Drizzling Of Love

Drizzling Of Love




کردار

غیاث= نوجوان لڑکا۔ مصور

علیانہ= نوجوان لڑکی۔ غیاث کی منگیتر یا منکوجہ۔

سرفراز= نوجوان لکھاری۔ فلم رائیٹر۔ خوبصورت، سمارٹ، بال بکھرے ہوۓ، آنکھوں کے نیچے سیاہ دھبے 

شیخ صاحب= پچاس پچپن برس کا کاروباری آدمی۔ بال بڑے بڑے، فرنچ کٹ ڈارھی، قدرے فربہ جسم مگر خوبصورت۔ آواز ذرا بھاری۔

امی: علیانہ کی امی۔


 پہلا منظر

دن۔ غیاث کا گھر۔


ایک چھوٹے سے کمرے کے ایک طرف میز پر رنگ ہی رنگ بکھرے ہوۓ ہیں۔ پاس ہی برشز اور مصوری کا دیگر سامان پڑا ہے۔ جگہ جگہ پر رنگوں کے داغ ہیں۔ دیواریں بھی مختلف قسم کی پینٹنگز سے بھری ہیں۔ اک نظر دیکھنے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ کسی مصور کا کمرا ہے۔ کمرے کے عین وسط میں غیاث  کینوس پر جھکا کچھ پینٹ کرنے میں مصروف ہے۔ اس کے ہاتھوں اور کپڑوں پر کئ اقسام کے رنگوں کے داغ ہیں۔ دوسری طرف دیوار کے پاس ایک کرسی پر علیانہ بیٹھی ہے۔ جس کی گود میں ایک تصویر پڑی ہے۔


علیانہ: (تصویر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ) یہ تم نے کیا اپنی ہر پینٹنگ پر اپنا نام غیاثو لکھوایا ہوا ہے۔ یہ بھی کوںئ نام ہوا بھلا؟

غیاث: (سر اٹھاۓ بغیر اپنا کام کرتے ہوۓ ) بھئ ہم پکاسو کے فین ہیں تو اس سے متاثر ہو کر ہم نے اپنا نام اپنی تصویروں پر غیاث سے غیاثو رکھ لیا ہے۔ یعنی یوں سمجھو جس طرح شاعروں کے  تخلص اور ادیبوں کے  قلمی نام ہوتے ہیں اسی طرح یہ ہمارا مصوری نام ہے۔ (مسکراتا ہے)

علیانہ: آ ہا ہا ہا۔۔۔۔مصوری نام۔۔۔ تو جناب مصور صاحب! کوںئ ڈھنگ کا نام نہیں ملا آپ کو۔ یہ بھی کوںئ نام ہوا۔۔۔ غیاثو۔

غیاث: یار اصل میں پکاسو سے ملتا جلتا مجھے یہی نام ملا تو پھر یہی رکھ لیا۔ 

علیانہ: کیا بات ہے آپ کی۔۔۔ تو اس کا مطلب ہے اگر کوںئ ڈاونچی کا فین ہے تو وہ اپنا نام ڈانکی رکھ لے؟ 


غیاث: (ہنستا ہے) ہاں رکھ سکتا ہے یہ بھی کوںئ برا نام تو نہیں۔


علیانہ: ویسے سچی بتاؤں یہ جو تمہارا اصلی نام ہے نا غیاث! یہ بھی ایویں ای ہے۔ جب میں نے پہلی مرتبہ سنا تھا تو مجھے لگا کوںئ بزرگ آدمی ہو گا پر جب تمہیں دیکھا تو یقین نہیں آیا۔ ایسے نام کے تو اب بزرگ آنا بھی بند ہو گۓ ہیں۔


غیاث: ہاں مجھے بھی کوںئ خاص پسند نہیں پر کیا کروں گھر والوں نے رکھ دیا ہوا ہے تو اب چلانا تو پڑے گا۔


(علیانہ اٹھ کر سامنے والی دیوار پر لٹکی تصویر کو دیکھنے لگتی ہے۔)


!علیانہ: اچھا غیاث اک بات بولوں! 


