Drizzling Of Love

Drizzling Of Love

 



کچی سڑک کے دونوں اطراف دراز قد درختوں کی قطاریں دور تک سڑک کے ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔ آدھی رات کی تاریکی میں سڑک پر ان درختوں اور ہم دونوں کے سوا کوںئ نہیں تھا۔ آسمان سے تارے  جھانک رہے تھے مگر چاند کہیں غائب تھا۔ "تم بس چلتے رہو آگے کہیں لازما کوںئ پکی سڑک ہو گی جہاں سے ہمیں کوںئ گاڑی مل جاۓ گی۔" میرے ساتھی نے چادر کی بکل مارتے ہو ۓ کہا۔ چادر کی کوںئ خاص ضرورت تو نہیں تھی  مئ کا مہینہ تھا اور دن کے وقت تو اچھی خاصی گرمی تھی، رات کے اس پہر اگرچہ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور ان درختوں کے پیچھے دور تک پھیلے وسیع اور کھلے میدانوں کے باعث ہلکی ہلکی سردی محسوس ہوتی تھی مگر چادر کی ضرورت پھر بھی نہیں تھی۔ "یار یہ تم چادر کیوں ساتھ اٹھا لے آۓ۔"


"بس یار ایسے ہی سوچا کچھ تو وہاں سے لے آؤں۔اور دیکھنا یہ رستے میں ہمارے بڑے کام آۓ گی۔"


کچھ دیر چلنے کے بعد کچا راستہ ختم ہوا تو آگے کھیت آگۓ۔ ہم پگڈنڈی پر اتر گۓ۔ تاحد نگاہ کھیت ہی کھیت پھیلے تھے جن کو تاریکی نے ڈھانپ رکھا تھا۔ رات کی اس تاریکی کو صرف ستارے اپنی روشنی سے کچھ ماند کر رہے تھے ورنہ دور دور تک آبادی کا کوںئ نام و نشان نہ تھا۔ ہم بڑے دھیان سے چل رہے تھے۔ ہماری کوشس تھی کہ اندھیرے میں جتنا دور تک سفر کیا جا سکتا ہےکر لیا جاۓ۔ دن کی روشنی میں پکڑے جانے کا خطرہ تھا اس لیۓ دن ہم کہیں چھپ کر گزارنا چاہتے تھے۔ ہم تنگ پگڈنڈی پر چلتے جا رہے تھے جو بہت طویل تھی، ارد گرد سے جھینگروں، ٹڈوں اور دوسرے جانوروں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اچانک میرے دوست کا پاؤں پھسلا اور وہ نیچے کھیتوں میں جا گرا۔ ماحول اس قدر خوفناک تھا کہ پولیس ہمارے پیچھے تھی اور تقریبا پورا گاؤں بھی، مگر پھر بھی مجھے ہنسی آگئ۔ میں  نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا۔ اس نے چادر اور کپڑے جھاڑے اور ہم پھر چل پڑے۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ہمیں دور روشنی کا ذرہ سا ایک نقطہ دکھاںئ دیا۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہاں یقیناً آبادی ہو گی۔ شاید کوںٔی گاؤں تھا۔ جیسے ہی پگڈندی ختم ہوںئ تو آگے ایک اور کچا راستہ آگیا۔ ہم اس پر نقطے کی سمت چلتے گۓ، نقطہ آہستہ آہستہ بڑا ہوتا جا رہا تھا۔ آس پاس اب بھی سواۓ ٹڈوں اور جھینگروں کی آواز کے مکمل خاموشی تھی۔ جیسے ہی ہم روشنی والی جگہ کے قریب آۓ ہم آہستہ ہو گۓ اور زیادہ احتیاط سے چلنے لگے۔ اب اس روشنی کے پیچھے بھی کچھ فاصلے پر مزید روشنیاں دکھاںئ دے رہی تھیں۔ جس سے ہمیں یہ تو معلوم ہو گیا تھا کہ واقعی یہ کوںئ گاؤں ہی ہے۔ مگر اس پہلی روشنی اور باقی کی روشنی میں خاصا فاصلہ تھا۔ یعنی یہاں ایک ہی گھر تھا اور گاؤں کے باقی گھر کافی فاصلے پر تھے پر ایسا کیوں تھا؟ "شاید یہ عمارت جہاں ہمیں روشنی نظر آرہی ہے گاؤں کی مسجد ہو۔" میرے دوست نے اندھیرے میں غور سے دیکھتے ہوۓ قیاس کیا۔ اس کی بات صحیح ہو سکتی تھی کیونکہ گاؤں میں عموماً مسجدیں باہر ہی ہوتی ہیں۔


