ہوٹل کے ڈائیننگ حال(Dining hall) میں ایک نیا شادی شدہ جوڑا ادھ کھلی کھڑکی کے پاس میز پر بھاپ اڑاتی چکن سوپ کے دو باؤل رکھے بیٹھا باتوں میں مشغول تھا۔ لڑکا باتیں کرتا جاتا تھا اور لڑکی آنکھیں نیچی کیۓ، نگاہیں میز پر کہیں ٹکاۓ ہاتھ میں چمچ لیۓ سوپ کے پیالے میں پھیرے جاتی تھی۔ کبھی کبھی وہ کسی بات پر سر ہلاتی تو لگتا کہ صرف لڑکا ہی گفتگو نہیں کر رہا بلکہ وہ بھی گفتگو میں پوری طرح شریک ہے۔ لڑکے نے دو تین بار گرما گرم سوپ کے چمچ منہ میں انڈیلے مگر لڑکی نے ابھی تک ایک بار بھی چمچ نہیں اٹھایا تھا۔ باہر سرما کی ٹھنڈی دھوپ صحن میں لگے پودوں اور درختوں پر پڑ رہی تھی۔ دن کا آخری پہر تھا اور شام بس قریب ہی تھی۔ کچھ ہی پل میں سورج پہاڑیوں کے پیچھے جا چھپا۔ لڑکا جب اپنا سوپ ختم کر چکا تو اٹھ کر حال کے آخری سرے سے ہوتا ہوا دیوار کے پیچھے مردانہ غسل خانوں کی طرف غائب ہو گیا۔ لڑکی سوپ پیتے ہوۓ باہر سرما کی شام میں لپٹی پہاڑیاں دیکھنے میں مگن ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد لڑکا واپس آیا تو لڑکی اپنا سوپ ختم کر چکی تھی۔ وہ وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے لڑکی سے اور کچھ منگوانے کا پوچھا مگر لڑکی نے نفی میں سر ہلایا۔
دور کہیں کسی گاؤں سے ہوا کے دوش پہ سوار ڈھولک کی آواز ادھ کھلے دریچے سے اندر داخل ہوئی۔ دراز قد درختوں کے پھیلے ہوۓ طویل سلسلے کے عقب میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا شاید وہاں کسی کی شادی تھی۔ یہ ہوٹل مقامی آبادی سے ذرا ہٹ کر سنسان علاقے میں آباد تھا جہاں زیادہ تر نوبیاہتا جوڑے ہنی مون کے لیۓ آتے تھے۔ باہر اندھیرا کافی بڑھ گیا تھا اس لیۓ ہوٹل کی بتیاں روشن ہو گیئں تھیں۔ اس پورے علاقے میں سواۓ ایک یا دو ہوٹلوں کے اور کوںئ عمارت نہیں تھی اس لیۓ یہ علاقہ زیادہ تر اندھیرے میں گھرا رہتا تھا۔
'ویسے تمہیں ایک بات بتاؤں پہلے میں سوچا کرتا تھا آخر لوگ ہنی مون کیوں مناتے ہیں مجھے یہ ہنی مون منانے والی رسم بڑی بکواس لگتی تھی۔ دو دن شادی کو گزرے نہیں اور لوگ چل دیۓ سفر پر جیسے کسی ایڈونچر ٹوور پہ جا رہے ہیں۔ لیکن یہاں آنے کے بعد محسوس ہوا کہ اچھا ہی کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک دلچسپ تجربہ ہوتا ہے۔ اچھا تم بتاؤ تمہیں کیسا لگتا تھا ہنی مون پہ جانا؟' لڑکے نے بات ختم کر کے کھڑکی بند کرنا چاہی مگر لڑکی نے اسے روک دیا۔ 'کھلی رہنے دیں شام کے اس وقت گاؤں سے آرہی ڈھولک کی آواز بڑی بھلی لگ رہی ہے۔'
ایک فربہ آدمی اپنی بیوی کے ساتھ بلند آواز میں باتیں کرتا ہوا اندر داخل ہوا۔ دونوں اس قدر شور کرتے ہوۓ چلے آرہے تھے کہ سب ان کی طرف متوجہ ہو گۓ۔ انہیں بھی شاید اس بات کا احساس ہو گیا تھا لہٰذا انہوں نے بھی اپنی آواز دھیمی کر لی۔
'ہاں تو میں کیا پوچھ رہا تھا؟ تمہیں کیسا لگتا تھا ہنی مون پہ جانا'؟ لڑکے نے ان دونوں سے توجہ ہٹا کر اپنی بیوی سے دوبارہ سوال کیا۔
'نہ اچھا لگتا تھا نہ برا، میں نے شادی سے پہلے اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔'
کچھ دیر بعد بوندا باندی ہونے لگی جو چند لمحوں میں موسلا دار بارش میں تبدیل ہو گئی۔ ہوٹل کی زرد اور سفید روشنیوں میں صحن ننھے ننھے بے رنگ موتیوں سے بھر گیا۔ گیلی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو ہوا کے جھونکے کے ساتھ کھڑکی کے راستے اندر حال میں اتر رہی تھی۔ اس کے ساتھ سردی بھی اسی راستے اندر داخل ہو رہی تھی مگر باہر کی فضا اس قدر شاندار تھی کہ لوگوں نے شدید سردی کے باوجود کھڑکیاں کھلی رکھیں تھیں۔ اس علاقے میں گیس کا مناسب بندوبست نہیں تھا اس لئے یہاں ہیٹر وغیرہ تو نہیں تھے مگر ہوٹل انتظامیہ نے کمروں کو گرم رکھنے کے لیۓ جگہ جگہ کوئلے کی انگیٹھیاں رکھیں ہوئیں تھیں۔ وہ دونوں کافی دیر تک وہیں بیٹھے رہے۔ ان کا کمرا ہوٹل کے دوسری سمت تھا اس لیۓ انہیں بارش میں صحن عبور کر کے جانا پڑتا اور دوسرا یہ کہ ابھی وہ اس منظر سے مزید لطف اندوز ہونا چاہتے تھے۔ بہت سے لوگ کھانا کھا کر اپنے کمروں میں جا چکے تھے مگر بہت سے ابھی وہیں بیٹھے باہر سرسبز درختوں پر پڑتی بارش کو سن اور دیکھ رہے تھے۔
'یہ آپ نے اچانک اپنی مونچھیں کیوں بڑھا لی ہیں؟' لڑکی نے یونہی سرسری طور پر پوچھا۔ 'شادی سے پہلے تو آپ نے کبھی نہیں تھیں رکھیں۔'
'کیوں تمہیں نا پسند ہیں مونچھیں؟'
'نہیں ایسی بات نہیں مجھے تو موچھوں والے مرد اچھے لگتے ہیں۔'
'تو پھر تو اچھی بات ہوئی میں نے مونچھیں بڑھا لیں۔ ویسے شادی سے پہلے بھی میں نے ایک دو بار رکھیں تھیں اس وقت میری تمہاری ابھی ملاقات نہیں ہوںئ تھی۔ اس وقت میں نے ناول کے ایک کردار سے متاثر ہو کر رکھیں تھیں۔'
'آپ بھی عجیب ہیں لوگ فلموں میں کرداروں سے متاثر ہو کر کوںئ انداز اپناتے ہیں اب ناول کے کردار جو آپ دیکھ نہیں سکتے اس سے کیسے متاثر ہو سکتا ہے کوںئ؟'
'بھئ میں نے تصور کر لیا تھا کہ وہ ایسا ہی دکھتا ہو گا۔ بس مجھے وہ اچھا لگتا تھا اس لیۓ جیسا مصنف نے بیان کیا میں نے اسی سے ملتا جلتا حلیہ بنا لیا۔'
بارش اب بھی جاری تھی ان کا جی بھی یہی چاہ رہا تھا کہ وہ یہیں بیٹھے رہیں۔ ساری رات بیٹھ کر باہر برستی بارش کو دیکھتے رہیں۔ شاید بارش بھی ان کے موڈ کو بھانپ گئ تھی اس لیۓ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ دو بڑی عمر کے میاں بیوی جو کچھ دیر پہلے حال میں شور مچاتے داخل ہوۓ تھے اپنی جگہ سے اٹھے اور ان کے پاس والی نشست پر آکر بیٹھ گۓ۔ حال میں پہلے سے بہت کم لوگ رہ گۓ تھے مگر اب بھی کافی تعداد میں موجود تھے۔ ان میں زیادہ تر وہ تھے جن کے کمرے ہوٹل کے دوسری سمت تھے اور صحن درمیان میں تھا۔ صحن چونکہ کافی طویل تھا اور بارش کافی تیز اس لیۓ کوںئ بھی اتنی سخت سردی میں باہر نکلنے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔ ان کے علاوہ وہ لوگ بھی موجود تھے جو ابھی خود ہی جانا نہیں چاہ رہے تھے۔
