی کہ آپ جناب ساری زندگی اسٹوڈنٹ لاںٔف انجواۓ کرنا چاہتے ہیں۔"

"ہاں بالکل! کالج کی دنیا کتنی اچھی اور پرسکون ہے۔ کون بیوقوف اس شاندار ، پرسکون دنیا چھوڑ کر باہر کی ظالم دنیا میں جانا پسند کرے گا۔"

"اچھا اچھا بکواس بند کرو۔۔۔ اوۓ سجاد۔" کینٹین کے دوسری طرف سے درختوں کے بیچ میں سے سجاد جو ان دونوں کا دوست اور ہم جماعت تھا ایک طرف جاتا ہوا دکھاںئ دیا۔ ارشد نے اسے دیکھتے ہی زور سے آواز لگاںئ۔ "اوۓ سجاد کے بچے۔ ادھر آؤ کدھر جا رہے ہو۔" سجاد جو اپنی سوچوں میں گم تھا اچانک اپنا نام پکارے جانے پر چونکا۔ "یار یہ سجاد کو آج کل کیا ہوا ہے کچھ کھویا کھویا سا رہتا ہے۔" ارشد نے ناصر سے پوچھا جو اب کرسی سے اٹھ کر زمین پر ہری بھری گھاس پہ ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا تھا۔ 

"ہاں کچھ پریشان سا دکھاںئ دیتا ہے۔"

"کیوں بھئ سجاد کیا مسئلہ ہے آج کل کچھ پریشان سے لگتے ہو"؟ ارشد نے سجاد کے قریب پہنچتے پر اس سے پوچھا۔

نہیں پریشان تو نہیں ہوں بس کچھ سوچ رہا ہوں، ایک چھوٹی سی مشکل ہے کوںئ فیصلہ نہیں کر پا رہا" ؟

اچھا کیسا فیصلہ؟ ارشد نے پوچھا۔ 

ہاں ہمیں بتاؤ شاید ہم کوںئ بہتر مشورہ دے سکیں۔ ناصر بولا۔

بس یار اک آفر آںئ ہے نوکری کی، دوبئ میں اچھی تنخواہ ہے کام بھی اچھا ہے مگر مسٔلہ یہ ہے کہ جانا ابھی پڑے گا اور ابھی جاؤں تو یہ آخری امتحان کیسے دوں؟ 

 یہ بات تو ہے اگر ابھی چلے جاؤ گے تو دو سال کی ساری  محنت ضاںٔع ہو جاۓ گی۔ میں تو کہتا ہوں امتخان دو کیونکہ ان کاموں کا کوںئ پتہ نہیں ہوتا ادھر جا کر معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ بتایا گیا تھا ان میں سے آدھی باتیں بھی ٹھیک نہیں اور آدمی کو واپس  آنا پڑ جاتا ہے۔ بندہ نہ ادھر کا رہتا ہے نہ ادھر کا۔' ناصر نے مشورہ دیا۔ 

نہیں یار بندے تو اچھے لگتے ہیں جاننے والے ہیں ایسا کوںئ مسٔلہ نہیں ہو گا انہوں نے یقین دلایا ہے۔'

میرے بہت سے جاننے والوں کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے یقین وہ ہر بندے کو ایسے ہی دلاتے ہیں۔'

لیکن میرا خیال ہے تمہیں جانا چاہیۓ ایسے مواقع بار بار نہیں نہیں ملتے'۔ اس دفعہ ارشد نے اپنی راۓ دی۔ 

ہاں میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ یہ موقع دوبارہ نہیں ملے گا ویسے بھی مجھے ایم اے کرنے کے بعد  ادھر زیادہ سے زیادہ کتنی کر اچھی نوکری مل جاۓ گی۔' سجاد نے قاںٔل ہوتے ہوۓ کہا۔

اگر تم نے فیصلہ کر لیا ہے تو تمہاری مرضی۔' ناصر نے کہا۔ 'لیکن جہاں تک میں جانتا ہوں کالج کی دیواروں سے باہر کی دنیا اندر کی دنیا سے بڑی مختلف ہے۔ ان دیواروں کے اندر جو تمہیں دکھائی دیتا ہے وہ باہر کہیں نہیں ملتا۔ دیوار کے اس پار کی دنیا بڑی مفاد پرست، دھوکے باز، خود غرض اور لالچی ہے۔

اس کی بکواس تم نہ ہی سنو تو بہتر ہے یہ تو خواہ مخواہ اس قسم کے فلسفے جھاڑتا رہتا ہے اس کا تو دل ہے ساری زندگی ایسے ہی کالج میں موج مستی کرتے گزر جاۓ۔' ارشد نے اسے سمجھاتے ہوۓ کہا۔

ہاں یار میرا بھی یہی خیال ہے کہ مجھے جانا چاہیۓ ایسا موقع دوبارہ ملے نہ ملے۔ اچھا اب میں چلتا ہوں جانے سے پہلے ایک دفعہ ملنے آؤں گا۔ بہت شکریہ یار مشورہ دینے کے لیۓ۔' سجاد نے اٹھتے ہوۓ کہا۔

ٹھیک ہے میرے بھاںئ اگر تم نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو کون روک سکتا ہے تمہیں۔ ہاں جب کبھی تم واپس آۓ تو میں تمہیں یہیں اس چار دیواری کے اندر ملوں گا۔" ناصر نے اس سے گلے ملتے ہو ۓ کہا۔

کچھ دنوں بعد امتخان تھے اس لیۓ وہ دونوں امتخانوں کی تیاری میں لگ گۓ۔ سجاد بھی دوبئ جا کر مصروف ہو گیا۔ پہلے چند دنوں تک تو ان کا رابطہ رہا مگر پھر آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔ نتیجہ آیا تو دونوں نے اچھے نمبروں سے امتخان پاس کیا۔ اسکے بعد ارشد نے ایک کالج میں ملازمت شروع کر دی جبکہ ناصر نے ایم اے انگریزی کے بعد اسی کالج کے یونیورسٹی بلاک میں شام کی کلاسز میں ایم فل میں داخلہ لے لیا اور پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے کے لیۓ دن کے وقت اس نے اسی کالج کی لأیبریری میں ملازمت اختیار کر لی۔

دونوں کا تعلق دوسرے شہر سے تھا اس لیۓ دونوں ہاسٹل میں رہتے تھے۔ ناصر تو ابھی تک کالج کا طالب علم تھا اور اس کے ساتھ کالج میں ملازمت بھی کر رہا تھا اس لیۓ ڈگری مکمل کرنے کے بعد اسی ہاسٹل میں رہنا اس کے لۓ کوںئ دشواری کا باعث نہ بنا البتہ ارشد کو اس کی اجازت ملنا مشکل تھا۔ مگر وہ چونکہ اچھا طالب علم تھا اس لیۓ کالج کے ایک پروفیسر کی سفارش پر اسے یہاں رہنے کی اجازت مل گئ۔ اسی پروفیسر کی بدولت ناصر نے بھی کالج کی لائبریری میں ملازمت حاصل کی تھی۔

  یوں تو اتوار کا دن دونوں کے لیۓ چھٹی کا دن ہوتا تھا مگر ارشد پچھلے دو تین دنوں سے اپنے شہر کسی رشتے دار کی شادی میں شمولیت کے لیۓ گیا ہوا تھا جبکہ ناصر درختوں کی چھاؤں میں اکیلا بیٹھا کوںئ کتاب پڑھنے میں مگن تھا۔ شام کے چھ بجے تھے گرمیوں کا سورج ابھی چمک رہا تھا مگر خوشگوار ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ بہار کے جوان پھولوں  کی خوشبو ہر سو پھیلی تھی۔ درختوں پر پرندے خوشگوار گیت گا رہے تھے۔ ناصر نے کتاب سے نظریں ہٹاںٔیں اور آسمان پر ہوا میں تیرتے پرندوں کو دیکھنے لگا۔ کچھ چڑیاں ہاسٹل کی عمارت کی منڈیر پر آکر بیٹھ گئیں۔ اسے یونہی سجاد کا خیال آگیا۔ "میں بھی کتنا بیوقوف تھا ان دنوں ایسے ہی اسے الٹے سیدھے مشورے دے رہا تھا اگر وہ میری بات مان لیتا تو کیا بنتا اس کا، اچھا ہوا اس نے نہیں مانی ورنہ آج وہ'۔۔۔
اس نے گود میں پڑا موباںٔل اٹھایا اور سجاد کا نمبر
ملانا شروع کر دیا۔ مگر اس کا نمبر بند تھا۔ "شاید اس نے نمبر بدل لیا ہوگا۔ کافی عرصہ گزر گیا ہے اس سے بات ہوۓ ہوۓ۔" وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ ایک طرف سے ارشد آتا ہوا دکھاںئ دیا۔ اس کا چہرہ کچھ بجھا بجھا سا تھا۔

"کیا ہوا بھاںئ منہ کیوں لٹکا ہوا ہے کوںئ بات ہوںئ ہے گھر میں؟" ناصر نے اس کے بیٹھنے پر اس سے پوچھا۔

"سجاد کے گھر سے فون تھا۔"

"اچھا واہ میں بھی ابھی ابھی اسے کال کر رہا تھا مگر شاید اس نے اپنا نمبر بدل لیا ہے۔ کیسا ہے وہ؟"

  "وہ اب نہیں ہے۔" 

   "کیا مطلب! وہ اب نہیں ہے؟" ناصر نے خیرت سے پوچھا۔  

وہ جس آدمی کے ذریعے دوبئ گیا تھا اس آدمی نے اسے دوکھا دیا اور اس کا پیسہ وغیرہ لے کر بھاگ گیا۔ جس نوکری کا اس نے کہا تھا وہاں ایسی کوںئ بھی نوکری نہیں تھی۔ تم تو جانتے ہو اس نے کس مشکل سے قرض لے کر دوبئ جانے کے لیۓ رقم اکٹھی کی تھی'۔

ہاں وہ سب تو میں جانتا ہوں پھر سجاد کا کیا ہوا
"کدھر ہے وہ؟ 

 اس کے بعد کسی طرح وہ چھوٹی موٹی مزدور"
وہاں کرتا رہا مگر اس نے گھر والوں کو کچھ نہ بتایا انہیں یہی بتاتا رہا کہ ابھی تنخواہ ملنی نہیں شروع ہوںئ کمپنی والے کہتے ہیں کچھ دنوں تک ملنی شروع ہو جاۓ گی تو پیسے بھجواؤں گا۔ مگر جب ایک حد سے زیادہ عرصہ گزر گیا اور قرض والوں کا بھی تقاضا بڑھنے لگا تو اس نے۔۔۔" ارشد خاموش ہوا تو ناصر جو بے چینی سے اس کی بات کا انتظار کر رہا تھا تقریباً چیخ اٹھا۔ "پھر کیا ہوا بتاؤ بھی؟

 "اس نے خود کشی کر لی۔"

نجانے کہاں سے گولی چلنے کی آواز آئی اور آسمان سے ایک پرندہ نیچے آگرا۔ درختوں پر دوسرے بے شمار پرندے جو گنگنا رہے تھے چیخ وپکار کرنے لگے۔ ناصر نے ہاسٹل کی چھت پر نظر ڈالی، منڈیر پر بیٹھی تمام چڑیاں اڑ چکی تھیں۔

Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post