Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

 




 پہلا منظر


ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک طرف میز پر رنگ ہی رنگ بکھرے ہیں۔ پاس ہی برشز اور مصوری کا دیگر سامان پڑا ہے۔ جگہ جگہ پر رنگوں کے داغ ہیں۔ دیواریں بھی مختلف قسم کی پینٹنگز سے بھری ہیں۔ دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ کسی مصور کا کمرا ہے۔ کمرے کے عین درمیان میں ایک نوجوان لڑکا جس کا نام غیاث ہے کینوس پر جھکا کچھ پینٹ کرنے میں مصروف ہے۔ اس کے ہاتھوں اور کسی حد تک کپڑوں پر بھی کئ اقسام کے رنگوں کے داغ ہیں۔دوسری طرف دیوار کے پاس ایک کرسی پر خوبصورت نوجوان لڑکی بیٹھی ہے۔ جس کی گود میں ایک تصویر پڑی ہے۔ اس کا نام علیانہ ہے۔ 


علیانہ: (تصویر پر ہاتھ پھیرتےہوۓ) یہ تم نے کیا ہر تصویر پر اپنا نام لکھوایا ہوا ہے، 'غیاثو'۔ یہ بھی کوںئ نام ہوا بھلا؟


غیاث: (بغیر گردن ہلاۓ اپنا کام کرتے ہوۓ ) بھئ ہم پکاسو( Picasso) کے فین ہیں تو اس لیۓ اس سے متاثر ہو کر ہم نے اپنا نام اپنی تصویروں پر غیاث سے غیاثو رکھ لیا ہے۔ یعنی یوں سمجھو جس طرح شاعروں کے  تخلص اور ادیبوں کے  قلمی نام ہوتے ہیں اسی طرح یہ ہمارا مصوری نام ہے۔ (مسکراتا ہے)


علیانہ: آ ہا ہا ہا۔ واہ مصوری نام۔ تو جناب مصور صاحب کوںئ ڈھنگ کا نام نہیں ملا آپ کو۔ یہ بھی کوںئ نام ہوا بھلا؟


غیاث: بھئ کہا تو ہے کہ میں پکاسو سے متاثر ہوں اسی لیۓ اس کے نام سے ملتا جلتا میں نے یہ نام رکھا ہے۔ 


علیانہ: واہ جی واہ کیا بات ہے آپ کی۔ تو اس کا مطلب ہے اگر کوںئ ڈاونچی (Davinci) کا فین ہے تو وہ اپنا نام ڈانکی (donkey) رکھ لے پھر؟ 


غیاث: (ہنستا ہے) ہاں رکھ سکتا ہے یہ بھی کوںئ برا نام تو نہیں ویسے۔


علیانہ: ویسے سچی بتاؤں یہ جو تمہارا اصلی نام ہے نہ غیاث ، یہ بھی ایویں ای ہے۔ جب میں نے پہلی مرتبہ سنا تھا تو مجھے لگا کوںئ بزرگ ہو گا پر جب تمہیں دیکھا تو یعقین نہ آیا۔ ایسے نام کے تو اب بزرگ بھی شاید ہی کہیں پاۓ جاتے ہوں۔ اب ایسے نام کون رکھتا ہے۔۔۔


غیاث: ہاں مجھے بھی کوںئ خاص پسند نہیں پر کیا کروں گھر والوں نے رکھ دیا ہوا ہے تو اب چلانا تو پڑے گا ہی نا۔


(علیانہ اب اٹھ کر سامنے والی دیوار پر لٹکی تصویر کا معانہ کرنے لگتی ہے۔)


علیانہ: ویسے اب تمہیں ضد چھوڑ دینی چاہیۓ اور وہی تصویریں بنانی چاہییئں جن کی مانگ ہے۔ اب تم نے شادی بھی کرنی ہے اور اگر اسی طرح چلتا رہا تو خرچہ کیسے اٹھاؤ گے، اور کوںئ دوسرا پروفیشن تو تم اپناؤ گے نہیں۔


(غیاث کھڑا ہو جاتا ہے اور ساتھ والی دیوار سے ٹیک لگا کر فضا میں کہیں گھورتے ہوۓ بولتا ہے۔ )