"اگر تو تمہارا اندازہ ٹھیک ہے اور یہ کوںئ مسجد ہی ہے تو پھر تو سمجھو صبح ہو چکی ہے اور یہ فجر کی نماز کا وقت ہے۔ کیونکہ آدھی رات کو مسجد کی بتی تو کوںئ نہیں جلاۓ گا."


"ہو سکتا ہے کوںئ تہجد کے لیۓ مسجد آیا ہو۔ " اس نے ایک بار پھر اندازہ لگاتے ہو ۓ کہا۔ اور یقیناً یہ بات بھی درست ہو سکتی تھی کیونکہ گاؤں میں کئ دفعہ کوںئ بزرگ تہجد کے لیۓ بھی مسجد میں جایا کرتا تھا۔  مجھے اپنے گاؤں کا بابا دینا یاد آگیا۔ نجانے اس کا اصلی نام کیا تھا مگر ہم نے جب سے سننا شروع کیا اس کا یہی نام سنتے آۓ تھے۔ گاؤں کے بچے، بوڑھے، عورتیں مرد سب اس کو اسی نام سے پکارتے تھے۔ اس کا گھر ہمارے گھر کے ساتھ ہی تھا، گرمیوں کی راتوں کو جب سب گھروں کی چھتوں پر سو رہے ہوتے وہ آرام سے بغیر کوںئ آواز کیۓ اپنی چھت سے اترتا اور مسجد کی طرف تہجد کے لیۓ چلا جاتا۔ اس کی چھت ہماری چھت سے ملحق تھی اس لیۓ اکثر مجھے وہ  رات کو اٹھ کر مسجد جاتے ہوۓ دکھاںئ دیتا۔ مجھے اسے رات کے اس پہر یوں باہر جاتے ہوۓ دیکھنا اچھا لگتا تھا۔ میں تب کافی چھوٹا تھا، مجھے اس وقت باہر جا کر دیکھنے کا تجسس تھا کہ رات کے اس پہر جب سارا گاؤں سو رہا ہوتا ہے ہر طرف مکمل سناٹا ہوتا ہے تو باہر نکل کر گلیوں میں گھومنا کیسا لگتا ہے۔ رات کو اس وقت اردگرد کی فضا کیسی لگتی ہے۔ میں خود تو نہ جا سکتا تھا مگر بابا دینا کو جاتے دیکھ کر خوش ہوتا تھا، پھر کچھ عرصے کے بعد میرا بابے دینے کی آنکھ سے رات کے اس پہر کو دیکھنے کا مشغلہ بھی جاتا رہا، ایک رات جب تہجد کا وقت ہوا تو میں انتظار کرنے لگا کہ ابھی بابا اٹھے گا اور مسجد کی طرف جاۓ گا مگر میں منتظر ہی رہا پر بابا دینا نہ اٹھا۔ 