غیاث: ہاں بولو۔


علیانہ: تم نے کچھ سوچا ہے۔۔۔ ہماری شادی کے بارے میں۔


غیاث: اس میں سوچنا کیا ہے کہو تو ابھی کر لیتے ہیں۔ 


علیانہ: میں مذاق نہیں کر رہی غیاث میں سنجیدگی سے کہہ رہی ہوں۔ میں چاہتی ہوں ہم شادی کے بعد ہنسی خوشی رہیں پر اس کے لیۓ تمہارا کام بھی تو چلنا ضروری ہے۔


غیاث: ہاں بالکل یہ تو چلنا ضروری ہے۔


علیانہ: (جاری رکھتے ہوۓ) میں چاہتی ہوں غیاث تم بہت بڑے مصور بنوں۔ تمہاری پینٹنگز ہاتھوں ہاتھوں بکیں تمہاری ہر ہر تصویر پر لوگ تمہیں داد دیں۔ مگر یہ تب ہو گا جب تم ایسی تصویریں بناؤ گے جن کی مارکیٹ میں بڑی مانگ ہے۔ ایسی تصویریں جنہیں لوگ پسند کرتے ہیں۔ تم لوگوں کی پسند کے مطابق تصویریں بناؤ گے تب ہی تو لوگ انہیں خریدیں گے۔



غیاث: (کھڑا ہو کر علیانہ کی طرف دیکھ کر فخریہ انداز میں)

 ٹھیک کہتی ہو تم شادی کے لیۓ اور شادی کے بعد بھی گھر کے اخراجات کے لیۓ پیسوں کی ضرورت تو ہو گی مگر پھر بھی میں ویسی ہی تصویریں بناؤں گا جیسی میں چاہتا ہوں۔


علیانہ: یہ تو فضول قسم کی ضد ہوںئ۔ (سمجھانے کے انداز میں)  میری بات سمجھو غیاث! میں جانتی ہوں تم کوئی اور پروفیشن اختیار نہیں کرو گے۔ تو پھر تمہیں یہ بات مان لینی چاہیۓ جیسی تصویریں پسند کی جاتی ہیں تمہیں ویسی ہی تصویریں بنانی چاہیئں۔ آخر ایسی پینٹنگز بنانے میں کیا خرج ہے جن کی زیادہ مانگ ہے اور جو زیادہ بکتی ہیں۔ 


غیاث: (پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگاتا ہے اور کچھ سوچ کر بولتا ہے)


بات یہ ہے علیانہ! میں آرٹ کو عبادت سمجھتا ہوں میں اسے روحانیت کا درجہ دیتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں ایسا آرٹ تخلیق ہونا چاہیۓ جو دیکھنے والے کے دل و دماغ کو چھو جاۓ۔ اس میں خیالات و احساسات کا ایسا امتزاج ہو جو غوروفکر پر اکساۓ بھی اور دلوں کو گدگداۓ بھی۔۔۔ میں ایسا آرٹ ہر گز تخلیق نہیں کر سکتا جو ظاہراً تو بہت اچھا ہو۔ لوگوں کو لطف اندوز کرتا ہو، ان کے لیۓ تفریح مہیا کرتا ہو۔ مگر اس سے لوگوں کو کچھ حاصل نہ ہوتا ہو۔ میرے نزدیک ایسا آرٹسٹ جو اپنی تخلیق میں بڑی تزیئن و آرائش کرتا ہے، شعر میں بڑے خوبصورت الفاظ استعمال کرتا ہے یا تصویر میں بڑے شاندار رنگ بھرتا ہے اتنا کہ لوگ دیکھ کر یا سن کر بہت محظوظ ہوتے ہوں اور اش اش کر اٹھیں مگر حقیقت میں اس کے اندر کچھ ایسا نہ ہو جو کوںئ حقیقی روحانی فائدہ پہنچاۓ، وہ کاروباری تو ہو سکتا ہے آرٹسٹ  نہیں۔  


!علیانہ: لیکن غیاث۔۔۔


غیاث: (جاری رکھتے ہوۓ) تم نے بڑھئ کو دیکھا ہے علیانہ! جو بہت شاندار قسم کا فرنیچر تیار کرتا ہے اس پر خوبصورت نقش و نگاری کرتا ہے اور اسے جا کر بازار میں بیچ آتا ہے۔ وہ ہو بہ ہو ایسا سامان تیار کرتا ہے جس کی بازار میں بڑی مانگ ہے۔ بالکل گاہک کی خواہش اور پسند کے مطابق۔ وہ ایک ماہر کاریگر یا ایک اچھا بزنس مین ہے مگر آرٹسٹ نہیں۔ اسی طرح اس قسم کا آرٹسٹ بھی ایک ماہر کاریگر یا کاروباری تو کہلا سکتا ہے مگر آرٹ کے اعلیٰ درجے پہ فائز  نہیں ہو سکتا۔



علیانہ: مگر غیاث! آرٹسٹ کو بھی تو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اگر وہ آرٹ کو کاروبار کی طرح نہ چلاۓ گا  تو ان کا آرٹ کون خریدے گا۔


(غیاث چند لمحے فضا میں خاموشی سے گھورتا ہے اتنے میں باہر سے گاڑی کے ہارن کی آواز آتی ہے۔) 



غیاث: (ہارن کی آواز سن کر) لگتا ہے تمہیں ڈرائیور لینے آگیا ہے۔


علیانہ: (اٹھتے ہوۓ) ٹھیک ہے میں چلتی ہوں۔ اور ہاں امی کہہ رہی تھیں کہ اسے کہنا کسی دن چکر لگا جاۓ۔۔۔ ہمارا نکاح ہوۓ دو ماہ ہو چکے ہیں اور تم نے اس کے بعد ایک دن بھی چکر نہیں لگایا۔ 


(کرسی کے پاس زمین سے اپنا ہینڈ بیگ اٹھاتی ہے۔) 



غیاث: انہیں کہنا اب اسی دن آؤں گا۔۔۔ برات لے کر۔



علیانہ: اس میں تو ابھی تین مہینے ہیں۔ مت بھولو وہ تمہارا سسرال بعد میں ہے پہلے تمہاری پھپھو کا گھر ہے۔



غیاث: اچھا ٹھیک ہے بھئ کسی دن لگا لوں گا چکر۔ ( برش پکڑ کے کینوس پر جھک جاتا ہے۔)


And that day will never come :علیانہ 


غیاث: (مسکراتے ہوۓ) خدا کی ذات سے مایوس نہیں ہوتے۔ آۓ گا۔۔۔ وہ دن بھی آۓ گا۔ 

that day will come soon



علیانہ: (دھیرے سے ہنستی ہے۔ باہر سے ہارن کی آواز دوبارہ آتی ہے۔)

 اچھا باۓ میں چلتی ہوں۔


 ( باہر نکل جاتی ہے۔)



دوسرا منظر


دن۔ سرفراز کا دفتر۔



ایک دفتر نما چھوٹا سا کمرا جس کے درمیان میں ایک کافی چوڑا میز ہے جس کے ایک طرف کرسی پر سرفراز اور دوسری طرف شیخ بیٹھا ہے۔ اس کے سامنے کسی مہنگے برانڈ کے سگریٹ پڑے ہیں۔ 



شیخ: دیکھیۓ سرفراز صاحب میں ایسی ویسی فلم نہیں بنا رہا اس کا بجٹ کروڑوں میں ہے اس کی کاسٹ بھی بہت   عمدہ ہو گی۔ اس لئے آپ اسے عام سی لو بجٹ فلم  نہ سمجھیں۔