غیاث: ہاں وہی میں بھی سوچ رہا ہوں کچھ تو کرنا ہو گا اس کے لیۓ بھی۔ پر ایک بات تو طے ہے میں ویسی ہی تصویریں بناؤں گا جیسی میں چاہتا ہوں۔ 


علیانہ: (اس کی طرف رخ کرتے ہوۓ)۔ یہ تو فضول قسم کی ضد ہوںئ۔ (سمجھانے والے انداز میں)  میری بات سمجھو غیاث، لوگ  جیسی تصویریں پسند کرتے ہیں ویسی بنانے میں کیا حرج ہے۔ تم آخر ویسی ہی تصویریں کیوں نہیں بناتے؟


غیاث: اس لیۓ کہ میں آرٹ کو عبادت سمجھتا ہوں، میں تو اسے روحانیت کا درجہ دیتا ہوں۔ آج کل لوگوں نے آرٹ کو کاروبار بنا دیا ہے۔ میں ایسا آرٹ تخلیق نہیں کر سکتا جو دکھنے میں تو بہت خوبصورت ہو، لوگوں کو لطف اندوز کرتا ہو مگر اس سے لوگوں کو کچھ حاصل نہ ہوتا ہو۔ میرے نزدیک ایسا آرٹسٹ جو اپنی تخلیق میں بڑی تزیئن و آرائش کرتا ہے، شعر میں بڑے خوبصورت الفاظ استعمال کرتا ہے یا تصویر میں بڑے شاندار رنگ بھرتا ہے اتنا کہ لوگ دیکھ کر یا سن کر بڑے محظوظ ہوتے ہوں اور اش اش کر اٹھیں مگر حقیقت میں اس کے اندر کچھ ایسا نہ ہو جو انہیں سوچنے پر مجبور کرے یا انہیں کوںئ حقیقی روحانی فائدہ پہنچاۓ، وہ کاروباری تو ہو سکتا ہے آرٹسٹ نہیں۔ بلکل اس بڑھئ کی طرح جو بہت اعلی قسم کا فرنیچر تیار کرتا ہے اس پر خوبصورت نقش و نگاری کرتا ہے اور اسے جا کر بازار میں بیچ آتا ہے وہ ایک ماہر کاریگر یا ایک اچھا بزنس مین تو ہو سکتا ہے مگر آرٹسٹ نہیں۔ اسی طرح اس قسم کا آرٹسٹ بھی ایک ماہر کاریگر یا کاروباری تو کہلا سکتا ہے مگر آرٹ کے اعلی درجے پہ فائز نہیں ہو سکتا۔


علیانہ: مگر آرٹسٹ کو بھی تو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اگر وہ آرٹ کو کاروبار کی طرح نہ چلائںیں ویسا ہی آرٹ تخلیق نہ کریں جس کی بازار میں مانگ ہے تو ان کا آرٹ خریدے گا کون۔


(غیاث چند لمحے فضا میں خاموشی سے گھورتا رہتا ہے پھر بولنے ہی لگتا ہے کہ باہر سے گاڑی کے ہارن کی آواز آتی ہے۔) 


غیاث: (ہارن کی آواز سن کر) لو آگۓ۔۔۔


علیانہ: اچھا ٹھیک ہے میں چلتی ہوں اور ہاں امی کہہ رہی تھیں کہ اسے کہنا چکر لگا جاۓ۔ ہمارا نکاح ہوۓ دو ماہ ہو چکے ہیں اور تم نے اس کے بعد ایک دن بھی چکر نہیں لگایا۔ (کرسی کے پاس زمین سے اپنا ہینڈ بیگ اٹھاتی ہے۔) 


غیاث: انہیں کہنا اب اہک ہی دن ہی آؤں گا برات لے کر۔


علیانہ: اس میں تو ابھی تین مہینے ہیں۔ اور مت بھولو وہ تمہارا سسرال بعد میں ہے پہلے تمہاری پھپھو کا گھر ہے۔


غیاث: اچھا ٹھیک ہے بھئ کسی دن لگا لوں گا چکر۔ (پھر برش پکڑ کے کینوس پر جھک جاتا ہے۔)