ہم دونوں نے اپنے موبائل فون جان بوجھ کر توڑ کر پھینک دیۓ تھے کیونکہ اس سے ہمارے پکڑے جانے کا خدشہ تھا۔ اور اب ہمارے پاس کوںئ گھڑی وغیرہ بھی نہیں تھی اس لیۓ ہم وقت کے بارے میں بس اندازہ ہی لگا سکتے تھے۔ قریب پہنچ کر ہم نے جانا کہ ہمارے اندازے غلط تھے وہاں کوںئ مسجد نہیں تھی بلکہ ایک چھوٹا سا دربار تھا۔ قبر کے اوپر سبز رنگ کی گنبد نما چھت تھی جس پر بلب جل رہا تھا۔ اسی بلب کی روشنی ہمیں دور سے نظر آرہی تھی۔ پاس ہی ایک تختی نصب تھی جس پر اس پیر کا نام و نسب وغیرہ درج تھا جس کی یہ قبر تھی۔ اندھیرے کی وجہ سے میں مشکل سے چند الفاظ ہی پڑھ سکا جو کچھ یوں تھے، پیر، آستانہ عالیہ، شاہ صاحب ، قبلہ وغیرہ۔ ایک طرف بڑا سا پیپل کا درخت تھا جس کے نیچے زمین پر دو آدمی نیم دراز تھے۔ نہ تو پوری طرح لیٹے تھے اور نہ بیٹھے تھے نہ تو سوۓ تھے اور نہ ہی جاگے تھے۔ کپڑے ان کے جگہ جگہ سے ادھڑے تھے۔ یوں لگتا تھا برسوں سے نہیں نہاۓ۔  دور ہی سے ان سے ایک عجیب قسم کی گندی سی بو آرہی تھی ، جیسے ہی ہم ان کے تھوڑا قریب ہوۓ تو ہمیں اندازہ ہو گیا کہ دونوں چرس وغیرہ کے نشے میں ہیں اور اسی کی بو آرہی ہے۔ قبر کے پاس ہی کچھ فاصلے پر دریاں اور چٹایاں بچھی تھیں۔ ہمارے لیۓ رات گزارنے کے لیۓ اس سے اچھی جگہ کہیں نہیں مل سکتی تھی، ہم نے ان سے یہاں رات گزارنے کی اجازت مانگی جو انہوں نے نیم بے ہوشی کی حالت میں ہنس کر دے دی۔ انہوں نے ہم سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ ہم لوگ کون ہیں اور کہاں سے آرہے ہیں۔ ہم نے وقت پوچھا تو رات کےاڑھاںئ بجے تھے۔ یعنی کہ ابھی دو تین گھنٹے تھے ہم کچھ دیر آرام کر کے صبح دوبارہ اپنا سفر شروع کر سکتے تھے۔ اور ویسے بھی ہمیں کون سا کہیں پہنچنا تھا ہمیں تو بس چھپنا تھا اور بھاگنا تھا۔ اور اس سے محفوظ جگہ تو کچھ دیر کے لیۓ ہی سہی اور کہاں مل سکتی تھی۔ صبح شاید یہاں سے ہمیں کچھ کھانے پینے کو بھی مل جاۓ لہذا ہم بچھی ہوںئ دریوں پر لیٹ گۓ۔ لیٹتے ہی ہمیں نیند آگئ۔ 