 



سرفراز: میں کب کہہ رہا ہوں کہ آپ کی فلم کوںئ عام سی فلم ہو گی۔ میں جانتا ہوں بڑے بڑے اداکار اس میں کام کریں گے۔ آپ یہ مجھے بار بار کیوں بتا رہے ہیں؟



(  ان کی باتوں کے دوران غیاث کمرے میں داخل ہوتا ہے اور دونوں کو سلام کرتا ہے۔ دونوں اکٹھے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ )



سرفراز: ( دیوار کے ساتھ پڑی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ) آؤ غیاث آؤ بیٹھو میں ذرا شیخ صاحب سے ایک ضروری بات کر لوں۔ 



غیاث: اگر کوںئ خاص میٹنگ چل رہی ہے تو میں پھر آجاؤں گا۔



سرفراز: نہیں ایسی کوئی خاص بات نہیں بیٹھو تم بھی سن سکتے ہو۔( شیخ کی طرف متوجہ ہو کر) ہاں تو شیخ صاحب کیا کہہ رہے تھے آپ؟



(غیاث ایک طرف دیوار کے ساتھ کرسی پر بیٹھ جاتا ہے اور میز سے ایک میگزین اٹھا کر ورق گردانی کرنے لگ جاتا ہے۔)



شیخ: میں یہ کہہ رہا تھا سرفراز صاحب کہ اس فلم کے حساب سے آپ کی کہانی جاندار نہیں ہے۔ آپ اپنی کہانی بدلیۓ۔ آپ ایک اچھے رائیٹر ہیں مگر ابھی آپ اس فیلڈ میں نۓ نۓ ہیں میرا تجربہ آپ سے کافی زیادہ ہے اسی لیۓ کہہ رہا ہوں کہ ایسی کہانی اس قسم کی فلم کے لیۓ موزوں نہیں۔



سرفراز: تو آپ کہانی میں کس قسم کی تبدیلیاں کروانا چاہتے ہیں؟



آدمی: سب سے بڑی بات تو آپ کی کہانی میں ایکشن نہیں ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑی بات کہ آپ کی کہانی میں کوںئ ولن ہی نہیں ہے اب جب ولن ہی نہیں ہو گا تو ایکشن کہاں سے آۓ گا۔



سرفراز: دیکھیۓ شیخ صاحب اس کہانی میں ولن اصل میں معاشرہ ہے۔ اس میں سماج اور اس کی غلط اقدار پر تنقید کی گئ ہے۔ یہ کہانی تو ایک سماجی موضوع پر ہے۔ اس میں ہیرو یا اس کا جو پروٹیگونسٹ ہے وہ معاشرے کی غلط اقدار اور روایات کے خلاف لڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کہانی میں آپ کو پسِ پردہ پورا سماج ولن کے طور پر دکھائی نہیں دے رہا؟



شیخ: اوچھوڑیں جی سرفراز صاحب ہمیں کیا لینا دینا معاشرے سے۔ معاشرے واشرے کو چھوڑیں آپ۔ بس آپ اس میں کوںئ ولن ڈالیۓ دو چار اچھی سی ہیرو اور ولن کی لڑائیاں کروایۓ۔ اور ہیرو کے ولن کے ساتھ جوش بھرے مکالمے ڈالیۓ جس سے ہال میں لوگ اٹھ اٹھ کر تالیاں بجانے پر مجبور ہو جائیں۔ رومینٹک سینز تو آپ کے اسکریپٹ میں ہیں ہی نہیں۔ اچھے سے دو چار اس قسم کے سینز ڈالیں۔ پورا مسالہ تیار کریں ورنہ تو اتنی بڑی فلم پٹ جاۓ گی لوگ دیکھیں گے ہی نہیں۔

سرفراز: شیخ صاحب یہ بھی اچھی کہانی ہے لوگوں کو پسند آۓ گی۔ 

شیخ: نہیں بھاںئ میں کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتا۔ لوگ سینما میں اتنی مہنگی ٹکٹ خرید کر آپ کی اس سماجی بہبود کی فلم کو دیکھنے نہیں آئیں گے۔ لوگ تو ایسی فلموں کو دیکھنا پسند کرتے ہیں جن میں عمدہ قسم کے دو چار رومینٹک سینز ہوں۔ ہیرو اور ولن کی تگڑی لڑائیاں ہوں اور جس میں خطرناک اور سنسنی خیز قسم کے ایکشنز ہوں۔ 



 (غیاث گفتگو میں شریک ہوتا ہے)



غیاث: شیخ صاحب آپ کی بات بجا ہو گی شاید لوگ یہی پسند کرتے ہیں اور اسی قسم کی فلمیں دیکھنے کے لیۓ ہی سینما کا رخ کرتے ہوں گے جو انہیں گھٹیا قسم کی تفریح کے سوا اور کچھ مہیا نہیں کرتیں مگر کیا لوگوں کو وہی دکھانا چاہیۓ جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں یا ان کا معیار اور ذوق بہتر کرنا چاہیۓ؟



آدمی: غیاث صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ بھلا جو کچھ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں ہم انہیں وہی دکھائیں گے نا ورنہ وہ دیکھیں گے ہی کیوں۔ اتنا پیسہ جو ہم لگاتے ہیں وہ تو ڈوب جاۓ گا۔ ہاں اگر وہ کسی اور معیار کی کہانیاں پسند کرنے لگ جائیں گے تو ہم وہ دکھا دیں گے۔ ویسے بھی یہ سب جو آپ کہہ رہے ہیں ڈراموں میں چل سکتا ہے کیونکہ ڈرامے لوگ مفت میں گھر میں بیٹھ کر دیکھتے ہیں مگر سینما میں اتنی مہنگی ٹکٹ خرید کر کون ایسی فلم دیکھے گا۔ 



سرفراز: اچھا ٹھیک ہے شیخ صاحب آپ جیسا کہیں گے ویسا ہی ہو گا۔ ویسا ہی اسکرپٹ آپ کو ملے گا جیسا آپ چاہیں گے۔ 



آدمی: (خوش ہوتے ہوۓ) یہ ہوںئ نا بات۔ بس اب جلدی سے اسکرپٹ تیار ہو جانا چاہیۓ۔ (اٹھتے ہوۓ) اچھا اب میں چلتا ہوں پھر ہو گی ملاقات۔


 ( باہر نکل جاتا ہے۔)


تیسرا منظر

دن۔ علیانہ کا گھر۔

(ایک خوبصورت ڈرایئنگ روم جس میں علیانہ کی امی اور غیاث آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔)


امی: دیکھو غیاث بیٹا میں تم سے صاف صاف بات کروں گی۔ میں تمہارے والد کی سگی بہن نہ سہی مگر وہ مجھے اپنی سگی بہن ہی سمجھتے تھے۔ جب تک وہ حیات تھے تو اور بات تھی مجھے کسی قسم کی کوںئ پریشانی نہیں تھی۔ تمہاری امی کی ذہنی اور جسمانی حالت بھی ایسی نہیں کہ ان سے بات کی جا سکے وہ تو بستر سے لگ چکی ہیں اَللّٰه انہیں تندرستی دے مگر اب تم ہی ہو جس سے میں بات کر سکتی ہوں۔ بات دراصل یہ ہے ( کچھ توقف کے بعد) میں جاننا چاہتی ہوں کہ تم شادی کے انتظام کے اخراجات اور اس کے بعد علیانہ کا خرچہ کیسے اٹھاؤ گے تمہاری تصویریں اتنی تو بکتی نہیں کہ ان سے کوئی مناسب آمدن تمہیں ہو جاتی ہو۔