علیانہ: And that day will never come…


غیاث: (مسکراتے ہوۓ، شرارت کے سے انداز میں) خدا کی ذات سے مایوس نہیں ہوتے، آۓ گا، وہ دن بھی آۓ گا۔ that day will come soon


علیانہ: (ہنستی ہے) ( باہر سے ہارن کی آواز دوبارہ آتی ہے۔) اچھا باۓ (bye) میں چلتی ہوں اب۔ ( باہر نکل جاتی ہے۔)


دوسرا منظر:


ایک دفتر نما چھوٹا سا کمرا ہے جس کے درمیان میں ایک کافی چوڑا میز ہے جس کے ایک طرف کرسی پر ایک نوجوان لڑکا اور دوسری طرف ایک پینتالیس پچاس کی عمر کا ایک آدمی بیٹھا ہے۔ بال خاصے بڑے بڑے ہیں، فرنچ کٹ ڈارھی ہے۔ قدرے فربہ ہے مگر خوبصورت ہے۔ آواز ذرہ بھاری ہے، اس کے سامنے کسی مہنگے برانڈ کے سگریٹ پڑے ہیں۔ نوجوان سمارٹ ہے، خوبصورت ہے، بال بکھرے ہیں آنکھوں کے نیچے سیاہ دھبے سے پڑے ہیں۔ 


آدمی: دیکھیۓ سرفراز صاحب میں ایسی ویسی فلم نہیں بنا رہا اس کا بجٹ کروڑوں میں ہے اس کی کاسٹ بھی بہت عمدہ ہو گی۔ اس لئے آپ اسے عام سی low budget film نہ سمجھیں۔ 


سرفراز: میں کب کہہ رہا ہوں کہ آپ کی فلم کوںئ عام سی فلم ہو گی۔ میں جانتا ہوں بڑے بڑے اداکار اس میں کام کریں گے۔ آپ یہ مجھے بار بار کیوں کہہ رہے ہیں؟


(  ان کی باتوں کے دوران غیاث کمرے میں داخل ہوتا ہے اور دونوں کو سلام کرتا ہے۔ دونوں اکٹھے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ )


سرفراز: ( دیوار کے ساتھ پڑی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ) آؤ غیاث آؤ بیٹھو میں ذرہ شیخ صاحب سے ایک ضروری بات کر لوں۔ 


غیاث: اگر کوںئ خاص میٹنگ چل رہی ہے تو میں پھر آجاؤں گا۔


سرفراز: نہیں ایسی بات نہیں بیٹھو تم بھی سن سکتے ہو۔( آدمی کی طرف متوجہ ہوتے ہوۓ) ہاں تو شیخ صاحب کیا کہہ رہے تھے آپ۔


(غیاث ایک طرف دیوار کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے اور میز سے ایک میگزین اٹھا کر ورق گردانی کرنے لگ جاتا ہے۔)


آدمی: میں یہ کہہ رہا تھا کہ اس فلم کے حساب سے آپ کی کہانی جاندار نہیں ہے۔ آپ اپنی کہانی بدلیۓ۔ آپ ایک اچھے رائیٹر ہیں مگر ابھی آپ اس فیلڈ میں نۓ نۓ ہیں ۔ میرا تجربہ آپ سے کافی زیادہ ہے اسی لیۓ کہہ رہا ہوں کہ ایسی کہانی اس قسم کی high budget فلم کے لیۓ موزوں نہیں۔


سرفراز: تو آپ کہانی میں کس قسم کی تبدیلیاں کروانا چاہتے ہیں؟


آدمی: بھئ سب سے بڑی بات تو آپ کی کہانی میں ایکشن ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑی بات کہ آپ کی کہانی میں کوںئ ولن ہی نہیں ہے اب جب ولن ہی نہیں ہو گا تو ایکشن کہاں سے آۓ گا۔


سرفراز:  دیکھیۓ شیخ صاحب اس کہانی میں ولن اصل میں معاشرہ ہے۔ اس میں سماج اور اس کی اقدار کی عکاسی کی گئ ہے۔ یہ کہانی تو ایک سماجی موضوع پر ہے۔ 