کچھ دیر بعد میری آنکھ کھلی تو سورج ہمارے سر پر تھا۔ یوں لگا کہ ابھی چند منٹ پہلے تو سوۓ تھے مگر جب وقت دیکھا تو معلوم پڑا کہ چھ بج چکے ہیں۔ اگرچہ یہ ابھی صبح صبح کا وقت تھا مگر سارا گاؤں بیدار ہو چکاتھا، بلکہ یوں لگ رہا تھا کہ دوپہر ہو چکی ہے۔ بہت سے لوگ اپنے کاموں پر جا چکے تھے ، چند لوگ ابھی گزر رہے تھے۔  دربار چونکہ گاؤں کے راستے میں تھا اس لیۓ جو بھی گاؤں میں داخل ہوتا یا باہر جاتا تو یہیں سے ہو کر گزرتا۔ میرا دوست کب کا اٹھ چکا تھا اور ایک طرف لگے نلکے پر ہاتھ منہ دھو رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں لوگوں کی آمدورفت دربار میں بھی شروع ہو گئ۔ لوگ آتے، نذرانے وغیرہ دیتے، منتیں مانگتے ، قبر پر پھول پیش کرتے اگربتیاں لگاتے، دعا کرتے اور چلے جاتے۔ لوگوں کی آمدورفت کا یہ سلسلہ ہمارے لیۓ فاںئدہ مند تو ہوا ہی کہ ہمیں کھانے پینے کو بہت کچھ مل گیا لوگ نذرانے کے طور پر کھانے پینے کی بہت سی اشیاء یہاں دے کر جاتے مگر ایک خطرہ ہمارے لیۓ یہ بھی تھا کہ یہاں لوگ زیادہ تر آس پاس کے گاؤں سے آتے تھے اور ہم ابھی اپنے گاؤں سے اتنی دور نہیں آۓ تھے اس لیۓ کوںئ بھی ہمیں یہاں پہچان سکتا تھا۔ "میرا خیال ہے اب چلنا چاہیۓ" میرے دوست نے چاۓ کا کپ نیچے رکھتے ہوۓ کہا۔ دربار سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک چاۓ خانہ کھل گیا تھا جہاں اب ہم بیٹھے تھے۔ "مگر اس وقت سفر کرنا خطرناک ہو سکتا ہے ہمیں آج دن یہیں گزارنا چاہیۓ اور رات کے اندھیرے میں نکلنا چاہئیۓ۔" ہم دونوں اس معاملے پر کچھ دیر غور کرتے رہے اور پھر دن یہیں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن چونکہ دربار کے اردگرد خطرہ تھا یہاں لوگ آس پاس کے گاؤں سے آتے تھے اور یقیناً ہمارے اپنے گاؤں سے بھی کوںئ نہ کوںئ آتا ہوگا اس لیۓ کوںئ بھی ہمیں پہچان سکتا تھا۔ اب مسٔلا یہ تھا کہ یہ وقت کہاں گزارا جاۓ۔ ہم یونہی گاؤں کی سمت چل دیۓ ہمارا ارادہ تھا کہ گاؤں کے دوسرے سرے کی طرف چلتے ہیں ایک تو اس سے وقت کافی کٹ جاۓ گا دوسرا شاید ہمیں کوںئ جگہ مل جاۓ جہاں ہم آرام سے اپنا دن گزار کر رات کو یہاں سے نکل جاںئیں۔ گاؤں کے بیچ و بیچ چلنے کی بجاۓ ہم نے جان بوجھ کر باہر کھیتوں اور پگڈنڈیوں کا راستہ منتحب کیا۔ اگرچہ یہاں ہمیں کوئی جانتا تو نہیں تھا اور اس گاؤں بھی ہم پہلی دفعہ ہی آۓ تھے مگر پھر بھی ہم کوںئ خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے۔


دھوپ خاصی نکل آںئ تھی اور گرمی پہلے سے بہت برھ گئ تھی۔  کسی ساۓ وغیرہ میں تو ٹھنڈی ہوا لگتی مگر دھوپ میں چلنا مشکل تھا۔ میرے دوست نے چادر اتار کر ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی۔


"کیا فاںئدہ ہوا تمہیں اس کو ساتھ لانے کا سردیاں تو ہیں نہیں خواہ مخواہ یہ مصیبت اٹھانی پڑ رہی ہے۔" وہ مسکرایا، "کیسی مصیبت یار یہ کام ہی آۓ گی ہمارے۔"