غیاث: ( کچھ سوچ کر) آپ فکر نہ کریں ابھی شادی کو کچھ ماہ ہیں میں انتظام کر لوں گا۔ اور رہی بعد کی بات تو اس کا بھی مناسب بندوبست ہو جاۓ گا۔


عورت: بہت اچھی بات ہے بیٹا جتنی جلدی ہو سکے انتظام کر لو دن بہت ہی کم رہ گۓ ہیں۔ اور برا نہ منانا تمہیں تو پتہ ہے سب کام میں نے ہی کرنے ہیں علیانہ کے والد حیات ہوتے تو اور بات تھی۔ اکیلی ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی پریشان ہو جاتی ہوں۔



غیاث: آپ پریشان مت ہوں سب کام اچھے سے ہو جائیں گے۔ (اٹھتے ہوۓ) اچھا اب مجھے اجازت دیجیۓ مجھے کسی کام سے جانا ہے۔ 


عورت: ارے ارے۔۔۔بیٹھو تو سہی علیانہ بس آتی ہی ہو گی۔


غیاث: نہیں میں اس سے بعد میں مل لوں گا دراصل مجھے ابھی ضروری کام سے کہیں جانا ہے۔ خدا حافظ۔

عورت: خدا خافظ۔

چوتھا منظر 

دن۔ غیاث کا گھر۔

 غیاث کا وہی کمرا ہر چیز بلکل ویسے ہی پڑی ہے۔ غیاث خیالوں میں کہیں کھوۓ ہوۓ اندر داخل ہوتا ہے۔ کچھ تھکا تھکا سا لگ رہا ہے۔ اردگرد کی چیزوں پر نظر دوڑاتا ہے اور پھر برش پکڑ کر سامنے کینوس پر نامکمل تصویر کو پینٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اچانک کسی خیال سے برش چھوڑ کر موبائل نکالتا ہے اور نمبر ڈائل کرتا ہے۔


غیاث: ہیلو۔۔۔ السلام علیکم۔ جی میں غیاث بول رہا ہوں۔ 


(دوسری طرف سے کسی آدمی کی آواز آتی ہے۔)

آدمی: جی جی غیاث صاحب فرمایۓ کیا حکم ہے؟

غیاث: گِل صاحب کیا اب بھی آپ مجھے سپانسر کرنا چاہتے ہیں؟

آدمی: جی جی بلکل میں تیار ہوں بس شرط وہی ہے کہ آپ کو میری مرضی کے مطابق تصویریں بنانی ہوں گی۔ جیسی ہم چاہیں گے بلکل آپ ویسی ہی تصویریں بنائیں گے۔ 

غیاث: ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔ میں بلکل ویسی ہی پینٹنگز بناؤں گا جیسی آپ چاہیں گے۔ 

آدمی: (خوش ہوتے ہوۓ) کیا بات ہے بس پھر آپ تیار رہیں آپ کی تصویروں کی ایک بڑی سی ایگزیبیشن ہو گی۔ 

and believe me mr Gyas 

لاکھوں میں بکیں گی لاکھوں میں۔ بہت بڑے بڑے لوگ آئیں گے ہماری ایگزیبیشن میں بس آپ ابھی سے تیاری پکڑ لیجیۓ۔

غیاث: ٹھیک ہے گِل صاحب۔ خدا حافظ۔

فون بند کر دیتا ہے۔ تھوڑی دیر کچھ سوچنے کے بعد کینوس سے نامکمل تصویر اتار کر پھینک دیتا ہے۔ اور کوںئ دوسری تصویر بنانا شروع کر دیتا ہے۔ چند سیکنڈ بعد دوبارہ برش روکتا ہے اور نیچے فرش پر پڑی اسی نامکمل تصویر کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگ جاتا ہے۔










Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post