آدمی: او چھوڑیں جی سرفراز صاحب ہمیں کیا لینا دینا معاشرے سے۔ معاشرے واشرے کو چھوڑیں آپ۔ بس آپ اس میں کوںئ ولن ڈالیۓ دو چار اچھی سی ہیرو اور ولن کی لڑائیاں کروایۓ۔ اور ہیرو کے ولن کے ساتھ جوش بھرے مکالمے ڈالیۓ جس سے ہال میں لوگ اٹھ اٹھ کر تالیاں بجانے پر مجبور ہو جائیں۔ رومینٹک سینز تو آپ کے اسکریپٹ میں ہیں ہی نہیں۔ بھئ اچھے سے دو چار اس قسم کے سینز ڈالیں۔ پورا مسالہ تیار کریں ورنہ تو اتنی بڑی فلم پٹ جاۓ گی لوگ دیکھیں گے ہی نہیں۔


سرفراز: شیخ صاحب یہ بھی اچھی کہانی ہے لوگوں کو پسند آۓ گی۔ 


آدمی: نہیں بھاںئ میں کسی قسم کا risk نہیں لے سکتا۔ لوگ  سینما میں اتنی مہنگی ٹکٹ خرید کر آپ کی اس سماجی فلم کو دیکھنے نہیں آئیں گے۔ وہ تو مسالہ قسم کی فلموں کو دیکھنے آتے ہیں۔ 


(اب غیاث گفتگو میں شریک ہوتا ہے)


غیاث: شیخ صاحب آپ کی بات ٹھیک ہو گی شاید لوگ یہی پسند کرتے ہیں اور اسی قسم کی فلمیں دیکھنے کے لیۓ ہی سینما کا رخ کرتے ہوں گے مگر کیا لوگوں کو وہی دکھانا چاہیۓ جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں یا ان کا معیار اور ذوق بہتر کرنا چاہیۓ؟


آدمی: غیاث صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں، بھلا جو کچھ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں ہم انہیں وہی دکھائیں گے نا ورنہ وہ دیکھیں گے ہی کیوں۔ اتنا پیسہ جو ہم لگاتے ہیں وہ تو ڈوب جاۓ گا۔ اور اگر وہ کسی اور معیار کی کہانیاں پسند کریں گے تو ہم وہ دکھا دیں گے۔ ویسے بھی یہ سب جو آپ کہہ رہے ہیں ڈراموں میں چل سکتا ہے کیونکہ وہ لوگ مفت میں گھر میں بیٹھ کر دیکھتے ہیں مگر سنما میں اتنی مہنگی ٹکٹ خرید کر کون ایسی فلم دیکھے گا۔ 


سرفراز: اچھا ٹھیک ہے شیخ صاحب آپ جیسا کہیں گے ویسا ہی ہو گا۔ ویسا ہی اسکرپٹ آپ کو ملے گا جیسا آپ چاہیں گے۔ 


آدمی: (خوش ہوتے ہوۓ) یہ ہوںئ نا بات۔ بس اب جلدی سے اسکرپٹ تیار ہو جانا چاہیۓ۔ (اٹھتے ہوۓ) اچھا اب میں چلتا ہوں پھر ہو گی ملاقات۔ ( باہر نکل جاتا ہے۔)


تیسرا منظر: 


(ایک خوبصورت ڈرایئنگ روم جس میں ایک ادھیڑ عمر عورت اور غیاث آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔)


عورت: دیکھو غیاث بیٹا میں تم سے صاف صاف بات کروں گی۔ میں تمہارے والد کی سگی بہن نہ سہی مگر وہ مجھے اپنی سگی بہن ہی سمجھتے تھے۔ جب تک وہ حیات تھے تو اور بات تھی مجھے کسی قسم کی کوںئ پریشانی نہیں تھی۔ تمہاری امی کی ذہنی اور جسمانی حالت بھی ایسی نہیں کہ ان سے بات کی جا سکے وہ تو بستر سے لگ چکی ہیں اَللّٰه انہیں تندرستی دے مگر اب تم ہی ہو جس سے میں بات کر سکتی ہوں۔ بات دراصل یہ ہے ( تھوڑی دیر توقف کے بعد) کہ میں جاننا چاہتی ہوں کہ تم شادی کا انتظام اور اس کے بعد علیانہ کا خرچہ کیسے اٹھاؤ گے تمہاری تصویریں اتنی تو بکتی نہیں کہ ان سے کوئی مناسب آمدن تمہیں ہو جاتی ہو۔