چلتے چلتے ایک جگہ کھیت ختم ہوۓ تو درختوں کا ایک چھوٹا سا جنگل نما جھنڈ آگیا۔ ہم نے فوراً یہاں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ جگہ ایسی تھی جہاں ہم آسانی سے چھپ کر دن گزار سکتے تھے۔ ہم جھنڈ کے اندر داخل ہوۓ، یہ جگہ کافی ہوا دار اور ٹھنڈی تھی۔ درختوں کے باعث دھوپ یہاں کم کم ہی پہنچتی تھی۔ ہم کسی مناسب جگہ کی تلاش کرنے لگے جہاں سے ہمیں کوںئ باہر سے گزرتا ہوا نہ دیکھ سکے۔ کچھ دیر تلاش کے بعد آخرکار ہمیں ایک جگہ مل گئ۔ اس جگہ سے باہر سے اندر نظر آنا تو مشکل تھا مگر ہم اندر بیٹھے ہوۓ باہر کا کسی حد تک نظارہ کر سکتے تھے۔  ہم نے جگہ صاف کی ،چادر بچھاںئ اور آرام سے اس پر بچھ گۓ۔ بیٹھتے ہی میرے ساتھی نے کہا،" دیکھا کام کی ہے نہ یہ چادر ، اب اگر کہیں ہمیں ایسی ہی کسی جگہ رات گزارنی پڑے تو بھی یہ فاںئدہ مند ہے۔" میں ہنسا، "ہاں ہاں ٹھیک ہے۔ اس لحاظ سے تو واقعی فاںئدہ مند ہے۔" 


باہر کی گرمی کے برعکس یہاں خوشگوار ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میرا دوست تو لیٹتے ہی سو گیا مگر میں کافی دیر تک جاگتا رہا۔ درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھے چڑیوں، کوؤں، فاختاؤں کے نغمے سناںئ دے رہے تھے، گھونسلوں میں ان کے ننھے بچے اٹھکیلیوں میں مصروف تھے، ایک دوسرے کو چونچوں سے چھیڑنے، شرارتیں کرنے میں مگن تھے۔ 


مجھے یہ تو معلوم نہیں تھا کہ کیا وقت ہوا ہو گا مگر اتنا معلوم تھا کہ دوپہر ہو چکی ہے۔ گرمیوں کی ان دوپہروں سے میری بڑی پرانی شناساںئ ہے،  بچپن میں گاؤں میں گرمیوں کی دوپہریں اتنی طویل ہوتیں کہ یوں لگتا کہ وقت یہیں تھم گیا ہے، اب سورج کبھی ڈھلے گا ہی نہیں۔  پورے گاؤں میں اس وقت پر سکون سناٹا چھا جاتا۔ اتنی خاموشی اور اتنا ویرانہ تو رات کے وقت نہ ہوتا جتنا ان دوپہروں کو محسوس ہوتا۔ رات کے وقت تو بہت سے گھاس کے ٹڈوں، جھینگروں اور گیدڑوں کی آوازیں سناںئ دیتیں، چھپڑوں اور نالوں سے مینڈکوں کے ٹرٹرانے کی آوازیں آتیں  مگر اس وقت مکمل سکوت ہوتا۔ یہاں تک کہ پرندے بھی اپنے گھونسلوں میں جا چھپتے۔


گاؤں چھوڑے ہوۓ مجھے کافی عرصہ ہو چکا تھا اور اب گاؤں میں طویل مدت کے بعد آیا تھا۔ اب یہاں کی دوپہریں اتنی طویل اور ویران نہیں رہیں جتنی کہ کبھی ہوا کرتیں تھیں۔شاید اب یہاں بھی انٹرنٹ، موبائل اور دوسری بہت ساری سہولیات آجانے سے دوپہروں کی طوالت کا احساس ہی نہیں ہوتا، شہروں کی طرح ٹریفک تو نہیں مگر کسی حد تک یہاں بھی اب ہر وقت موٹرسائیکل، گاڑیوں کی آمدورفت کے باعث دوپہروں کا وہ سناٹا اور ویرانہ بھی اب باقی نہیں رہا۔ معلوم نہیں وہ صحیح تھا یا یہ صحیح ہے مگر کوںئ ایک جگہ تو ایسی ہونی چاہیۓ جو ان شور شرابوں اور ہنگاموں سے پاک ہو۔۔۔شاید یہاں کی زندگی بھی ہر ایک کو پسند نہ آتی ہو، ممکن ہے کسی کو شہر کی پر رونق، ہنگامہ خیز، چکاچوند، والی زندگی زیادہ متاثر کرتی ہو۔ پھر کیا وجہ ہے کہ بہت سے لوگ جو میری طرح گاؤں چھوڑ کر شہروں میں جا بسیں ہوں وہ اپنی پچھلی زندگی کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں۔ کیا وہ واقعی گاؤں کے اس ماحول کو یاد کرتے ہیں یا انہیں محض اپنا بچپن یاد آتا ہے جو اتفاق سے گاؤں میں بسر ہوا۔


یہی آلتو فالتو سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئ۔ میں جب اٹھا تو محسوس ہوا کہ وقت کافی گزر چکا ہے۔ سورج ابھی ڈھلا تو نہیں تھا مگر ڈھلنے کے قریب تھا۔ میرا دوست بھی شاید ابھی ابھی اٹھا تھا اور لیٹے لیٹے ہی کسی سوچ میں گم تھا۔ 


"کیا سوچ رہے ہو"؟ 


میرے اچانک پوچھنے پر وہ چونکا،" ہاں۔۔۔کچھ نہیں بس ایسے ہی۔" اس نے کروٹ بدلی، "یہی سوچ رہا ہوں کہ کیا ہم نے بھاگ کر ٹھیک کیا، جب ہم نے کیا ہی کچھ نہیں تو ہمیں بھاگنا نہیں چاہیۓ تھا۔"


"یہ تو سب جانتے ہیں کہ ہم دونوں نے چوہدری کے بیٹے کا قتل نہیں کیا۔ مگر چوہدری تو ہمیں ہی اپنے بیٹے کا قاتل سمجھتا ہے نا۔ اور تم جانتے ہو پولیس بھی چوہدری کے ساتھ ہے۔"


" ہاں جانتا ہوں مگر پھر بھی۔۔۔"


"پھر بھی کیا،اگر ہم نہ بھاگتے تو مارے جاتے۔تم جانتے ہو یہاں قانون کس کا ساتھ دیتا ہے۔"


 سورج نے اپنی آخری جھلک دکھلاںئ اور دور بادلوں کی اوٹ میں غائب ہو گیا۔ ہم وہاں سے اٹھ کھڑے ہوۓ۔ باہر شام کے آثار ہر سو پھیلے تھے۔ اندھیرا ابھی راستے میں کہیں تھا اس لیۓ ہمیں ہر چیز صاف دکھاںئ دے رہی تھی۔ ہم ایک سمت کو چل پڑے۔ بھوک ہمیں زوروں کی لگی تھی، ہم جلدی جلدی چل رہے تھے تاکہ دکانیں بند ہونے سے پہلے کچھ کھانے پینے کو لے سکیں۔ اچانک کہیں سے زور سے چیخنے کی آواز آںئ۔ "وہ رہے، پکڑو ان کو، جانے نہ پاںئیں۔" پیچھے دیکھا تو پولیس تھی اور ان کے ساتھ سادہ لباس میں چند آدمی۔ ہم ایک طرف کو بھاگے، گولی چلنے کی ایک زوردار آواز آںئ۔ درختوں سے پرندے اڑ کر سارے آسمان پر پھیلے چیخ و پکار کرنے لگے۔ میرا دوست فضا میں کئ فٹ تک اچھلا اس کے ساتھ ہی اس کی چادر بھی۔ چند لمحوں میں وہ بلکل سیدھا زمین پر آگرا، اس کی چادر اس کے اوپر آگری بلکل ایسے جیسے کوںئ آدمی چت زمین پر لیٹے چادر لے کر سویا ہو۔ ہاں واقعی وہ سوہی تو گیا تھا، اس کی بات صحیح تھی چادر واقعی اس کے لیۓ فائدہ مند ثابت ہوںئ تھی۔  چادر نے اسے ڈھانپ لیا تھا۔ 




Post a Comment

Thank you for your comment

Previous Post Next Post

رات