'کیا ہم آپ کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ سکتے ہیں۔' آدمی نے نوجوان میاں بیوی سے اجازت طلب کرتے ہوۓ کہا۔ 'وہ دراصل کافی رات ہو گئ ہے مگر بارش کے باعث ہم یہیں بیٹھ گۓ، کچھ بور ہو رہے تھے تو سوچا آپ کے پاس چلتے ہیں کچھ گپ شپ ہو جاۓ گی۔ ہمارے یہاں بیٹھنے سے آپ کو کوںئ پریشانی تو نہیں ہو گی؟'
'جی بیٹھ جائیے کوںئ مسئلہ نہیں۔' نوجوان لڑکے نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوۓ کہا، 'ہم بھی بس بارش رکنے کا ہی انتظار کر رہے ہیں۔'
دونوں مرد اور عورت ان کے پاس بیٹھ گۓ اور اپنے بارے میں بتانے لگے۔ آدمی نے کہا کہ اس کا نام امجد ہے اور یہ ساتھ اس کی بیوی سمینہ ہے۔ دونوں اپنی شادی کے بعد ہنی مون پہ آۓ تھے لیکن اس کے بعد وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا کہ کب بوڑھے گۓ۔ وہ اپنے کاروبار میں مگن رہے اور ان کی بیوی بچوں کو پالنے میں لگی رہی۔ اب چونکہ وہ اپنی تمام ذمہ داریوں سے فارغ ہو چکے ہیں لہٰذا انہوں نے ایک لمبی سیر کا پروگرام بنایا ہے۔ کچھ دن یہاں رہنے کے بعد کشمیر جائیں گے اور وہاں سے پھر کسی اور جگہ۔
'بس آپ کو کیا بتاؤں فرحان صاحب یہی نام بتایا نا آپ نے؟' انہوں نے نوجوان سے پوچھا۔
'جی جی فرحان۔'
'ہاں تو فرحان صاحب آپ کو کیا بتاؤں آپ ابھی جوان ہو آپ کو شاید نہ سمجھ آۓ مگر حقیقت یہی ہے کہ یہاں سے جانے کے بعد دن کیسے گزریں گے آپ کو احساس ہی نہیں ہو گا۔ لیکن شاید یہی زندگی ہے۔ یا شاید ہم نے اپنی زندگیاں ہی ایسے بنا لی ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس ایسی زندگی بھی نہیں۔ تو کیا ہم اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھیں یا بد قسمت؟ کیا یہ قدرت کا نظام ہے یا ہمارا اپنا۔ بس یہی سمجھ نہیں آتی۔'
بارش تھم گئ تو وہ اٹھ کھڑے ہوۓ۔ سلام دعا کے بعد اور دوبارہ ملنے کے وعدوں کے ساتھ وہ دونوں اپنے اپنے کمروں میں چلے گۓ۔
جب نکلے تو کئ برس بیت چکے تھے۔ دونوں میاں بیوی اسی نشست پر ادھ کھلے دریچے کے پاس بیٹھے تھے جہاں برسوں پہلے آکر بیٹھے تھے فرق صرف یہ تھا اب ان کے چہرے جھریوں سے بھرے تھے اور سر کے بال سفید ہو گۓ تھے۔ لڑکے کی مونچھیں اب بھی ویسی ہی ترشی تھیں لیکن اب ان میں سفیدی آ گئی تھیں۔ باہر دن کا آخری پہر تھا اور دراز قد درختوں کے عقب میں دور کسی گاؤں سے ڈھولک کی آواز آرہی تھی۔
'آپ نے سنی ڈھولک کی آواز، بالکل ویسی ہے۔ اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔ برسوں پہلے بھی ایسی ہی تھی۔' لڑکی نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوۓ کہا۔
'ہاں سن رہا ہوں۔ اور وہ دو بڑی عمر کے میاں بیوی یاد ہیں جو لمبی سیر کو نکلے تھے؟'
'یاد ہیں اب تو شاید اس دنیا میں نہ ہوں کافی عرصہ گزر چکا۔ اتنے برس بیت گۓ پتا ہی نہیں چلا۔'
'ہاں۔' لڑکے نے اپنے خیالوں میں کہیں گم کھڑکی سے باہر پہاڑوں کے پیچھے غروب ہوتے ہوۓ سورج کو دیکھتے ہوۓ جواب دیا۔
'وہ دیکھو ایک اور ادھ کھلا دریچہ۔'
لڑکے نے مڑ کر دیکھا تو وہاں ایک نوجوان شادی شدہ جوڑا ادھ کھلی کھڑکی کے سامنے بیٹھا باتوں میں مگن تھا۔

Post a Comment
Thank you for your comment