غیاث: ( کچھ سوچ کر) آپ فکر نہ کریں ابھی شادی کو کچھ ماہ ہیں میں انتظام کر لوں گا۔ اور رہی بعد کی بات تو اس کا بھی مناسب بندوبست ہو جاۓ گا۔


عورت: بہت اچھی بات ہے بیٹا جتنی جلدی ہو سکے اب انتظام کر لو دن بہت ہی کم رہ گۓ ہیں۔ اور برا نہ منانا تمہیں تو پتہ ہے سب کام میں نے ہی کرنے ہیں علیانہ کے والد حیات ہوتے تو اور بات تھی مگر اکیلی ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی پریشان ہو جاتی ہوں۔


غیاث:آپ پریشان مت ہوں سب کام اچھے سے ہو جاںئیں گے۔ (اٹھتے ہوۓ) اچھا اب مجھے اجازت دیجیۓ مجھے کسی کام سے جانا ہے۔ 


عورت: ارے ارے۔۔۔بیٹھو تو سہی علیانہ بس آتی ہی ہو گی۔


غیاث: نہیں میں اس سے بعد میں مل لوں گا دراصل مجھے ابھی ضروری کام سے کہیں جانا ہے۔ خدا حافظ۔


عورت: خدا خافظ۔


چوتھا منظر: 


وہی غیاث کا کمرا ہر چیز بلکل ویسے ہی پڑی ہے۔ غیاث سوچوں میں گم اندر داخل ہوتا ہے۔ کچھ تھکا تھکا سا لگ رہا ہے۔ تھوڑی دیر ایسے ہی ارد گرد کی چیزوں پر بغیر کسی مقصد کے نظر دوڑاتا ہے اور پھر برش پکڑ کر سامنے کینوس پر نامکمل تصویر کو پینٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اچانک کسی خیال سے برش چھوڑ کر موبائل نکالتا ہے اور نمبر ڈائل کرتا ہے۔


غیاث: ہیلو۔۔۔ السلام علیکم۔ جی میں غیاث بول رہا ہوں۔ 


(دوسری طرف سے کسی آدمی کی آواز آتی ہے۔)


آدمی: جی جی غیاث صاحب فرمایۓ کیا حکم ہے؟


غیاث: گِل صاحب کیا اب بھی آپ مجھے سپانسر کرنا چاہتا ہیں؟


آدمی: جی جی بلکل میں تیار ہوں بس شرط وہی ہے کہ آپ کو میری مرضی کے مطابق تصویریں بنانی ہوں گی۔ جیسی ہم چاہیں گے بلکل آپ ویسی ہی تصویریں بنائیں گے۔ 


غیاث: ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔ میں بلکل ویسی ہی پینٹنگز بناؤں گا جیسی آپ چاہیں گے۔ 


آدمی: (خوش ہوتے ہوۓ) کیا بات ہے بس پھر آپ تیار رہیں ایک بڑی ایگزیبیشن ہو گی آپ کی تصویروں کی۔ and believe me mr Gyas لاکھوں میں بکیں گی لاکھوں میں۔ بہت بڑے بڑے لوگ آئیں گے ہماری ایگزیبیشن میں۔ بس آپ ابھی سے تیاری پکڑ لیجیۓ۔


غیاث: ٹھیک ہے گِل صاحب۔  اَللّٰه حافظ۔


فون بند کر دیتا ہے۔ تھوڑی دیر کچھ سوچنے کے بعد کینوس سے نامکمل تصویر اتار کر پھینک دیتا ہے۔ اور کوںئ دوسری تصویر بنانا شروع کر دیتا ہے۔ چند سیکنڈ بعد دوبارہ برش روکتا ہے اور نیچے فرش پر پڑی اسی نامکمل تصویر کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگ جاتا ہے۔









Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات